وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کے دانشمندانہ فیصلے

اتوار 26 مارچ 2023 عمران خان کے دانشمندانہ فیصلے

سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے انتخابات ملتوی کرنے فیصلے کے خلاف آج سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ پر اعتمادہے وہ آئین سے انحراف نہیں ہونے دے گی،پوری قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے،سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ بارسمیت 96بار ایسوسی ایشنزنے فیصلے کو مسترد کیا ہے،وکلاکی تحریک چلے گی تو تحریک انصاف ان کے پیچھے کھڑے ہو گی،مقرررہ مدت کے بعد نگراں حکومت کی کوئی گنجائش نہیں، الیکشن کمیشن نے آئین کی دھجیاں اڑادیں‘ پانچوں ممبرز پر آرٹیکل 6لگنا چاہئے‘ الیکشن کمیشن نے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں،الیکشن کمیشن نے پتہ نہیں کون سے آئین کی تشریح پڑھی کہ نئی تاریخ کا فیصلہ دیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ہدایات دی ہیں کہ تحریک انصاف کے سینیٹرز پیر کو جوائنٹ سیشن میں شرکت کریں گے۔عمران خان نے واضح کیا کہ آئین کی حفاظت سپریم کورٹ اور عوام کوکرنی ہے‘پوری قوم سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی ہے۔ آئین کو بچانا سپریم کورٹ کا فرض ہے اسی مقصد کیلئے سپریم کورٹ کے ججزہیں،سپریم کورٹ پر بہت دباؤ ہے ججوں کوبلیک میل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے پوری مہم چلائی گئی ہے لیکن سپریم کورٹ کے ججز تاریخ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق احمد خان نے الیکشن کمیشن کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرکے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہورہا ہے صدر لاہور ہائیکورٹ بار اشتیاق احمد خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرانے کی جو وجوہات دیں سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہے، الیکشن کمیشن نے اب سپریم کورٹ کے انتخابات کروانے کے حکم پر عملدرآمد کرنا ہے، الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انتخابات کا شیڈول واپس لیا، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرکے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہورہا ہے، وکلاء برادری قانون کی حکمران کیلئے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ساتھ کھڑی ہے، اس کیلئے تحریک بھی چلانا پڑی تو تمام بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز تیار ہیں۔ اشتیاق احمد خان کا کہنا تھا کہ ججوں میں ذاتی اختلاف نہیں فیصلوں میں اختلاف ہوتا ہے، حکومت سپریم کورٹ میں اختلافات پیدا کر کے ادارے کی تباہی کا باعث بنے گی۔
جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے تو دیکھا جائے تو عمران خان الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکشن ملتوی کرنے کے اعلان کے خلاف کوئی تحریک چلانے کی بات کرنے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا فیصلہ کرکے پہلی مرتبہ انتہائی دانش مندی کا ثبوت دیا ہے،ان کے اس فیصلے سے یہ ظاہرہوتاہے کہ انھوں نے اپنے سابقہ تجربات سے سبق سیکھنا شروع کردیاہے اور وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ تحریک چلاکر موجودہ حکومت کو کسی بات پر مجبور کرنا ممکن نہیں ہے،اسی طرح عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ ختم کرکے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرکے بھی انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیاہے،کیونکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کی شرکت کی صورت میں مخلوط حکومت کو کسی طرح کی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں مل سکے گی۔جہاں تک الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے متوقع فیصلے کا تعلق ہے تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے یہ کہا تھا کہ انتخابات کی شفافیت میں الیکشن کمیشن کی بدنیتی سامنے آئی تو سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے گی۔ شفافیت تو کیا یہاں تو الیکشن کا وہ شیڈول ہی الٹا دیا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے حکم سے دیا گیا تھا،الیکشن کمیشن نے تو ہاتھ کھڑے کئے ہیں الیکشن کمیشن کا موقف وفاقی حکومت کے خلاف پوری چارج شیٹ ہے کہ یہ ہمیں پیسے دے رہے ہیں نہ یہ ہمیں سیکورٹی دے رہے ہیں تو ہم الیکشن کیسے کرائیں گے۔ اب یقینا سپریم کورٹ میں بنیادی سوال ہی یہ اٹھے گا کہ الیکشن کمیشن کیا سپریم کورٹ کی منظوری کے بغیر انتخابات کو اس طرح ملتو ی کر سکتا ہے اگر اس نے ریاستی اداروں سے مشاورت مکمل کر بھی لی تھی تو اس کا سارا مواد سپریم کورٹ کے سامنے رکھ کر رہنمائی طلب کرنی چاہیے تھی کہ ان حالات میں الیکشن کیسے کرانے چاہئیں، اس کی بجائے الیکشن کمیشن نے خود ہی ان دلائل سے مطمئن ہو کر 30اپریل کے انتخابات ملتوی کر دیئے اور اپنی مرضی سے 8اکتوبر کی تاریخ بھی دے دی۔یہ معاملہ اتنا سادہ تو ہے نہیں، آئین میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90دنوں میں انتخابات کرانے کی واضح شق موجود ہے۔ سپریم کورٹ نے تمام فریقوں سے ان کا موقف سننے کے بعد یہ حکم جاری کیا کہ انتخابات 90دنوں میں ہوں گے تاہم تکنیکی طور پر چند روز کا اضافہ کیا جا سکتا ہے، اس پر صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو مشاور ت کیلئے بلایا اور وہی الیکشن کمیشن جو پہلے صدر مملکت سے معذرت کر چکا تھا، صدر کو دو تاریخیں دینے پر مجبور ہوگیا جن میں سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے 30اپریل کی تاریخ سے اتفاق کیا اور یوں یہ معاملہ نمٹ گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس کے بعد انتخابات کا شیڈول بھی جاری کر دیا۔ کاغذات نامزدگی بھی وصول کئے گئے، آج کل ان کی سکروٹنگ کا عمل جاری تھا۔ اب ذرا واقعات کی ترتیب دیکھئے۔20مارچ کو تمام حکومتی جماعتوں کا اجلاس ہوتا ہے جس میں انتخابات کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں دو صوبوں کے انتخابات کو غیر مناسب قرار دے کر انہیں عام انتخابات کے ساتھ کرانے کی ضرورت و اہمیت واضح کی جاتی ہے۔ اس کے بعد 22مارچ کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ دوٹوک الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ قومی انتخابات سے پہلے دو صوبوں میں انتخابات سے انتشار پھیلے گا۔ اس سے جمہوریت کو فائدے کی بجائے نقصان ہوگا، اس لئے یہ انتخابات نہیں ہونے چاہئیں۔ ان کے خطاب کی گونج ابھی موجود تھی کہ الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک منصوبے کے ساتھ کیا گیا اور اس کا سکرپٹ پہلے لکھا جا چکا تھا۔اگرچہ حکومتی حلقوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو بحران سے بچنے کی ایک کوشش قرار دیا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد بحران بڑھ گیا ہے۔ یہ بحران آئینی بھی ہے اور سیاسی بھی۔ آئینی بحران کی نوعیت یہ ہے کہ آئین میں درج 90دن کی مدت کو کیسے آگے لے جایا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بار اس کی روایت پڑ گئی تو پھر آئندہ اسے کیسے روکا جا سکے گا۔ ایک طرف آئین کی شق اور دوسری طرف سپریم کورٹ کا حکم۔ اگر اس کے باوجود انتخابات نہیں ہوتے تو مستقبل میں من مانی تشریح اور فیصلوں کا راستہ کھل جائے گا جس سے انتشار بڑھے گا اور ہم سرزمین بے آئین کی شکل اختیار کر جائیں گے۔ الیکشن کمیشن نے صرف یہی نہیں کیا کہ 30 اپریل کی تاریخ ملتوی کر دی بلکہ 8اکتوبر کی نئی تاریخ بھی دے دی۔
اس تاریخ کا تعین کس طریقے اور کس فارمولے کے تحت کیا گیا اور اس کیلئے کس سے مشاورت کی گئی۔ اس پر کون یقین کرے گا کہ 8اکتوبر کو انتخابات ہو جائیں گے۔ پھر تو ان انتخابات کا حشر بھی بلدیاتی انتخابات جیسا ہی ہو گا جن میں تاریخ پر تاریخ دی جاتی ہے۔ سب سے بڑا آئینی سوال یہ ہے کہ 90دن گزر جانے کے بعد دونوں صوبوں کی نگران حکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ آئین میں تو واضح درج ہے کہ 90دنوں کے لئے نگران حکومتیں قائم کی جائیں گی، اس سے آگے تو ان کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں، اگریہ حکومتیں 90دنوں کے بعد بھی کام کرتی ہیں تو ان کے فیصلوں کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ من مانی کرتے ہوئے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے تاہم اگر اس ملک کو آئین کے مطابق چلانا ہے تو پھر آئین ہی سے رہنمائی لینی پڑے گی۔ آئینی بحران کے ساتھ ساتھ سیاسی بحران بھی اس فیصلے کے بعد شدت اختیار کرے گا۔ اگر یہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوتا اور تحریک انصاف کو بھی ان وجوہات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جاتا، جن کی وجہ سے 30اپریل کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں تو شاید اس بحران میں کمی آ جاتی۔ حکومت کی طرف سے بار بار یہ تو کہا جا رہا ہے کہ صوبائی اور قومی انتخابات ایک ہی تاریخ پر ہونے چاہئیں مگر اس حوالے سے تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی جا رہی۔
حالات ہیں کہ کشیدہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران اتحاد نے اپنے ایک اجلاس میں صرف اس نکتے پر غور کیا ہے کہ عمران خان کو راہ راست پر کیسے لانا ہے۔ سارا زور اس بات پر دینا ہے کہ ریاستی رٹ منوائی جائے اور مخالفین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا لیا گیا ہے اور خبریں آ رہی ہیں کہ تحریک انصاف کے بارے میں حکومت کوئی فیصلہ کرنے جا رہی ہے لیکن عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کرکے حکومت کی من مانیوں کی راہ ایک دیوار کھڑی کردی ہے جس کی حکومت کو توقع ہی نہیں تھی۔ اس سے پہلے تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومت نے یہ طے کر لیاہے اب طاقت کے زور پر تحریک انصاف کو دبانا ہے اور اسے پنجاب کے انتخابات کی کمپین بھی نہیں کرنے دیتا۔ دوسری طرف عمران خان مسلسل یہ کہہ رہے، انہیں قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ اسلام آباد پیشی کے موقع پر انہیں مارنے کی پوری تیاری کر لی گئی تھی بروقت علم ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی نکال کے بچنے میں کامیاب ہو گئے۔ انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا ہے جس میں استدعا کی ہے کہ ان کے مقدمات کی سماعت وڈیولنک کے ذریعے کی جائے کیونکہ اتنے زیادہ مقدمات میں ان کی بار بار پیشی ان کی جان کیلئے خطرہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے بیک وقت ان دو متضاد باتوں کی وجہ سے معاملہ اُلجھ جاتا ہے۔ اُدھر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور انہوں نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب پولیس کی طرف کوئی ہاتھ بڑھائے گا تو وہ ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ انہوں نے پولیس کو فری ہینڈ بھی دے دیا ہے۔ تحریک انصاف کے حلقے وزیراعلیٰ محسن نقوی کی ان باتوں کو نگران وزیراعلیٰ کے منصب سے بعید قرار دے رہے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے وزیراعلیٰ بنتے جا رہے ہیں جو غیر جانبداری کی حدود سے نکل چکا ہے۔یہ تمام صورتِ حال اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ سیاسی حالات کشیدگی کی طرف جا رہے ہیں اور مفاہمت کی کوئی صورت، کوئی کوشش دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آخر اس کا انجام کیا ہو گا
جب سیاست بے لگام ہوتی ہے تو اسی قسم کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ یہ عمران خان کی خوش قسمتی سمجھیں یا عوامی شعور کی اُٹھی ہوئی لہر کہ یہ پہلی حکومت تھی جس کے جانے پر عوام کی اکثریت ناراض ہوئی ہے اور اس فیصلے کو قبول نہیں کیا گیا اوپر سے پی ڈی ایم کی حکومت کی نااہلیوں اور کمر توڑ مہنگائی نے عمران خان کی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے اور عمران خان ایک بار پھر مسیحا کا روپ دھار گئے ہیں۔ اس بار جس طرح عوام نے والہانہ عمران خان کو چاہا اور ان کا ساتھ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی، جس طرح عوام عمران خان اور ریاست کے درمیان میں آ کر عمران خان کے لئے ڈھال بنے ہوئے ہیں اور خان مخالف تمام قوتوں کو للکار رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اگر عوامی حمایت کے زور پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا وہ واقعی عوام کے لیے ایک مسیحا بنیں گے اور پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال سکیں گے؟


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر