... loading ...
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل جنہیں چھو نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونق بازار نظر آتے ہیں
مست مجذوب درویش شاعرساغر صدیقی کو انتقال کے 50 سال بعد ستارہ امتیاز سے نواز دیا گیا۔ ساغر صدیقی زندگی کو جبر مسلسل کی طرح کاٹنے والے شاعر تھے۔ ساغر صدیقی کی سخی لعل شہباز قلندر کی عقیدت میں لکھی گئی دھمال لعل میری پت رکھیو بھلا جھولے لعلن اتنی مقبول ہوئی کہ اس نے برصغیر پاک و ہند کے ساتھ ساتھ دنیا کے کونے کونے میں دھوم مچادی ۔ساغر صدیقی کی سخی لعل شہباز قلندر کی عقیدت میں لکھی یہ دھمال نصرت فتح علی خان، ملکہ ترنم نور جہاں، عابدہ پروین، رونا لیلیٰ، میکا سنگھ سمیت بے شمار نامور گلوکاروں نے گائی اور خوب داد سمیٹی۔ ساغر صدیقی جنکا اصل نام محمد اختر تھا 14 اگست 1928 ہندوستان کے شہر امبالہ میں پیدا ہوئے۔ ساغرصدیقی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال امبالہ اور سہارنپور میں گزارے ۔ ابتدائی تعلیم حبیب حسن سے حاصل کی جو انکے خاندانی دوست بھی تھے نوجوان محمد اختر بعد میں ساغر صدیقی کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے حبیب حسن سے بہت زیادہ متاثر تھے اور ان کی وجہ سے انہیں اردو شاعری میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ انہوں نے بچپن میں ہی شعر کہنا شروع کردیے اور پھر وہ کام کی تلاش میں جب امرتسر گئے تو شاعری کے ساتھ ساتھ لکڑی کی کنگھیاں بھی بناتے رہے۔ شروع شروع میں کچھ عرصہ انہوں نے ناصر حجازی اپنا قلمی نام رکھا لیکن بعد میں وہ ساغر صدیقی میں تبدیل ہو گئے ۔
ساغر صدیقی جب 15 سال کے تھے تو انہوں نے جالندھر، لدھیانہ اور گورداسپور میں مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کر دی تھی۔ قیام پاکستان کے وقت1947 میں جب وہ 19 سال کے تھے پاکستان ہجرت کی اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی ۔ساغر صدیقی کابہت سا وقت مال روڈ پر بھی گزرا خاص کر چیئرنگ کراس کے ساتھ جہاں پہلے نوائے وقت کا دفتر ہوتا تھا۔ اس کے باہر مین روڈ پردوکان کے بنے ہوئے تھڑے پر جہاں وہ اپنے مخصوص کمبل کو لپیٹے اپنی موج میں ہوتے۔ ساتھ بنی کینٹین سے چائے اور پانی پی کر سرکلر روڈ، انارکلی بازار، اخبار مارکیٹ، ایبک روڈ، شاہ عالمی یا پھر داتا دربار کی طرف چل دیتے ۔ خوش قسمتی سے میرا دفتر بھی مال روڈ حفیظ چیمبر میں ہے۔ جس کے باہر ساغر صدیقی کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔آج بھی جب میں اور ندیم بٹ وہاں بیٹھتے ہیں تو ساغر صدیقی کو ضرور یاد کرتے ہیں۔
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
ساغر صدیقی کے بارے میں بہت سے قصے مشہور ہیں لاہور پریس کلب کی ہر دلعزیز شخصیت ظل الہی جناب اقبال بخاری بھی ساغر صدیقی کے مشاعرے سن چکے ہیں بہت سے شعر انہیں زبانی یاد ہیں کلب کے ٹیرس پرجب وہ صدیقی صاحب کے شعر سناتے ہیں تو وہاں بیٹھے ہوئے اقبال جھکڑ صاحب ،جے جے گجر ،نعیم اختر ،شفیق بھٹی اور طاہر انجم سمیت حاجی صاحب بھی جھوم اٹھتے ہیں
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجئے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجئے
ساغر صدیقی صاحب نے فلم انڈسٹری کے لیے بھی شاعری کی اور ایک ادبی رسالہ بھی شائع کیا لیکن مالی بحران سے تنگ آکر انہوں نے میگزین بند کر دیا۔ساغر صدیقی نے حکومت کی طرف سے پناہ گزینوں کو دیے گئے مکان میں رہنے کے بجائے سستے ہوٹلوں میں رہنا پسند کیا۔ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ صدر ایوب خان بھارت میں ایک مشاعرے پر مدعو تھے تو وہاں پر انہوں کے ایک نظم سن کر اسکی بہت تعریف کی اور شاعر سے کہا کہ جو نظم آپ نے پڑھی ہے وہ درد میں ڈوب کر خون سے لکھی ہوئی ہے جس پر شاعر نے جواب دیا کہ خوش قسمتی سے اس نظم کا خالق پاکستان میں ہی رہتا ہے تو جنرل صاحب دنگ رہ گئے اور نام پوچھا کہ اتنا بڑا ہیرو میرے ملک میں اور مجھے علم ہی نہیں جس پر انہیں بتایاگیا کہ اس درد بھرے شاعر کا نام ساغر صدیقی ہے اور وہ لاہور میںداتا صاحب کے قریب رہتا ہے۔ ایوب خان نے پاکستان پہنچتے ہی ایک خاص وفد تحفے تحائف کے ہمراہ ساغر صدیقی کی خدمت میں ملاقات کی درخواست کے ساتھ بھیجا۔ اس وفد نے داتا صاحب کے باہر پہنچ کر کسی سے شاعر ساغر صدیقی کے گھر کا پوچھا تو وہاں پر موجود چند لوگوں نے طنزیہ انداز میں کہاکیسا گھر اور کہاں کا شاعر ؟ ارے آپ کہیں اس چرسی اور بھنگی کی بات تو نہیںکررہے جو سامنے سڑک کنارے نشیئوں کے جھرمٹ میں مدہوش ہے۔ وفد نے جاکر صدر ایوب کا پیغام دیا تو ساغر صدیقی کہنے لگے کہ جائو جاکر کہہ دو کہ ساغر کسی سے نہیںملتا۔ وفد نے جاکر بتادیا صدر ایوب لاہور آئے تو ساغر صدیقی سے خود ملنے چلے گئے جب انہوں نے انکی حالت دیکھی تو ان کی آنکھیں بھر آئیں اور پھر جب انہوں نے غم سے چور اور نشے میں مست ساغر صدیقی سے سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا توساغر صدیقی نے یہ کہہ کرہاتھ پیچھے کرلیا کہ
جس عہدمیں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی پاکستان آنے کے ایک عشرے کے اندر ہی مایوس ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ حقیقی ٹیلنٹ کی بجائے کرپشن اور اقربا پروری کو نوازا جا رہا ہے۔ مایوسی کے عالم میں انہوں نے سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا استعمال شروع کردیا۔ ساغر صدیقی مالی حالات کے باعث مایوسی کااس حد تک شکار ہوئے کہ ہوٹل چھوڑ کر سڑکوں پر رہنا شروع کردیا۔ اکثر فٹ پاتھوں پر موم بتی کی روشنی میں بھی نشے کے عوض دوسروں کو شعر اور غزلیں لکھ کردے دیا کرتے تھے جو وہ اپنے نام سے منسوب کرلیتے ۔ساغر صدیقی کی دھمال پاکستان میں اتنی مقبول ہوئی کہ آج بھی صوفی مزاروں اور خاص طور پر لعل شہباز قلندر کے مزار پر مختلف گلوکار گاتے ہیں۔ اس دھمال کی اصل کمپوزیشن فلم وارث شاہ (1950 کی دہائی) کی ہے جسے عنایت حسین بھٹی نے موسیقار عاشق حسین کی موسیقی میںپرڈیوس کیا۔ جنوری 1974میں ان پر فالج کا حملہ ہوا تواپنا علاج خود ہی کیا۔فالج سے تو نجات مل گئی لیکن انکا دایاں بازو کام کرنا چھوڑ گیاکچھ دن بعد منہ سے خون نکلنا شروع ہو گیا جو تقریبا تین دن تک جاری رہا۔ خواراک بھی برائے نام تھی اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ سب کو معلوم ہو چکا تھا کہ اب وہ دن دور نہیں جب وہ کسی سے چونی نہیںمانگے گا اور آخر کار 19 جولائی 1974 کی صبح جب لوگ بیدار ہوئے تو دیکھا کہ سڑک کنارے ایک سیاہ گھٹڑی سی پڑی ہے قریب جاکردیکھا تو معلوم ہوا کہ اپنے وقت کا نامور بے روزگار شاعر ساغر صدیقی اس جہان فانی سے رخصت ہو چکا ہے
موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
ساغر صدیقی کو میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیاسوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی بے حسی اور حکمرانوں کی کرپشن نے نہ صرف ساغر صدیقی کو اپنانے سے انکار کردیابلکہ بہت سے ہیرے ہم نے برباد کردیے جو ساغر صدیقی کی طرح سڑکوں پر زندگی کے دن پورے کرتے ہیں ۔خیر سے ساغر صدیقی کی موت کے پچاس سال بعد ہم نے انہیں ستارہ امتیاز سے نوازادیا اور ساغر صدیقی کو ستارہ امتیاز اس وقت ملا جب وہ ستاروں سے بہت دور چلے گئے ۔کاش زندگی میں ہی ہم ایسے لوگوں کی قدر کرنا سیکھ جائیں تاکہ کل کو کوئی اور ساغر صدیقی سڑکوں پر اپنا ہنر نہ بیچتا پھرے ۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
٭٭٭