... loading ...
امریکا کی عراق پر مسلط جنگ کو اب بیس برس ہوتے ہیں۔ خطہ اب بھی غیر مستحکم ہے، تشدد فروغ پزیر ہے۔ بے حیا امریکا سے کون پوچھے کہ عراق پر 20مارچ 2003ء کو جنگ مسلط کرنے کے جو بہانے تراشے گئے، جو جھوٹ گھڑے گئے، وہ تاریخ کی میزان پر پورے کیوں نہ اُترے؟ اب عراق کے موجودہ حالات کے ذمہ دار امریکا کا محاسبہ کون کرے گا؟
بیس سال قبل امریکا نے عراق کے خلاف جنگ شروع کی تواُس نے متعدد جھوٹ بولے۔ عالمی استعمار کے بے پناہ گھمنڈ کے ساتھ عراق کے خلاف جنگ میںبولے گئے جھوٹ چند قدم ساتھ چلنے کی بھی سکت نہ رکھتے تھے۔ عراق پر جنگ مسلط کرنے سے قبل بولے گئے جھوٹ خود اپنے جھوٹ ہونے یا جھوٹ کے طور پر برقرار رہنے کے قابل بھی نہ تھے۔ مگر اس جھوٹ کے ساتھ وابستہ سفاکی سے یہ آشکار تھا کہ امریکا اپنی بے پناہ طاقت کے ساتھ ایسے جھوٹ بھی بول سکتا ہے جو جلدی جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود امریکا کو کہیں جوابدہ نہیں ٹہراتے ۔ یہاں طاقت کے سفاکانہ پیرایے میں دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ کون پروا کرتا ہے؟ کیا آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا کے عراق پر سفاکانہ حملوں اور قبضے کے بعد سے اب تک لقمہ اجل بننے والے 1,455,590 افراد کوئی معنی ہی نہیں رکھتے۔ یہ بات محض لفظوں میں بیان نہیں کی جاسکتی، مگر پھر بھی اس کی رکاکت اور خباثت سمجھنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کے بی بی سی ورلڈ پر ایک انٹرویو کو بھی تازہ کر لیجیے! براہ راست جنگ میں نشانہ بنائے جانے والے عراقیوں کے اعداد وشمار کے علاوہ ایک بڑا ہندسہ جان ہارنے والوں کا وہ بھی ہے جو امریکا اور یورپ کی جانب سے عراق پر پابندیوں کے باعث سامنے آیا ۔ امریکااور یورپ کی جانب سے سب سے پہلے عراق پر عائد اقتصادی پابندیوںکے باعث وہاں خوراک اور ادویات کی قلت پیدا ہوئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف دوا اور غذا کی قلت سے عراق میں دس لاکھ لوگ اپنی جانیں ہار گئے، جن میں پانچ لاکھ تو صرف بچے تھے۔ اس المناک صورت حال پر میڈلین البرائٹ سے تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اسرائیلی نژاد خاتون موصوفہ کا جواب تھا کہ
“It is acceptable and worth it.”
