... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امرت کال میں شاہ کوٹ، رام پورپھول کے اندر امرت پال کا پروگرام تھا۔ پنجاب پولیس کی تقریباً 60 گاڑیاں امرت پال سنگھ کا پیچھا کر رہی تھیں۔ شاہ کوٹ کے قریب پولیس کی گاڑیاں اس کے ساتھیوں سے ٹکرا گئیں ۔ یہ دیکھ کر امرت پال نے فورا گاڑی بدلی اور دوسری میں بیٹھ کر فرار ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اسے پہلے ہی اندیشہ تھا کہ پولیس گرفتار کرنے آئی ہے ؟ اگر وہ پولیس کے ساتھ تعاون کرتا تو حراست میں لینے کے بعد ممکنہ طور پر دوچار دن میں رہا ہوجاتا۔ ایک ماہ قبل اجنالا میں پولیس کی مدد سے اس کے ساتھی لوپریت طوفان کو رہائی مل چکی ہے ۔ امرت پال کا فرارشکوک و شبہات کوجنم دیتا ہے کہ آخر پولیس کو دیکھ کروہ کیوں بھاگا؟ امرت پال کا دبئی سے آکر راتوں رات مقبول ہوجانا بھی غیرفطری لگتا ہے ۔ ویسے وارث پنجاب دے نامی تنظیم کے سربراہ دیپ سدھو کا یوم جمہوریہ کی کڑی سیکورٹی کے باوجود لال قلعہ پر خالصتان کا پرچم لہرا نے کے بعدصحیح سلامت لوٹنا بھی ناقابلِ فہم ہے ۔ فلمی اسکرپٹ پر کام کرنے والا ہیرو ہی ایسے نکل سکتا ہے ۔ دیپ کی بہ آسانی ضمانت اورحادثاتی موت کے بعد امرت پال کا اچانک سربراہ بن کر نہایت اشتعال انگیز بیانات اصلی کم فلمی زیادہ لگتے ہیں۔
دیپ سدھو نے پنجاب میں حقوق کے تحفظ کی خاطر ’وارث پنجاب دے ‘ نامی ایک تنظیم قائم کی تو اس کا سیاسی ایجنڈا نہیں تھا لیکن خالصتان کے حامی اس تنظیم سے جڑگئے جبکہ وہ خود وزیر اعظم کے ساتھ تصویر کھنچواتا رہا۔ دیپ کے بعد جلو پور کھیڑا، ضلع امرتسر کاامرت پال سنگھ بھی فلمی انداز میں سربراہ بنا۔ 19 سال کی عمر میں 2012 کے اندر وہ دبئی جاکر چچا کے ساتھ ٹرانسپورٹ کا کاروبارکرنے لگا ۔ اگست 2022 میں واپس آکر ایک ماہ بعد’وارث پنجاب دے ‘کا سربراہ بن گیانیز دیہی نوجوانوں کو خالصتان کے نام سے جوڑنے لگا۔اب نیا ڈرامہ دیکھیں امرت پال سنگھ کی وریندر سنگھ سے 15 فروری 2023 کو ایک فیس بک پوسٹ پر لڑائی ہوئی۔ 16 فروری 2023 کو اجنالہ میں ایف آئی آر درج کی گئی جس میں امرت پال اور اس کے ساتھیوں پر ورندر سنگھ کو اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگایا گیا۔ 17 فروری کو امرت پال کے ساتھی لوپریت عرف طوفان کو پولیس نے گرفتار ہوا ۔ 18 مارچ کا تھانے کامحاصرہ ملتوی کیا گیا۔ امرت پال نے 19 فروری کو موگا میں دیپ سدھو کی برسی کے پروگرام میں شرکت کرکے علی الاعلان خالصتان کی وکالت کی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے اور 23 فروری کو اجنالہ تھانے کا گھیراؤ کرنے کااعلان کیا۔
23 فروری کی دوپہر کو امرت پال کی موجودگی میں اس ساتھیوں نے اجنالہ تھانے پر قبضہ کر لیا۔ اس تصادم میں ایس پی رینک کے افسر سمیت 6 پولیس اہلکار شدید زخمی ہو گئے ۔ پانچ گھنٹے کے بعد لوپریت طوفان کو 24 گھنٹے میں رہا کرنے کا وعدہ ملنے کے بعد تھانہ خالی کیا گیا۔ اگلے دن پولیس نے لوپریت طوفان کو امرتسر جیل سے رہا کیااور اس کے ساتھ امرتپال نے گولڈن ٹیمپل تک جلوس نکالا۔کیا یہ سب کسی کی سرپرستی کے بغیر ممکن ہے ؟ امرت پال کے خلاف اجنالہ میں ورندر سنگھ کے اغوا اور حملہ، 15 فروری کو امرتسر میں وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ کے خلاف نفرت انگیز تقریر، موگا میں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف اشتعال انگیزی اور 19 فروری کو اجنالہ میں تشدد اور تھانے پر قبضے کے لیے پولیس اہلکاروں کو زخمی کرنے کے الزامات سمیت جملہ 4 مقدمات درج ہیں لیکن انہیں اس لیے منظر عام پر نہیں لایا گیاکیونکہ اس نے 23 فروری کو کھلا چیلنج دیا تھا اگر اب دوبارہ کوئی مقدمہ درج کیا گیا تونتائج کی ذمہ داری پولیس پر ہوگی۔
