... loading ...
ایم سرور صدیقی
مفت آٹے کے لیے آنے والے غریبوں سے جو سلوک ہورہاہے اس پر تبصرہ کرنے سے دل دکھتاہے کہ حکمرانوںکے اقدامات نے لوگوںکی عزت ِ نفس کا جنازہ نکال کررکھ دیاہے۔ سوشل میڈیا پرجو ویڈیو وائرل ہورہی ہیں ،وہ بہت دل خراش ہیں ۔اتنی دل خراش ہیں کہ بیان سے باہرہے ۔ لگتاہے مفت آٹے کا حصول غریبوںکے لیے زندگی اور موت کی جنگ بن گیاہے ؟
ایک ویڈیو میں صاف صاف دیکھا جاتاہے کہ مفت آٹے ے حصول کے لیے آنے والوں پر پولیس اہلکار بڑی بے رحمی سے لاٹھیاں برسا رہے ہیں ۔دوسری ویڈیو میں پولیس والے لوگوں کو مارتے دکھائی دیتے ہیں ۔کوئی خواتین کو دھکے ماررہاہے تو کوئی عورتوں کے منہ پرتھپڑرسیدکررہاہے۔ ایسا سلوک تو دشمنوںسے بھی نہیں کیا جاتا،جیسے غریبوںکا کوئی والی وارث نہ ہو۔ اطلاعات ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں مفت سرکاری آٹا اب تک 8 شہریوںمیں موت تقسیم کرچکاہے ۔ جبکہ کئی افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔بھکر میں مفت آٹے کے حصول کے لیے آنے والا شخص انتقال کر گیا جبکہ ملتان میں ایک شخص سستا پوائنٹ میں آٹا لینے آنے والا دھکم پیل کے باعث دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔فیصل آباد میں مفت آٹا لینے آئے بزرگ کی جان چلی گئی اور مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں مفت آٹے کے حصول کے لئے لائن میں لگی خاتون کو آٹا تو نہ مل سکا لیکن دل کا دورہ پڑنے سے اس کی جان چلی گئی۔چارسدہ میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران دھکم پیل اور بھگدڑ میں 40 سالہ شخص جاں بحق ہو گیا۔ تونسہ میں آٹا نہ ملنے پر شہریوں نے نئے تعینات اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے احتجاج کیا، ایک خاتون نے اسسٹنٹ کمشنر کی واسکٹ اتار لی،اسسٹنٹ کمشنر کے گارڈ نے خاتون کو تھپڑ مارا تو شہری مشتعل ہو گئے اور اسسٹنٹ کمشنر کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔
تازہ ترین واقعات میں بھکر میں ایک بزرگ شہری الٰہی بخش فری آ ٹا پوائنٹ پر آیا ، گھنٹوں لائن میں لگنے کے بعد جب آٹا وصول کرکے تھکا ہارا واپس جانے لگا تو اچانک چکراکر گر گیا موقع پر موجود لوگوں نے سنبھالا مگر جانبر نہ ہو سکا۔ 65 سالہ الہٰی بخش دل کا مریض تھا ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ واقعہ کے بعد ڈپٹی کمشنر بھکر آفس سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ متوفی الہٰی بخش کی وفات سے پہلے اور وفات کے دوران یا بعد میں آٹے کی تقسیم کا عمل نظم و ضبط کے ساتھ جاری رہا۔ مظفرگڑ ھ میں مفت آٹا پوائنٹ پر بھگدڑ مچنے سے بزرگ خاتون جاں بحق ہو گئی۔پولیس کے مطابق خاتون مقامی میرج ہال میں قائم آ ٹا پوائنٹ کا گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہی تھی، گیٹ کھلنے پر دھکم پیل کے باعث خاتون گر کر زخمی ہوئی۔پولیس کا کہنا ہے کہ 60 سال کی بزرگ خاتون کو ریسکیو اہلکاروں نے اسپتال منتقل کیا جہاں وہ دم توڑ گئی۔ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) ظہیر عباس جعفری نے مفت آٹا پوائنٹ پر خاتون کے جاں بحق ہونے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ڈی سی مظفر گڑھ کا کہنا ہے کہ معا ملہ کی تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔خیبر پختونخوا میں آٹے کیلئے برقعہ پوش خواتین کی میلوں طویل قطار کا منظر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا رہا ،شہریوں نے کہا کہ اسلام میں خواتین کے احترام کا درس دیا گیا ہے لیکن یہاں حکومت آٹے کیلئے باعزت سفید پوش خواتین کو گھنٹوں طویل قطاروں میں کھڑا کرکے تذلیل کرہی ہے ،خواتین کاکہنا ہے کہ مفت آٹا فراہمی کی پالیسی ختم کر کے دکانوں پر سستا آٹا مہیا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مفت آٹے کے لیے قطاروں میں خوار ہونے پر مجبور ہیں، حکومت مفت آٹا کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوگئی ، سارا دن آٹا لینے کیلئے لائنوں میں لگی رہتی ہیں جب ہماری باری آتی ہے تب ہمیں ڈیوائس نہ چلنے یا میسج رجسٹرڈ نہ ہونے کا بہانہ لگا کر واپس بھجوادیا جاتا ہے۔ وزیر عظم اوروزیراعلیٰ فوری کارروائی کرنی چاہیے۔عام لوگوںکا خیال ہے کہ میاںشہبازشریف نے ہمیشہ نمائشی منصوبے روشناس کروائے ہیں جن کا مقصد ستائش کے سوا کچھ نہیں ۔ ماضی میں میاں شہبازشریف نے سستی روٹی اسکیم متعارف کروائی تھی۔ عام آدمی سے زیادہ تندوروالوں،ٹائون انتظامیہ اوربیوروکریسی نے لمبا مال کمایا۔ایسی سکیموںسے عام آدمی کی عزت ِ نفس مجروح ہوتی ہے۔ خاد ِ م پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں لوگوںکو اس طرح ذلیل کرنے کے بجائے عام دکانوںپر سستے آٹے کی فراہمی کو یقینی بناتے جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے۔
کچھ حلقوںکا کہناہے کہ سستے آٹے کی آڑ میں بارش میں بھیگی گندم،ناقص ،گلے سڑے گیہوں اور روٹی کے ٹکڑے پیسے جارہے ہیں ۔اگر یہ سچ ہے توجس سے پیٹ، معدے اور سانس کی بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے اس ضمن میں عجیب و غریب ویڈیوزبھی وائرل ہورہی ہیں جن میں پرانی، کالی اور بدبو دار گندم سے آٹا تیار کرکے مفت تقسیم کرنے کا دعویٰ کیا جارہاہے۔ حکومت کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہیے تھا۔کچھ بلدیاتی نمائندوںکاتبصرہ تھا حکومت اگر واقعی عوام سے مخلص ہوتی تو وہ مفت آٹے کی فراہمی کا کوئی مربوط نظام تشکیل دیتی ۔ لوگوںکو ایسے نہ خجل ،خراب کیا جاتا ۔عام آدمی کی رسائی کے لئے بلدیاتی نظام سے استفادہ کیا جاتا تو آج یہ حالات نہ ہوتے یونین کونسل لیول پرمفت آٹے کی فراہمی کے لیے بلدیاتی نمائیدوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتیں ۔ایک دو یہ لوگ اپنی اپنی یونین کونسل میں مستحقین کو ذاتی طورپر جانتے ہیں۔ دوسرا کونسلرمستحقین کے گھر گھر خودمفت آٹے کے تھیلے سپلائی کرتے تو بہتوںکا بھلاہوتا اور عام لوگوںکی عزت ِ نفس کا جنازہ سرِ بازار نہ نکلتا۔
٭٭٭