(یہ ہلاکتیں قابل قبول اور قدروقیمت رکھتی ہیں)
یہ وہ سفاک اور شقی القلب لوگ ہیں جو نظام عالم کی تشکیل کرتے ہیں۔ مسلم دنیا کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں حکومتوں کی اُٹھا پٹخ میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان درندوں نے عراق پر جنگ مسلط کی اور عالم اسلام دبکا رہا۔ امریکا نے عراق پر کسی ایک جہت سے بربادی مسلط نہیں کی۔ بلکہ لاکھوں ہلاکتوں کے علاوہ اسے ایک قومی ریاست کے طور پر تباہ کردیا ۔ عراق انبیاء کی سرزمین کے اعتبار سے اپنی ایک منفرد اور بے مثال تاریخ رکھتا تھا، مگر تاتاریوں کے ہاتھوں تاراج ہونے والے بغداد کی مانند یہ روندا گیا۔ امریکا اس پر ابھی تک کہیں جوابدہ نہیں۔ امریکا نے عراق پر جنگ کو باجواز بنانے کے لیے جو جھوٹ بولے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ یہ جھوٹ ماند یادداشتوں میں پھر تازہ کرتے ہیں۔
٭ امریکا نے عراق کو نوگیارہ کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اور دعویٰ کیا کہ 11 ستمبر کے اغوا کار محمد عطا اور اور عراقی انٹیلی جنس کے ایک اہلکار کے درمیان کوئی رابطہ موجود تھا۔ مگر چیک انٹیلی جنس نے شواہد کی بنیاد پر اعتراف کیا کہ محمد عطا کا عراقی انٹیلی جنس کے کسی اہلکار سے کوئی رابطہ ہوا نہ تب ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود امریکا نے یہ پروپیگنڈا اس قدر مسلسل کیا کہ پیو ریسرچ کے ایک سروے کے مطابق دو تہائی امریکی یقین کرنے لگے کہ نوگیارہ کے حملوں میں صدام حسین کا ہاتھ تھا۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ امریکا افغانستان پر پہلے ہی نوگیارہ کی ذمہ داری ڈالتے ہوئے ایک بھاری جنگ مسلط کرچکا تھا۔
ٔ٭ امریکا نے متواتر جھوٹ بولا کہ عراق اور القاعدہ مل کر کام کر رہے ہیں ، اور صدام اور اسامہ بن لادن ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ یہ بھی ایک جھوٹ ثابت ہوا۔ برطانوی ڈیفنس انٹیلی جنس اسٹاف کی ایک رپورٹ سے یہ افشاء ہوا کہ دونوں کے درمیان سرے سے کوئی روابط ہی نہیں تھے۔ رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوا کہ اسامہ بن لادن صدام کے عراق کے ساتھ اپنے مقاصد کے اعتبار سے نظریاتی تنازع رکھتے تھے۔لطف کی بات یہ ہے کہ امریکی دعووں میں باربار کہا گیا کہ القاعدہ ارکان کو عراق میں پناہ دی گئی تھی اور عراق میں موجود تربیتی کیمپ میں کیمیائی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ مگرجب عراق پر حملے کے بعدامریکی نشان زد جگہ پر پہنچے تو وہاں کوئی فوجی کیمپ تھا اور نہ اس کا کوئی سراغ۔ پھر کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کے کسی نشان کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ مگر بے شرم امریکی اس پر بھی شرمندہ نہ ہوئے۔
٭امریکا نے ایک جھوٹ یہ بولا کہ عراق جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے لیے افریقہ سے یورینیم طلب کر رہا تھا۔ اب خود سی آئی اے کے سربراہ کا یہ اعتراف مغربی ذرائع ابلاغ میں سامنے آچکا ہے کہ وہ دستاویزات جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عراق نے مغربی افریقہ کے نائجر سے یورینیم درآمد کرنے کی کوشش کی ، جعلی تھی۔ یاد رہے صدر بش نے یہ جھوٹ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میںعوام کے سامنے بولا تھا۔اس کے علاوہ گیس سینٹری فیوجز کے استعمال کے لیے درکار ایلومینیم ٹیوبیںدرآمد کرنے کا امریکی دعویٰ بھی غلط ثابت ہوا۔
