... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امسال پہلی بار عالمی سطح پرپندرہ مارچ کو دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے خلاف دن منایا جا رہا ہے ۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت اور تشدد آمیز دہشت گردانہ کارروائیوں کو روکنے کی کوشش کرنا ہے ۔ جس طرح ویلنٹائن ڈے کا اہتمام محبت میں اضافہ نہیں کرتا اسی طرح یہ دن بھی نفرت میں کمی نہیں کرسکے گا پھربھی اس کے اندر یہ اعتراف موجود ہے کہ دنیا بھر میں امت مسلمہ کے خلاف نفرت انگیزی کی نت نئی مہمات جاری و ساری ہیں ۔ گیارہ ستمبر کے بعد عالمی سطح پر پوری ملت کو دہشت گرد بناکر پیش کیا گیا اور اس کی وجہ دین اسلام میں تصورِ جہاد بتائی گئی۔ یہ جھوٹ قوم پرستی اور فسطائیت کی ضرورت تھی۔ سوویت یونین کا اشتراکی نظریہ اسلام سمیت تمام مذاہب کا دشمن تھا لیکن مغربی استعماریت نے اپنی ساری توجہ اس کی جانب مبذول کررکھی تھی۔ اس کے انتشارنے مغرب کو ایک نئے دشمن کی تلاش پر مجبور کردیا کیونکہ قوم پرستی کی اپنوں سے محبت اور دوسروں کے نفرت پر قائم ہوتی ہے جبکہ فسطائیت کا سارا دارومدار نفرت ہی پر ہے ۔ اس ضرورت کو اسلام و مسلمانوں سے پورا کیا گیا اور ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی مسماری نے عملی مخالفت کی وجہ جواز بھی فراہم کردی ۔
ماحول سازی کی غرض سے امسال تین دن قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی خاطرعالمی دن کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطح کی تقریب منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس گرین فیلڈ نے دنیا بھر میں مسلم سماج کے خلاف نفرت کے تباہ کن نتائج کو اجاگر کرکے تعصب اور تشدد کے سد باب کی عالمی کوششوں میں اضافے پر زور دیا ۔ اپنے خطاب میں لنڈا تھامس نے لگ بھگ چار سال قبل نیوزی لینڈ کی دو مساجد اور چرچ کے اندر ایک مسلح شخص کاخوفناک حملہ یاد دلایا جس کی اندھا دھندفائرنگ سے 51 مسلمان شہیداور چالیس زخمی ہو گئے تھے ۔ لنڈا کے مطابق یہ ہولناک واقعہ پوری مسلم امت کے خلاف ایک حملہ اور اسلاموفوبیا کے مہلک نتائج کا عکاس تھا ۔ اس اندوہناک سانحہ کے تین سال بعد اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن قرار دے کرایک عالمی ادارے نے انسانی حقوق اور مذہب کی یکساں آزادی کو فروغ دینے کا عزم کیا ۔ اس موقع پر یہ باضابطہ تسلیم کیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
اسلامو فوبیا کی ایک بڑی مثال برما کی فوج کے روہنگیا سماج کے خلاف قتل عام اور انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب ہے کیونکہ ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔امریکی سفیر نے اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ چینی حکومت کے ذریعہ سنکیانگ میں اکثریتی ایغور باشندوں اور دوسرے نسلی و مذہبی اقلیتوں کے خلاف قتل عام اور جرائم کی ارتکاب کابھی ذکرکیا۔لنڈا تھامس نے بین الاقوامی برادری کو ان مظالم کی مسلسل مذمت اور جواب دہی کا مطالبہ کرنے کی تلقین کی ۔ امریکی سفیر نے اپنے ملک کے اندر اور دنیا بھر میں ہر قسم کی نفرت اور عدم برداشت کو جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا ۔ صدر بائیڈن کے ذریعہ تعصب اور نسل پرستی کے خلاف ’ یونائیٹڈ وی اسٹینڈ‘ کے عنوان سے سربراہی اجلاس کی میزبانی اور ایک انٹر ایجنسی گروپ قائم کرکے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور مذہبی تعصب کے سد باب کی کوششوں کا حوالہ دیا ۔انہوں نے رمضان کے مقدس مہینے کی تیاری کے ساتھ تعصب اور تشدد روکنے کی اپنی کوششوں کو دوگنا کرکے یہ امید ظاہر کی کہ اگلے سال اسلامو فوبیا کے بین الاقوامی دن تک دنیا پہلے سے زیادہ پر امن، روادار اور منصفانہ ہو گی ۔
پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے زیر صدارت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس اجلاس کا اہتمام پاکستان اور او آئی سی کی شراکت سے کیا گیا۔ بلاول نے اس دن کا مقصد اسلامو فوبیا کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ، باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی ترویج اور حالات کو بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے عزم کو تقویت دینابتایا۔ان کے مطابق دین اسلام اعتدال، رواداری ، مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کے عقائد اور ثقافتوں کے احترام کا درس دیتا ہے ۔پچھلے سال، 193 رکنی اسمبلی نے قرارداد 76/254 منظور کرکے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دینے کی توثیق کی تھی تاکہ دنیا میں دوسری سب سے بڑی اسلامی برادری کے تئیں بعض ممالک میں بڑھتی ہوئی نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ’اینٹی اسلامو فوبیا ڈے ‘ کا اعلان کیا جائے ۔ ان میں ظاہر ہے ہندوستان سرِ فہرست ہے ۔اس تجویز کی منظوری کے وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا تھاکہ دنیا بھر میں تقریباً 2؍ ارب مسلمان آباد ہیں اور وہ اپنے تمام تنوع میں انسانیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “تاہم، انہیں اکثر محض اپنے عقیدے کی وجہ سے تعصب سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ، مسلم خواتین کو بھی ان کی جنس، نسل اور عقیدے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ گوٹیرس نے کہاتھا کہ مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے ۔ دنیا کے کئی حصوں میں مسلمانوں کو ’اسلامو فوبیا‘ کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے ۔ان کے مطابق یہ سبھی کا اسلامو فوبیا کے خلاف کھڑے ہونا ضروری ہے ۔ انہوں نے ہر کسی کو ’جنونی‘ سمجھنے کے بجائے ’فوبیا‘ کے خاتمے پر اصرار کیا۔ گوٹیرس نے کہا تھا کہ یہ نسلی قوم پرستی، نونازی سفید فام بالادستی کے نظریات، اور مسلمانوں، یہودیوں، کچھ اقلیتی عیسائی برادریوں سمیت کمزور آبادیوں کو نشانہ بنانے والے تشدد کا ایک حصہ ہے ۔ تعصب سبھی کو تباہ کردے گا۔ اس کے خلاف سینہ سپر ہونا سب پر فرض ہے اس لیے تعصب کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کرنا چاہئے ۔مذہبی مقامات کی حفاظت کے لئے ایک پلان آف ایکشن پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے سماجی ہم آہنگی میں سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی سرمایہ کاری کو بڑھانے اور انٹرنیٹ پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے والی نفرت سے نمٹنے کے لئے کام کرنے پر زور دیا۔
دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسلمان انڈونیشیا میں رہتے ہیں اور اس کے بعد ہندوستان کا نمبر آتا ہے اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا، اسلامو فوبیا مخالف دن کی حکومتِ ہند زور و شور سے تائید کرتی لیکن چونکہ چور کی داڑھی میں تنکا تھا، اس لیے مودی سرکار اس کی مخالفت پر اتر آئی ۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ اس قرارداد کی منظوری کے بعد اقوام متحدہ ایک مذہبی پلیٹ فارم میں تبدیل ہو سکتا ہے اور دیگر مذاہب کے سلسلے میں بھی قراردادیں آ سکتی ہیں لہٰذا اس اس کو مثال نہیں بنانا چاہیے ۔ ملک میں ہندوتوا کی بنیاد پر سیاست اور عالمی سطح پر مذہب کی مخالفت بی جے پی کے دوغلے پن کا بینّ ثبوت تھا ۔ تنظیم اسلامی تعاون کے 57 رکن ممالک کے علاوہ چین اور روس سمیت آٹھ دیگر ممالک کے تائید سے منظور ہونے والی قرارداد کی مخالفت حکومت ہند کا ایک شرمناک عمل تھا ۔
ہندوستانی سفیر کا کہنا تھا کہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں باالخصوص ہندو، بودھ اور سکھوں کے لیے بھی خوف کے ماحول میں اضافہ کے ثبوت موجود ہیں ۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہندو ہردیہ سمراٹ مودی جی کیا کررہے ہیں؟ اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے پر ہندوستانی سفیر نے سوال اٹھایا کہ پہلے سے ہی 22؍ اگست کو مذہب کے نام پر قتل کیے جانے والوں کی یاد میں دن منایا جاتا ہے جبکہ 16 نومبر کو بین الاقوامی یوم رواداری کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ ایسے میں اسلاموفوبیا کے خلاف بین الاقوامی دن منانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے ہندوستان کی مذہبی تکثیریت پر فخر جتاتے ہوئے کہا کہ اس ملک نے مذہب کے نام پر زیادتی کا شکار ہونے والوں کو ہمیشہ پناہ دی ہے ۔یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ ہندوستان پڑوسی ممالک کے مسلمان تو کجا چین اور سری لنکا کے بودھوں اور برما کے ہندووں کو پناہ دینے کا بھی روادار نہیں ہے ۔اپنے ملک میں جھوٹ بولنے کے عادی اب اقوام متحدہ میں بھی کذب گوئی کرنے لگے ہیں ۔
اقوام متحدہ میں ہندوستانی سفیر ٹی ایس تریمورتی نے پہلے تو اسلامو فوبیا کے خلاف دن کی مخالفت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو مذہبی معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن جب اسے ٹھکرا دیا گیا تو پینترا بدل کر کہنے لگے کہ فوبیا کو صرف تین ابراہیمی مذاہب یعنی اسلام، مسیحیت اور یہودیت تک محدود نہ کیا جائے بلکہ دیگر مذاہب بالخصوص ہندو، بودھ اور سکھ فوبیا یعنی منافرت کو بھی تسلیم کیا جائے ۔ یہ بات ا نہوں نے نئی دہلی میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔ انہوں نے کہا کہ بعض مذہبی فوبیا کو اجاگر کرنا حالیہ برسوں میں ایک اہم رجحان بن گیا ہے ۔ان کو شکایت تھی کہ،’’اقوام متحدہ نے حالیہ برسوں میں اسلاموفوبیا، مسیحی فوبیا اور سامیت دشمنی کے رویوں کے حوالے سے خاصا کام کیا ہے ، یہ تینوں ابراہیمی مذاہب ہیں۔ ان کا ذکر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عالمی لائحہ عمل میں بھی موجود ہے لیکن دنیا کے دیگر بڑے مذاہب کے خلاف بھی فوبیا، منافرت یا تعصب بڑھ رہا ہے اور دنیا کو انہیں بھی تسلیم کرناچاہیے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں گجرات فساد نہ ہوتا، ہجومی تشدد کی وارداتیں عام نہ ہوتیں اور دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کھلے عام نہ ابھارا جاتا تو شاید اسلاموفوبیا کا خطرہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آپاتا۔ اس لیے ہندوستانی سفیر کی مخالفت دراصل ان کے احساسِ جرم کی غماز تھی۔ اسلاموفوبیا کا دن تو آتا جاتا رہے گا لیکن اسلام کے پیغام محبت سے اس کے خلاف پھیلائی جانے والی نفرت کا خاتمہ باگزیر ہے بقول جگر مراد آبادی
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