حالات نے اب پلٹا کھایااور تادمِ تحریر پنجاب کی پولیس امرت پال سنگھ کو 75 گھنٹوں سے تلاش کر رہی ہے ۔ وہ ابھی تک پولیس کی گرفت سے باہر ہے حالانکہ اس کے چچا ہرجیت سنگھ اور ڈرائیور ہرپریت سنگھ خودسپردگی کرچکے ہیں۔ اتوار کو پولس نے ’فلیگ مارچ‘ کیا نیز ریاست بھر میں تلاشی کی مہم شروع کردی۔ پنجاب پولیس اب تک 150 سے زائد مشتبہ افراد کو گرفتار اور حراست میں لے چکی ہے ۔ پولیس نے 7 غیر قانونی اسلحہ، 300 سے زائد گولیاں، 3 گاڑیوں سمیت کچھ موبائل فون بھی ضبط کیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس دوران صوبائی حکومت کیا کررہی تھی اور اگر وہ ناکارہ ہے تو مرکزی سرکار کمبھ کرن کی نیند کیوں سو رہی تھی؟ ایسے حالات کیوں پیدا ہونے دیے گئے کہ پورے پنجاب میں ہائی الرٹ جاری کرنا پڑا۔ آپریشن کے درمیان ریاست میں انٹرنیٹ سروس پر عائد پابندی کو مزید 24 گھنٹے کے لیے بڑھا نی پڑی ۔ انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس خدمات 21 مارچ کی دوپہر 12 بجے تک معطل رکھنے کا حکم دینا پڑا۔ بینکنگ سروس اور موبائل ریچارج جیسی خدمات جاری رکھنے کے لیے براڈ بینڈ سروس پر اکتفاکرنا پڑا ؟
ان سوالات کا مختصر ترین جواب یہ ہے کہ موجودہ سرکار مسائل کو حل نہیں کرتی بلکہ اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں انہیں سنگین بنادیتی ہے ۔ کشمیر پنڈتوں کا مسئلہ اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔ اس کو حل کرنے کے بجائے ’کشمیر فائلس‘ نامی فلم بنواکر اسے بھنانے کی کوشش کی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ جوکشمیری مشکل ترین حالات میں وادی کے اندر جمے رہے تھے وہ بھی یاتو نکل گئے یا پر تول رہے ہیں ۔ موجودہ حکومت ان کو زور زبردستی کرکے روک رہی ہے لیکن یہ حربہ کامیاب نہیں ہوتا۔ کشمیر فائلز نے ثابت کردیا فلمیں مسائل کی پردہ پوشی کرتی ہیں حل نہیں۔ بی بی سی کی گجرات فائلز سے ہوش ٹھکانے آئے تو اس کی جانب سے توجہ ہٹا نے کے لیے پابندی لگائی گئی لیکن بات نہیں بنی ۔ لوگوں نے اسے علی الاعلان دیکھا اور سرکار دیکھتی رہ گئی۔ پنجاب کے مسئلہ پر کیسری نام کی فلم بنی جس میں افغانیوں سے انگریزوں کی سکھ رجمنٹ لڑتی ہے ۔ انگریزوں کے خلاف جنگ میں سکھ ہیرو سامراجی فوج میں ہو تاہے اور ان سے لڑنے والے مسلمان ولن بنادیے جاتے ہیں ۔ قومی انتخاب سے قبل فلم ریلیزکرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا گیا مگر اس طرح مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان سے کھلواڑ ہوتا ہے ۔