٭امریکیوں نے مسلسل جھوٹ بولا کہ عراق کے پاس کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کا ایک وسیع ذخیرہ موجود تھا۔جو پوری دنیا کو ہلاک کرنے کے لیے کافی بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ دعویٰ کہ عراق کے پاس بغیر پائلٹ کے طیارے تھے جنہیں امریکا میں اسمگل کیا جا سکتا تھا اور کیمیائی اور حیاتیاتی زہریلے مادوں کو چھڑکنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ماہرین نے بعدازاں یہ دعویٰ بھی جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسٹرڈ گیس کے علاوہ، عراق کے پاس کبھی بھی ایسی ٹیکنالوجی نہیں تھی کہ وہ 12 سال کی شیلف لائف کے ساتھ کوئی ہلاکت خیز مواد تیار کر سکے۔نیز امریکیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط نکلا کہ عراق کیمیائی یا حیاتیاتی وار ہیڈ لے جانے والا میزائل رکھتا ہے۔
٭ امریکا نے ایک دلچسپ جھوٹ یہ بھی بولا کہ صدام حسین کے پاس ایسی صلاحیت موجود ہے جو چیچک کی نشوونما کر سکتی ہے۔ یہ الزام سیکریٹری خارجہ کولن پاؤل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اپنے خطاب میں لگایا تھا۔ مگر ایسا کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ اسی طرح اینتھراکس کی عراق میں موجودگی کا دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔امریکا یہ سارے جھوٹ ایک وسیع ترکیب ”ڈبلیو ایم ڈی” (weapons of mass destruction) یعنی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار کے تحت بول رہا تھا۔ بش انتظامیہ بار بار یہ باور کرا رہی تھی کہ عراق اپنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار صرف 45 منٹ میں کہیں پر بھی استعمال کرنے کے قابل ہیں۔برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر جسے امریکا کے پوڈل کے طور پر خود مغربی ذرائع ابلاغ میں تضحیک کا نشانا بننا پڑا، ایک عرصے تک اس دعوے کے بعد اس کی خود تردید پر مجبور ہو گئے۔
بش انتظامیہ نے سب سے بڑا جھوٹ خود اپنے عوام سے بولا۔ اُنہیں جنگ سے پہلے ہی یقین دلایا گیا کہ عراق کے خلاف یہ ایک آسان جنگ ہو گی اور امریکا جب عراق میں داخل ہو گا تو صدام حسین سے تنگ مظلوم عراقی امریکی اور اتحادی افواج کا استقبال کریں گے۔ اِسے ایک ”کیک واک” قرار دیاگیا۔ یہ دعویٰ بھی جھوٹا نکلا۔ عراقی عوام نے امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر خون تھوکنے پرمجبور کر دیا۔ امریکی جسے کیک واک سمجھے تھے وہاں سے 4,801 فوجیوں کے(سرکاری اعتراف کے تحت) تابوت اُٹھائے گئے۔خود اتحادی اور امریکی افواج میں انتہائی بددلی پھیلی۔ اور معذور امریکی فوجیوں نے بعدازاں احتجاج تک کیے۔ مگر اصل سوال برقرار رہا۔بش انتظامیہ نے اپنے عوام سے جھوٹ بولااوراس کا عراق جنگ سے متعلق ہر دعویٰ جھوٹا نکلا۔ ڈبلیو ایم ڈی کہیں سے نہیں نکلے، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیار بھی کہیں سے برآمد نہیں ہوئے۔ وہ تمام ویڈیوز جسے امریکا دکھا کر ہتھیاروں کے حوالے سے حساسیت ظاہر کررہا تھا، جعلی ثابت ہوئیں۔ یہاں تک کہ بغداد کے تحفظ سے متعلق عراقی افواج یا صدام حسین کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیب کا امریکی دعویٰ بھی سچ نہیں نکلا۔ عراق میں معروف امریکی میرین جنرل لیفٹیننٹ جنرل جیمز کونوے نے بعد میں اعتراف کیا کہ جنگ سے قبل بغداد کے ارد گرد کیمیائی ہتھیاروں کی تنصیب کے انٹیلی جنس دعوے غلط تھے۔ انہوں نے کہاہم گولہ بارود مہیا کرنے کے ہر مقام پر گئے، مگر وہاں سے کچھ نہیں ملا۔ ہم غلط تھے۔
امریکا کی جنگ ہر اعتبار سے غلط تھی، عراق اور اس سے قبل افغانستان سے وہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ پھر نوگیارہ سے متعلق بدی کے محور ملکوں کی اصطلاح بھی بُری طرح پٹ گئی۔ سوال یہ ہے کہ عالمی ضمیر نے اس سب کا خاموشی سے نظارہ کیا۔ مسلم دنیا نے ان جنگوں میں امریکی دعووں کے جھوٹا ثابت ہونے پر کوئی حرف احتجاج بلند نہیں کیا۔ ہر طرف خاموشی کا سناٹا راج کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس پر بڑے احتجاج بھی مغربی ممالک میں ہی ممکن ہو سکے۔ امریکا عالمی بدمعاش کیوں ہے؟ اس کا جواب مسلم دنیا کی اسی غیر فعالیت یا پھر اپنے طفیلی کردار میں ہے۔ افسوس پاکستان نے بھی خود کو ایسا ہی ثابت کیا ہے۔
٭٭٭