... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کے نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری کے بعد اپوزیشن میں ایک نئی ہلچل دیکھنے کو ملی ہے ۔سرکاری ایجنسیاں جس انداز میں اپوزیشن لیڈران کو نشانہ بنا رہی ہیں، اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں صرف اپوزیشن ہی بدعنوان ہے جبکہ حکمراں طبقے کے سبھی لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گودی میڈیا بھی سوال صرف اپوزیشن سے ہی پوچھتا ہے اور اس کی توپوں کا رخ ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکومت کی کارکردگی پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ جبکہ میڈیا کا اصل کام حکومت سے سوال کرنا ہے اور اسے عوامی بہبود کے کاموں پر مجبور کرنا ہے لیکن ہمارے ملک میں ایک نئی ریت چلی ہے کہ سارے سوال صرف اپوزیشن سے پوچھے جاتے ہیں اور حکومت کو ہر معاملے میں کلین چٹ دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ مگر اب پانی سرسے اونچا بہنے لگاہے ۔سرکاری ایجنسیاں آئے دن جس انداز میں اپوزیشن لیڈروں کو نشانہ بنارہی ہیں، اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ برسراقتدار طبقہ ملک کو‘اپوزیشن فری’بنانا چاہتا ہے تاکہ وہ من مانی کرسکے ۔یہی وجہ ہے کہ اب اپوزیشن اپنی ناکہ بندی خلاف متحد ہوکر سامنے آگیا ہے ۔اپنے خلاف سی بی آئی اور ای ڈی کی غیرمعمولی سرگرمی کے پیش نظر اپوزیشن جماعتوں نے مورچہ کھول دیا ہے ۔
اپوزیشن نے مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال کا الزام لگاتے ہوئے وزیراعظم نریندرمودی کو ایک مکتوب روانہ کیا ہے ۔آبکاری پالیسی معاملے میں منیش سسودیا کی گرفتاری کا ذکرکرتے ہوئے اپوزیشن لیڈران نے خط میں لکھا ہے کہ ‘آپ’ لیڈر کے خلاف عائد کیے گئے الزامات پوری طرح بے بنیاد اور سیاسی سازش کا حصہ ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن ممبران سے انتخابی میدان کے باہر انتقام لینے کے لیے مرکزی ایجنسیوں اور گورنر جیسے آئینی عہدوں کا غلط استعمال قابل مذمت ہے اور یہ جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہے ۔دہلی سرکارکے ایک وزیر ستیندر جین پہلے سے ہی تہاڑجیل میں ہیں اور اب نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری نے عام آدمی پارٹی کو سراپا احتجاج بنادیا ہے ۔ اس سے قبل عام آدمی سرکار کے وزیر ستیندر جین کو منی لانڈرنگ معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ تقریباً دس ماہ سے تہاڑجیل میں بند ہیں۔اب نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ۔اس کارروائی کے بعد عام آدمی سرکار کے دونوں وزیر مستعفی ہوچکے ہیں۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں،ای ڈی نے جیل میں ہی منیش سسودیا کو گرفتار کرلیا۔ اس سے پہلے ان کی گرفتاری سی بی آئی نے کی تھی۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی گرفتار شدہ شخص کو دوبارہ گرفتار کیا جائے ، مگر اس وقت ہم جس سیاسی ماحول میں سانس لے رہے ہیں وہاں سی بی آئی اور ای ڈی کو اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ وہ غیراپوزیشن کے کسی بھی لیڈر کو کئی کئی بار گرفتار کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر ایک بارکسی کی گرفتاری سے تشفی نہ ہوئی ہو تو اسے دوبار، تین یا چار بار بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کے برعکس اگر بی جے پی کا کوئی لیڈر بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اسے فوری ضمانت مل سکتی ہے اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کا اندازہ گزشتہ ہفتہ اس وقت ہوا جب کرناٹک میں ایک بی جے پی ممبر اسمبلی کے بیٹے کے گھر سے آٹھ کروڑ روپے کی نقدی برآمدہوئی۔ اس کے بعد سبھی کو یہ توقع تھی کہ ممبر اسمبلی کے خلاف کارروائی عمل میں آئے گی، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔واضح رہے کہ ممبراسمبلی مدل ویروپکشپا کے بیٹے پرشانت کمار کو ایک ٹھیکیدار سے چالیس لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیاتھا۔اس کے بعد جب لوک آیکت افسران نے ممبراسمبلی کے بیٹے کے گھر پر چھاپہ مارا تو بے حساب نقدی برآمد ہوئی۔