پنجاب کے حوالے سے ابھی 15؍ مارچ کو وزیر اعظم نے نانک شاہی سَمّت 555 کی آمد پردنیا بھر کی سِکھ برادری کو مبارکباد دے کر امید ظاہر کی کہ آئندہ سال خوشیوں، بہترین صحت اور خوشحالی سے مالا مال ہوگا اور تین دن بعدحالات اس قدر دگر گوں ہوگئے کہ امرت پال سنگھ کے پیچھے لگنا پڑا ۔وہ سرکار کی آنکھوں میں دھول جھونک کر روپوش ہوگیااورحکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی ۔ ایوانِ پارلیمان میں راہل گاندھی کے لندن میں بیان پر ہنگامہ بپا رہا مگرپنجاب کے اندر پولیس امرت پال کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔ اس دوران یہ خبر آگئی کہ برطانیہ میں خالصتان کے حامیوں نے ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہراحتجاج کیا۔ مظاہرین نے علیحدگی پسند رہنما کے جھنڈوں اور پوسٹروں کے ساتھ نعرے لگائے ۔ اس کی تصویر والے پوسٹر پر لکھا تھا کہ امرت پال سنگھ کو آزاد کرو، ہمیں انصاف چاہیے ، ہم امرت پال سنگھ کے ساتھ کھڑے ہیں۔سوشل میڈیا پر جو ویڈیو وائرل ہوئی ،اس میں ایک شخص خالصتان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے ہندوستانی پرچم کو اتارتانظر آتا ہے اور برطانوی پولیس خالصتانی حامیوں کے مظاہرے کو روکنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے ۔
اس سانحہ کے بعد وزارت خارجہ نے صورتحال پر بات چیت کے لیے ہندوستان میں برطانوی ہائی کمیشن کے سینئر سفارت کار کو طلب کیا لیکن وہ تو کہہ سکتا ہے کہ اگر ایسی واردات دہلی میں ہوسکتی ہے تو لندن میں کیوں نہیں ؟ نجی گفتگو سے قطع نظر لندن میں ہندوستانی ہائی کمیشن پر توڑ پھوڑ کے بعد ہندوستان میں برطانوی ہائی کمشنر ایلکس ایلس نے ٹوئٹ کر کے واقعے کی مذمت کی۔ بی جے پی والے عام طور پر اس طرح کی صورتحال میں چپیّ سادھ لیتے ہیں کیونکہ کچھ بولنے سے ’چھپنّ انچ ‘والی دبنگ شبیہ داغدار ہوتی ہے ۔ ان میں سے کوئی سرپھرا یہ کہہ سکتا ہے کہ راہل گاندھی نے برطانیہ کے اندر علیحدگی پسندوں کے حوصلے بلند کردیے۔ اس لیے وہ ہنگامہ آرائی کے لیے ذمہ دار ہیں مگر لندن کے بعد خالصتانی مظاہرین نے امریکا کے سان فرانسسکو میں ہندوستانی قونصل خانے پر احتجاج کردیا ۔ اسی امریکا میں جہاں ’ہاوڈی مودی‘ پروگرام ہواتھا۔ خالصتانی حامیوں نے سان فرانسسکو میں قونصل خانے پر حملہ کیا،نعرے لگائے اور خالصتانی پرچم لہرانے کے بعد توڑ پھوڑ کی۔
پنجاب کا معاملہ صرف نظم و نسق کا نہیں ہے ۔ معروف گلوکار سدھو موسے والا کی برسی پران کے والد بلکور سنگھ نے کہا خود کو راشٹروادی(قوم پرست) کہنے والاایک غنڈہ سرِ عام کہتا ہے میں نے سدھو کو مارا اور سلمان خان کو ماروں گا۔سرکار اس پر یا انٹرویو لینے والے پر کوئی کارروائی نہیں کرتی۔پورے صوبے میں انٹرنیٹ بند ہے مگر وہ جیل سے انٹرویو دے رہا ہے ۔موسے والا کی ماں چرن کور نے لوگوں سے پوچھا ’ہمارا ملک آزاد ہے یا غلام ؟ مجمع سے جواب ملا غلام اور پھر خالصتان زندہ باد کے نعرے لگنے لگے ۔ چرن کور بولیں ہمیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم آزاد ہوگئے ہیں ۔ ہم تو آج بھی غلام ہیں۔اس تناظر میں سکھوں کے سب سے مقدس اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہرپریت سنگھ نے حکومت کو دہشت کے ماحول سے احتراز کا مشورہ دیا ۔ان کے مطابق پنجاب کا بہت نقصان ہوا ہے۔ اب روشن مستقبل کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ ماضی میں حکومتوں کی عدم مساوات سے نوجوانوں میں بے چینی ہے اور کچھ لوگ اپنے سیاسی فائدے کے لیے ان کا برین واش کررہے ہیں۔انہوں نے حکومت کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کرمذہبی ، سیاسی اور معاشی مسائل حل کرنے نیز دوری کو ختم کرنے کی صلاح دی۔ یہ بنیادی مسائل امرت پال کی گرفتاری سے حل نہیں ہوں گے ۔
٭٭٭