... loading ...
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک میں بحرانی کیفیت ہے لیکن احساس کرنے کی بجائے سیاسی قیادت کی نظریں اہداف حاصل کرنے پرہیں ۔ اِس کے لیے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں ایک دوسرے ناکام بنانے میں مصروف ہیں ۔حکومتی موقف ہے کہ وہ سیاست کی بجائے ریاست بچانے کی جدوجہد کررہی ہے جو حقیقت پر مبنی دکھائی نہیں دیتا ۔بلکہ حالات اِس جانب اِشارہ کرتے ہیں کہ ریاست کی بجائے وہ بدعنوانی کے اپنے کیس ختم کرانے میں مصروف ہے۔ نیب حکام اختیارات محدود کرنے کے لیے کی جانے والی ترامیم اور تارکینِ وطن کے ووٹ کا حق ختم کرنے جیسے فیصلے ایسے خیالات کو تقویت دیتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمران اتحاد عدمِ اعتماد جیسے آئینی حق کے ذریعے اقتدار میں آیا ہے مگر وعدوں کے مطابق مسائل حل نہیں کر سکا۔ اِس وقت مہنگائی کے حوالے سے پاکستان دنیا کے پہلے گیارہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکاہے ۔ اِدارہ شماریات کے جاری کردہ اعداوشمار کے مطابق فروری کے منی بجٹ نے مہنگائی کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے جو 46.65ہوچکی مگر حکمران صفوں میں مہنگائی سے مجبور عام آدمی کے مسائل حال کرنے سے زیادہ اپوزیشن کو کچلنے اور دیوار سے لگانے پرکام جاری ہے جس سے اِس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ انھیں ملک یا عام آدمی کے مسائل سے سروکار نہیں بلکہ آمدہ انتخابات جیتنازیادہ اہم ہے اور اِس کے لیے ہر حربہ جائزتصورکرتے ہیں۔ اپوزیشن بھی مسائل کے حل کے لیے حکومت کو وقت دینے کی بجائے ناکام بنانے میں مصروف ہے تاکہ اِس ناکامی سے اپنی جیت کو یقینی بنایا جا سکے ۔
پاکستا ن کی معیشت بحال کرنے کے لیے فوری قرضہ ضروری ہے مگر باوجود کوشش کے آئی ایم ایف سے حکومت ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی قسط نہیں حاصل نہیں کر سکی ۔اِس لیت ولعل کے بارے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ساکھ سے محروم حکمرانوں پر مالیاتی اِدارہ اعتبار کرنے سے ہچکچارہاہے۔ ابھی حال ہی میں آئی ایم ایف کی کمیونی کیشن کی ڈائریکٹر جولی کوزک نے کہا ہے کہ دوطرفہ شراکت داروں کی طرف سے مالی تعاون کا یقینی دلانے کے بعدہی مزیدقرض دینے کا فیصلہ کریں گے۔ اِس کے لیے ورلڈ بینک،ایشیائی انفرا اسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک کے علاوہ چین ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے یقین دہانیاں مشروط کی ہیں۔ یہ صورتحال اچھی نہیں۔ حکومتی ارسطو اسحاق ڈار نے وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ ڈالر کو واپس پرانی قیمت پر لایا جائے گا۔ لیکن روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ جاری ہے مگر حکمران لا پرواہ اورسیاسی چالیں چلنے میں مصروف ہیں اگرپرواہ ہوتی تو سیاسی بحران کے حل کی جانب قدم بڑھاتے ۔یہ طرزِ عمل ہی سیاسی بحران میں شدت لانے کا باعث ہے کیونکہ عوامی مسائل نظر انداز کرنے کی بناپر حکمران عوامی حمایت کھو رہے ہیں جس کی تائید انتخابات کی طرف جانے سے گریزکرنے سے ہوتی ہے ۔
رواں ماہ 22 مارچ کی شب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 58اور آئین کے آرٹیکل3) ) 218کی روسے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات رواں برس آٹھ اکتوبر کوکرانے کا اعلان کیا۔ فنڈز اور حفاظتی انتظامات کے لیے مطلوبہ افرادی قوت کی عدم فراہمی کوبطورجواز پیش کیا حالانکہ سپریم کورٹ کی طرف سے دونوں اسمبلیوں کے انتخابات اگلے ماہ 30اپریل کو کرانے کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن شیڈول میں اِس تبدیلی نے بھی سیاسی بحران میں اضافہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بناناہے۔ اُس کے پاس التواکے اختیارات نہیں ۔آئین میں اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعدنگران سیٹ اَپ بنانے اور نوے دن کے اندر انتخاب کرانے کی مکمل وضاحت ہے ۔سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود بظاہر الیکشن کمیشن کی طرف سے التواکا اعلان آئین سے انحراف ہے ۔27مارچ سے سپریم کورٹ میں تحریکِ انصاف کی طرف سے دائر پٹیشن کی سماعت بھی شروع ہو چکی جس کے بارے قانونی ماہرین متفق ہیں کہ عدالت تیس اپریل کو الیکشن کرانے کے اپنے فیصلے کو بحال کرسکتی ہے مگر حکومت ایسا کوئی فیصلہ آنے سے روکنے کے لیے کوشاں ہے اورمقصدکے حصول کے لیے ججز میں پھوٹ ڈلوانے کا بھی خدشہ ہے ۔یادرہے نوازشریف کے اپنے دور ِ اقتدارمیں عدالتِ عظمیٰ پر حملہ کرانے اور سربراہ بدلنے جیسا کام ہو چکے اب اگر اُن کے چھوٹے بھائی بھی اسی روش پرچلتے ہیں تو عدالتی فیصلوں کی نہ صرف توقیر متاثر ہو گی بلکہ انصاف کرنے اور آئین کی پاسداری کا عمل بھی سُست ہوگا۔
دواسمبلیوں میںانتخابی عمل بارے پائی جانے والی بے یقینی ختم کرانے کے لیے صدرِ مملکت عارف علوی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط لکھا جس میں انھوںنے دونوں صوبوں میں شفاف انتخابی عمل یقینی بنانے ،سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں روکنے سمیت وزیرِ اعظم کو کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو دونوں صوبوں میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنے کی ہدایات دیں تاکہ توہینِ عدالت سمیت دیگر پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ ملک کے آئینی سربراہ کی حثیت سے اُن کا یہ عمل غیر آئینی نہیں حکومتی فیصلے، مجاز اتھارٹی یا کسی محکمے کے اقدامات سے اگر آئین شکنی کا اندیشہ ہو توضروری ہے کہ رکوانے کے لیے صدرکردار ادا کریں لیکن خط پر وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ نے شدید ردِ عمل دیا اور صدر کو اوقات میں رہنے جیسی دھمکی دی ۔رانا ثنااللہ کی بات نواز شریف اور مریم نواز کا موقف سمجھا جاتا ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جوابی خط میں صدر کو لکھا کہ اُن کاخط پی ٹی آئی کی پریس ریلز لگتاہے آپ سے اچھے تعلقاتِ کار قائم کرنے کی کوشش کی لیکن اآپ نے ہمیشہ چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے اقدامات کیے ایسا لب و لہجہ آئینی عہدوں کی بے توقیری اور بحران بڑھانے کی جانب اِشارہ ہے جس کا حل دونوں طرف سے بات چیت سے ممکن سے ممکن ہے لیکن ایسے آثار نظر نہیں آتے کہ کوئی فریق سیاسی چالیں چھوڑ کر ملک کے بارے سوچنے پر آمادہ ہوجائے ۔
عمران خان کے ہر عمل اور فیصلے کی تائید نہیں کی جا سکتی کیونکہ ہر حکومتی فیصلے اور عمل پر تنقید مناسب نہیں۔ انھوں نے وفاقی حکومت گرانے کا مطالبہ کرتے کرتے اپنی جماعت کی دوصوبائی حکومتیں ختم کردیں ۔یہ فیصلہ سیاسی کم فہمی کامظہرہے۔ حکومت کا بھی اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا عمل قطعی غیرجمہوری ہے۔ موجودہ بدترین معاشی حالات اور عوامی مسائل کا تقاضا ہے کہ ملک میں تقسیم بڑھانے کی بجائے افہام و تفہیم کی فضا کے لیے کچھ لو کچھ دو کے فارمولے پر گفتگوہو لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ رانا ثنا اللہ کی طرف سے دھکمیاں دینے اورتجاویزپر دس چپیڑیں مارنے جیسے مریم اورنگزیب کے نامناسب بیانات سے اجتناب کیا جائے ۔اِس میں دورائے نہیں کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں25 مارچ کی شب لاہور مینارِ پاکستان ہونے والا جلسہ اِس کا ثبوت ہے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کرنے گرفتاریوں اور تشدد کے باوجود عوام کی بڑی تعداد شامل ہوئی پھربھی مائنس کرنے کی کوشش مسائل سے دوچار ملک میں سیاسی ومعاشی مسائل بڑھا سکتی ہے ۔ معاشی اورسیاسی بحران کے باوجود سیاسی چالیں چلنے سے ملک یا اِداروں کا بھلا نہیں ہو سکتا۔ عمران خان تارکینِ وطن میں بھی مقبول ہیں ۔ اپنی حکومت کے دوران جب بھی ترسیلاتِ زربڑھانے کی انھوں نے اپیل کی تو ہمیشہ مثبت ردِ عمل آیا لیکن اب ترسیلاتِ زر میں مسلسل گراوٹ آتی جارہی ہے اور اِس حوالے سے کسی حکومتی فیصلے یا اقدام کو پزیرائی نہیں مل رہی جو تارکینِ وطن کی ناراضگی یا بداعتمادی کی طرف اشارہ ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن بحرانی کیفیت میں سیاسی چالیں چلنے کی بجائے ایک دوسرے کی طرف دستِ تعاون بڑھائیں تو کسی حدتک مسائل حل ہونے کاامکان ہے لیکن ایسے کوئی آثار نظر نہیں آتے ۔
٭٭٭