وجود

... loading ...

وجود

تہران اور ریاض کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی

پیر 13 مارچ 2023 تہران اور ریاض کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی

راؤ محمد شاہد اقبال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر آج مسلم دنیا ایک جسدِ واحد کے بجائے چھوٹے چھوٹے ریاستی ٹکڑوں میں تقسیم نظر آتی ہے تو اِس کا بنیادی سبب ایران اور سعود ی عرب کے درمیان پائی جانے والی صدیوں پرانی آپسی رقابت اور مخاصمت ہے ۔ بدقسمتی سے دونوں ممالک کی سیاسی پرخاش کی کوئی ایک معین وجہ نہیں ہے بلکہ ایران اور سعودی عرب کے مابین پائے جانے والے دیرینہ تنازع کی نوعیت کثیر الجہتی ہے ۔ یعنی سیاسی ، تہذیبی ، مذہبی ،معاشی اور سفارتی سمیت غرض کوئی ایک بھی ایسا میدان نہیں ہے ،جہاں اِن ممالک کی قیادت ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار نہ رہی ہو۔ بظاہر مسلم دنیا کے کئی ممالک کی طرف سے سعودی عرب اور ایران کے درمیان برسوں پرانی اِس مخاصمت اور تنازع کو ختم کرنے کی کئی بار سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کی گئیں۔ مگر ہر کوشش ناکام نا مراد ہی ٹہری ۔یاد رہے کہ ایران میں اچانک سے بپا ہونے والے 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جس طرح سے مغربی ممالک نے ایران پر اقتصادی و سیاسی پابندیاں لگا کر اُسے عالمی سفارتی تنہائی کا شکار کیا تھا۔ اُس کے بعد بعض اسلامی مفکرین کو یہ موہوم سی اُمید ہوچلی تھی کہ عین ممکن ہے کہ عالمی تنہائی کا شکار ہونے کے بعد نئی ایرانی قیادت سعودی عرب کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوئی نہ کوئی سعی ضرور کرے گی ۔
مگر افسوس! سیاسی اور اقتصادی طور پر انتہائی کمزور ہونے کے باوجود بھی ایران نے سعودی عرب کے خلاف اپنے مخاصمانہ خیالات میں کوئی کمی نہ آنے دی ۔ بلکہ ایران میں اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے والی ایرانی قیادت پہلے سے بھی زیادہ مخاصمانہ قوت کے ساتھ سعودی عرب کے خلاف پراکسی وار پر کمر بستہ ہوگئی ۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اصل جھگڑا عرب اور عجم کاہے اور اسی جھگڑے یا تفریق کو ختم کرنے کے لیے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا ’’کسی عرب کو عجمی پر یا کسی عجمی کو عرب پر برتری نہیں ہے‘‘۔ مگر اس پیغمبرانہ نصیحت اور حکم کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت عرب اور عجم کے خانوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ ایران کو عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب میں شیعہ مسلک پر عمل پیرا مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھے جانے کی شکایت رہی ہیں ۔جبکہ سعودی عرب کو بھی کچھ ایسی ہی شکایات ایران میں آباد سنی مسلمانوں کے بارے میں ہمیشہ سے رہی ہیں کہ ایران میں سنی مسلک کو ماننے والوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتاجاتا ہے ۔جبکہ بعض عرب دانشور وں اور رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ ایرانی قیادت پریہ بھی الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ ایران میں سرکاری سرپرستی میں سنی مسلمانوں کو شیعہ بنانے کے لیے خفیہ تحریکات بھی چلائی جاتی ہیں۔