اپنے خلاف کارروائی کے خدشے کے پیش نظر ممبراسمبلی نے اپنی پیشگی ضمانت کے لیے کرناٹک ہائی کورٹ میں جو عرضی دائر کی وہ اگلے ہی روز سماعت کے لیے منظورہوگئی اور عدالت نے پیشگی ضمانت بھی منظورکرلی۔ اس واقعہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کے خلاف بنگلور کے وکیلوں کی ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک شکایتی مکتوب روانہ کیا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے عام شہریوں کی اپیل کو سماعت پرآتے آتے کم از کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے جبکہ بی جے پی ممبراسمبلی کی اپیل کو اگلے ہی دن سن بھی لیا گیا۔ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، لیکن یہاں امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک جانب حکمراں جماعت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بدعنوانی کے معاملے میں پورے نظام کا ایک ہی رویہ ہے جبکہ اپوزیشن لیڈران کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جارہی ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ راشٹریہ جنتادل کے رہنما اور بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالو پرساد یادو ان دنوں سخت بیمار ہیں۔ پچھلے دنوں سنگاپور میں ان کاگردہ بھی بدلا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ ان کی بیوی رابڑی دیوی اور بیٹی راگنی یادو کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے ہیں۔لالو یادو اور ان کے خاندان کو نشانہ بنانے کی واحد وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کبھی فرقہ پرست طاقتوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔اپوزیشن کے خلاف تابڑتوڑ کارروائیوں سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت نے مرکزی ایجنسیوں کو سیاسی مخالفین کا خاتمہ کرنے کے کام میں لگادیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کے خلاف تمام اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر آواز بلند کررہی ہیں اور انھوں نے براہ راست وزیراعظم سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے ۔
اپوزیشن لیڈران نے اپنے مکتوب میں آسام کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اور دیگر لیڈروں پر بھی نشانہ سادھا ہے ۔الزام لگایا گیا ہے کہ اپوزیشن کے جو لیڈران بی جے پی میں شامل ہوجاتے ہیں، ان کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کی جانچ کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے ۔ جن اپوزیشن لیڈران نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے ان میں تلنگانہ کے وزیراعلیٰ چندرشیکھر راؤ،دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال، مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، پنجاب کے وزیراعلیٰ بھگونت مان، راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو، این سی پی صدر شرد پوار، نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ، شیوسینا لیڈر ادھو ٹھاکرے ، اور سماجوادی پارٹی صدر اکھلیش یادو شامل ہیں۔
اس صورتحال پر حال ہی میں سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے بھی آواز بلند کی ہے ۔ انھوں نے ان حالات سے
نمٹنے کے لیے ’انصاف ‘ کے نام سے ایک غیرسیاسی پلیٹ فارم قایم کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو کوئی بھی سرکار سے سوال پوچھنے کی ہمت کرتا ہے ، اس کے پیچھے مرکزی ایجنسیاں پڑجاتی ہیں۔اپوزیشن کے رہنماؤں، صحافیوں، اداکاروں اور طلباء کو ایجنسیاں نشانہ بنارہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ای ڈی کی 95فیصدی تحقیقات اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف ہے ۔سرکار کہتی ہے کہ یہ لوگ غلط کام کررہے تھے تب ہی ایجنسیاں انھیں نشانہ بنارہی ہیں، لیکن تصویر کا دوسرا پہلویہ ہے کہ سرکار اپنے خلاف اٹھنے والی ہرآواز کو دبانے کی مہم چلارہی ہے ۔کپل سبل کا سوال تھا کہ کیا بی جے پی کے کسی ایک لیڈر کے خلاف ای ڈی نے جانچ شروع کی ہے ؟کوئی بھی مرکزی ایجنسی برسراقتدار لوگوں کے پاس گئی؟کیا بی جے پی کے سارے لوگ دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ٹارگٹ صرف اپوزیشن کی حکومتیں ہیں۔
٭٭٭