... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلامو فوبیا ایک ذہنی اختراع ہے، نفسیاتی بیماری ہے، مسلمانوں سے نفرت کرنے، تعصب برتنے کا نام ہے۔ اسلامو فوبیا مغرب میں جس طرح پھیلتا دکھائی دے رہا ہے، اس پر پوری سنجیدگی ، تندہی اور وسیع تر انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ز ہر پھیلتا رہا توسب سے زیادہ مغربی معاشروں کے لیے خطرہ پیدا کردے گا۔ ممتاز اسکالر و دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری نے سیرت النبیۖ کے موضوع پرخطاب میں بتایا کہ دور حاضر میں اسلامو فوبیا کے نام سے جو شر پھیلایا جا رہا ہے وہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ جب سے اللہ کا دین آیا ہے بہت سی قوتیں جنہیں اللہ کا دین قبول نہیں انہوں نے ہر صورت دین حق سے دشمنی کرنی ہے۔ یہ اسلامو فوبیا ہے۔ موجودہ دور میں اسلام کے خلاف اسلامو فوبیا کے نام پر یہود و نصاریٰ کی سازشیں جاری ہیں ۔ قرآن پاک میں واضح طور پر اللہ نے فرمایا کہ اے محمدۖ یہ (مشرکین) چاہتے ہیں کہ آپۖ اپنا مؤقف کسی حد تک چھوڑ دیں تو یہ بھی آپ ۖکے ساتھ نرم رویہ رکھیں گے۔ مشرکین مکہ نے آپۖ سے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے عزیز ہیں، ہم ایک ہی شہر کے رہنے والے ہیں۔ کیوں ہم آپس میں لڑیں۔ ہم ایک مشترکہ لائحہ عمل تجویز کر لیں جس سے ہم دونوں کا فائدہ ہو جائے۔ تو انہوں نے کہا کہ محمدۖ ایک دن ہم آپ ۖ کے خدا کی پوجا کریں گے اور ایک دن آپۖ ہمارے بتوں کی پوجا کر لیا کریں۔جس پر یہ وحی اتاری گئی۔
اسلام کے دشمنوں کی یہ حکمت عملی آج تک کام کر رہی ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں بہت سے غیر مسلموں نے یہ کہا کہ قرآن بہت اچھی کتاب ہے۔ اس میں زندگی گزارنے کے بہت احسن طریقے ہیں بس ہماری ایک شکایت ہے کہ اس میں سے جہاد کی آیات نکال دی جائیں۔ پھر قرآن ہمیں بھی قابل قبول ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا کہناتھا کہ1990 کی دہائی کے شروع میں جب روس ٹوٹا تو مغرب کو اپنی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ایک نیادشمن درکار تھا۔ اپنے لوگوں کو متحد رکھنے کے لیے ۔ اس میں یہودیوں نے بڑا بنیادی کردار اد ا کیا۔ انہوں نے یورپ کو یقین دلایا کہ آئندہ جمہوریت کا دشمن اسلام ہے۔ 1992 اکتوبر میں نیویارکر میں ایک ٹائٹل ا سٹوری چھپی یہودی برناڈ لیوس کی۔جو بہت بڑا یہودی اسکالر تھا ۔ اس نے آرٹیکل میں لکھا کہ محمد ۖ کے پوری زندگی میں دو ہی رول تھے۔ ایک مکی اور ایک مدنی،انہوں نے مکی زندگی میں (آپ ۖ مکہ کی اس وقت کی حکومت کے باغی تھے) نہ تو اہل مکہ کا مذہب اپنایا۔ نہ ان کی طرح بود و باش اختیار کی۔نہ ان کی ثقافت و مشاغل اختیار کیے۔ دوسرا رول مدینہ کا تھا جہاں وہ حاکم اعلیٰ تھے۔ سپہ سالار بھی تھے۔ ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ چیف جسٹس بھی تھے۔ اس کے آرٹیکل کے بعد بہت سے غیر مسلموں نے اسلام مخالف کتابیں تحریر کیں۔پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ مغرب میں ہا ہا کار مچ گئی کہ کہیں 58 مسلم ریاستیں آپس میں نہ مل جائیں ۔ اس لئے اسلامی ریاستوں پر اپنے پروردہ حکمران تعینات کیے گئے اور ان سے اپنے مطلب کے کام نکلوائے گئے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری بہت سی کتابوں کے خالق ہیں مگر ان کی کتاب: The Holy Quran.A Continuous Miracle جسے بزم اقبال لاہور نے شائع کیا، بہت شاندار کاوش ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی(قرآن ایک مسلسل معجزہ)کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید اللہ کے تبارک کی طرف سے حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر نازل کی گئی وہ کتاب ہے جس پر چودہ صدیوں سے مفسرین قرآن نے اتنا کچھ لکھا لیکن پھر بھی قرآن مجید کا حق ادا نہیں کر سکے۔ قران مجید حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر نازل کیے گئے معجزات میں سے ایک ایسا معجزہ ہے جو کہ قیامت تک کے لیے محفوظ کردیا گیا۔ قرآن مجید بطور ایک معجزہ کے موضوع پر پرفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری صاحب کی یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک شاندار کتاب ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں قرآن پاک کو مسلسل معجزہ اسلئے قرار دیتا ہوں کہ دنیا کی جتنی بھی زبانیں ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت اور معنی بدل لیتی ہیں مگر 1400 سال سے زیادہ عرصہ گزرنے پر بھی آج بھی ایک لفظ کا بھی معنی تبدیل نہیں ہوا تو یہ معجزہ ہی ہے۔ قرآن پاک ساڑھے 14 سو سال پہلے بھی ایک معجزہ تھا آج بھی معجزہ ہے اور رہتی دنیا تک ایک معجزہ ہی رہے گا قرآن حکیم بلاشبہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اسلامی تہذیب ہی قرآن پاک سے پھوٹتی ہے۔ رب حکمی کی وجہ سے اور قرآن پاک اور حضور پاک کی شان و شوکت اور عظمت و بزرگی کے باعث مغرب کو آج تک اس حوالے سے مایوسی ہوئی ہے اور آئندہ بھی مایوسی ہوگی۔ قرآن حکیم امت مسلمہ کا مرکز ہے اور ہمیں اپنی نئی نسل کو اس کی اہمیت سے روشناس کروانا چاہئے۔
ڈاکٹر صاحب نے فلاسفی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا اور پھر جامعہ اْمّ القری مکتہ المکرمہ سے پی ایچ ڈی کا ابتدائی مرحلہ مکمل کیا اور باقاعدہ طالب علم کی حیثیت سے گلاسگو یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں تدریسی فرائض بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں انجام دیے۔ پنجاب یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کی عربی و اسلامیات کے لیے بے بہا خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ممتاز پروفیسر ہونے کا اعزاز دیا اور انہیں 22ویں گریڈ میں ترقی دی۔
ڈاکٹر محمد اکرام چودھری 2007ء میں یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر مقرر ہوئے جہاں انہوں نے آٹھ برس کے عرصے ایک لاجواب تعلیمی انقلاب برپا کر دیا۔انہوںنے چند سالوں میں یونیورسٹی میں محیرالعقول کارنامے انجام دیے۔ جب انہوں نے یونیورسٹی کو جائن کیا تو یہاں محض چند ہزار طلبہ و طالبات تھے مگر جب وہ یونیورسٹی سے رخصت ہوئے تو طلبہ و طالبات کی تعداد مرکزی کیمپس میں 28ہزار اور سب کیمپس میانوالی و بھکر میں چھ سات ہزار تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا سلوگن تھا کہ فیس کی استطاعت نہ رکھنے کی بنا پر کوئی طالب علم اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہے گا۔ اگر یونیورسٹی کے بجٹ میں گنجائش نہ ہوتی تو وہ ذاتی ذرائع سے فیسوں کا انتظام کر لیا کرتے۔ انہوں نے سنڈیکیٹ کے مشورے سے تمام یتیم بچوں کی فیس معاف کر رکھی تھی۔ اسی طرح حفظ قرآن کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے حفاظ طلبہ و طالبات کو بھی فیس کی ادائیگی سے استثنیٰ دے رکھا تھا۔