دوسری جانب مغربی ممالک نے سعودی عرب اور ایران کے مابین پائی جانے والی مذہبی اور تہذیبی کشیدگی کا بھرپور سیاسی اور معاشی فائدہ اُٹھایا اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اِس کشیدگی کو مزید بڑھانے کے لیے پوری چابک دستی کے ساتھ آگ پر پیٹرول چھڑکنے کا کام کیا۔ اس وقت صیہونی ذہنیت کی حامل مغربی لابی عالم اسلام کو منتشر کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحیتوں کو استعمال کررہی ہیں تاکہ ان کے تیل اور گیس کے ذخائر پر بھی قبضہ ہوجائے اور آپس میں ایک دوسرے کو لڑانے کے لیے اپنے اپنے ہتھیاروں کی اچھی قیمت فروخت کے ذرائع بھی پیدا کرلیے جائیں۔اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مغربی ممالک نے ایران اور سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دیگر مسلم ممالک میں بھی شیعہ سنی فسادات کروانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے ضائع جانے نہیں دیا ۔ کیونکہ مغرب جانتاہے کہ شیعہ سنی فسات کسی بھی مسلم ملک میں ہوں ،اُس کا براہ راست اثر سعودی عرب اور ایران کے خلاف تعلقات پر پڑتاہے۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے قریب آنے کے بجائے مزید دُور ہوجاتے ہیں۔ مسلم دنیا کے لیے یہ ایک صورت حال تھی ، جس کا اُن کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کسی مسلم ملک نے خوشی فہمی کا شکار ہوکر سعودی عرب اور ایران کے تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی کی پیشکش کی تو اُس ملک اپنے تعلقات ایران اور سعودی عرب کے ساتھ کشیدہ سے کشیدہ تر ہوگئے۔
یادش بخیر! جو مشکل ترین اور ناممکن دکھائی دینا والا کام پوری مسلم اُمہ کی سیاسی قیادت مل کر نہ کرسکی تھی، اُسے بیجنگ نے بالآخر کردکھایا اور سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف بیٹھنے پر آمادہ کرلیا بلکہ اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ باقاعدہ اور اعلانیہ سفارتی تعلقات بحال کرنے پر بھی قائل کر لیا۔ مسلم دنیا کے دو نہایت اہم ملکوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کئی برسوں سے جاری شدید کشیدگی کا خاتمہ اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر ہونے والا اتفاق پوری عالمی برادری کے لیے تو بلاشبہ بڑی خوش آئند پیش رفت ہے ہی مگر ساتھ ہی یہ بیجنگ کی بھی ایک بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ چینی قیادت کے اِس سفارتی اقدام نے عالم مغرب کو حیران اور ششدر کر کے رکھ دیا ہے۔سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ مشرق وسطی میں امریکا اور اِس اتحادی ممالک نے گزشتہ نصف صدی میں بھی جتنے سفارتی جال مسلم اُمہ کے خلاف بچھائے تھے ، وہ سب کے سب تارِ عنکبوت کی مانند نیست و نابود ہوگئے ہیں ۔جبکہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے جنگ زدہ مسلم ملکوں یمن اور شام سمیت پورے مشرق وسطیٰ میں پائیدار قیام امن کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب، ایران اور چین کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق تہران اور ریاض نے اتفاق کرلیا ہے کہ دوماہ کے اندر باہمی سفارتی تعلقات کی بحالی کا عمل مکمل کرلیں گے اور دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے سفارت خانے اور مشن کام شروع کردیں گے۔ یاد رہے کہ ایرانی نیشنل سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان کئی دنوں تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں نے تعلقات کی بحال کرتے ہوئے دونوں ممالک نے 17 اپریل 2001 کو طے پانے والے سیکورٹی تعاون کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد پر اتفاق کر لیا ہے۔ دونوں ممالک نے 27 مئی 1998 کے عام معاہدے پر بھی اتفاق کرلیا ہے، جس کا مقصد اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی اس معاہدے پر تینوں ملکوں خصوصاً چین کی قیادت کی دور اندیشی اور فراست کو سراہتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ اہم سفارتی پیش رفت علاقائی اور عالمی امن و استحکام میں نہایت معاون ثابت ہوگی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر