... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارت کے جنگی جنون میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے فوج کے لیے ہتھیاروں کے حصول کی منظوری دینے والی دفاعی حصول کی کونسل نے 705 ارب روپے کے آرڈرز کی منظوری دی ہے ۔ جبکہ ساڑھے 8ارب ڈالر مالیت سے میزائل، ہیلی کاپٹر، آرٹلری گنز اور آرٹلری جنگی نظام خریدا جائے گا۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے مقامی سطح پر دفاعی سازوسامان کی تیاری کو فروغ دینے کے لیے ہدایت کی گئی ہے اور اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام آرڈر ہندوستانی کمپنیوں کو دیے جائیں گے۔جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتوں چین اور پاکستان جیسے پڑوسیوں کے ساتھ ساتھ متنازع ہمالیہ سرحد پر چینی فوجیوں کے ساتھ کشیدگی کا سامنا کرنے والی بھارتی فوج اپنے سوویت دور کے اکثر ہتھیاروں کو جدید خطوط پر استور کرتے ہوئے جدید ہتھیاروں سے لیس ہونا چاہتی ہے۔
اربوں ڈالر کی اس رقم میں بحریہ پر خاص توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے لیے 560 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے کیونکہ بھارت نے گزشتہ سال بحر ہند میں چینی مشقوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔منظور شدہ خریداریوں کی فہرست میں بحریہ کے لیے 200 اضافی براہموس میزائل، 50 یوٹیلیٹی ہیلی کاپٹر اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹم شامل ہیں۔براہموس ایک سپرسونک میزائل ہے جس کی رینج تقریباً 300 کلومیٹر ہے جسے بھارت اور روس نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے، تینوں بھارتی ملٹری سروسز ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے میزائل کے وژن استعمال کر رہی ہیں۔ ڈی اے سی نے ڈیزل میرین انجن کی تیاری کی بھی منظوری دی، جو ہندوستان کے لیے پہلا ہوگا۔اس کے علاوہ فوج کو 155ایم ایم/52 کیلیبر کے 307 یونٹوں کے ساتھ ہائی موبلٹی وہیکلز اور گن ٹونگ گاڑیاں خریدنے کی منظوری مل گئی۔گزشتہ برسوں میں بھارت کی حیثیت روسی جنگی سامان کے سب سے بڑے خریدار کی رہی ہے۔ جومغربی ممالک کی اسلحہ ساز کمپنیوں کو بہت کھلتی رہی ہے اور وہ اسلحہ کی اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے حریف کے حوالے کیے رکھنے پر کڑھتے رہے ہیں اور اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ اسے پھانسنے میں کوتاہی کیوں کر رہی ہیں۔ خود بھارت بھی مغربی اسلحہ تک رسائی کی دیرینہ خواہش کو پورا کرنے کی راہیں تلاش کرنے میں لگارہا اور اس میں اس نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اسی طرح خطے میں طاقت کا توازن بگڑا۔ بھارتی حکمران آئے دن پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور ہندوستان بڑے پیمانے پراسرائیل، روس، امریکہ، برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں سے ہتھیار خرید رہا ہے۔ بھارت اپنے حجم اور وسائل کے اعتبار سے خطے کا سب سے بڑا ملک ہے۔ بڑا ملک ہونا کوئی خرابی کی بات نہیں۔ بشرطیکہ وہ اپنے ہمسایوں کیلئے اندیشوں اور خدشات کا سر چشمہ نہ ہو۔ بد قسمتی سے بھارت اپنی توسیع پسندی پر مبنی پالیسی کی وجہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کیلئے خطرے کی علامت بنا رہتا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے خطہ جنوبی ایشیاء کا کوئی ملک ایسا نہیں جو بھارت کے رویے سے کسی نہ کسی طرح نالاں نہ ہو۔ رہا پاکستان تو اس کے ساتھ تو اسکی تقسیم ہند کے وقت سے چپقلش چلی آرہی ہے۔ جسکی سب سے بڑی وجہ تنازع کشمیر ہے اور دونوں کی تین جنگیں ہو چکی ہیں۔جبکہ معرکہ کارگل بھی تقریباً جنگ کے قریب قریب کی بات تھی بلکہ اگر جانی ومالی نقصان کے حوالے سے دیکھا جائے تو جنگ سے کم نہیں تھا۔
بھارت بنیادی طورپر ایک غریب ملک ہے ۔ اس کے کروڑوں لوگوں کو چھت بھی میسر نہیں۔ لاکھوں افراد روزانہ رات کو فٹ پاتھ پر سوتے ہیں۔ دن بھر کی محنت مزدوری کے بعد اتنا پیسہ بھی نہیں ملتا کہ پیٹ بھر کر دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔بھارت کی 55 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں عام باشندے روزانہ اوسطاً 77 امریکی سینٹ کے برابر رقم میں گزارہ کرتے ہیں ۔ جبکہ بھارتی روپے میں یہ قیمت 43 روپے بنتی ہے۔ بھارت کے نیشنل سیمپل سروے آفس کے مطابق بھارت کے شہری علاقوں میں فی کس آمدنی دیہی علاقوں میں بسنے والوں کی آمدنی سے دوگنی ہے۔یہ سروے ہر دو سال بعد کیا جاتا ہے۔ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے بڑے ممالک میں دیہی علاقوں میں ماہانہ گھریلو خرچ 1281 روپے بنتا ہے۔ جبکہ شہری علاقوں میں یہی خرچ 2401 روپے ہوتا ہے۔ جبکہ بھارت میں دیہی علاقوں میں یہی خرچ 503 روپے ماہانہ یعنی 17 روپے یومیہ بنتے ہیں۔ بھارت کے بیشتر صحافی اور دانشور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ بھارت کو اپنے جنگی مصارف میں کمی لا کر اور پیسہ بچا کر اسے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا چاہیے۔ اس معاملے میں بالعموم بھوک، غربت، تعلیم اور صحت کا حوالہ دیا جاتا ہے جوبھارت کے غریب عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ایسے مشوروں پر کان نہیں دھرے اور جنگی بجٹ کے حجم کو خوفناک حد تک پہنچا دیا ہے۔
٭٭٭
” width=”20″ height=”20″>