... loading ...
راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین سماجیات ،سیاست کو Game of Possibles یعنی ممکنات کا کھیل بھی کہتے ہیں ۔ یاد رہے کہ سیاست کو ممکنات کا کھیل صرف اِس لیے کہا جاتاہے کہ جمہوری روایات کی امین اقوام سیاست کی بدولت ہی معاشرے کے بکھرے ہوئے تاروپود کویکجا کرتی ہیں اور پھر سیاسی روادار ی کوبروئے کار لا کر اپنے بڑے سے بڑے سیاسی ، سماجی اور معاشی مسئلہ کی اُلجھی گتھی کو بہت آسانی کے ساتھ سلجھالیا کرتی ہیں ۔ مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک طویل عرصہ سے وطن عزیز پاکستان میں سیاسی جماعتیں نہ جانے کس ڈھب سے اور کون سی سیاست کا کھیل، کھیلنے میں مصروف ہیں کہ اِن سے تمام تر کوششوں کے باوجود کچھ بھی تو ٹھیک سے ممکن نہیں ہوپارہا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک کو معاشی ابتری ،سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملک معاشی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ،قانون نافذ کرنے والے ادارے شب و روز دہشت گردوں کی بہیمانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب کر مرے جارہے ہیں ۔ لیکن سیاسی قائدین کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے ۔
بظاہر ایک بات پر سب کا کامل اتفاق ہے کہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل کا حل سیاسی استحکام میں پوشیدہ ہے ۔مگر سیاسی استحکام کے لیے جس قدر مناسب اور سازگار سیاسی ماحول کی ضرورت ہے ۔وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا مطمح نظر نہیں ہے۔ خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے قائد اور سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ انہوں نے تو کسی بھی صورت میں انتشار کی سیاست کو ترک نہیں کرنا ۔ یعنی ملک کے وسیع تر مفاد میں کوئی ایک بھی ایسا مرکزی نکتہ نہیں ہے ، جس پر گفت و شنید کے لیے عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہوں ۔ کیونکہ عمران خان کا ماننا ہے کہ اُ ن کے سوا ،ہر سیاسی جماعت کا رہنما چور اور ڈاکو ہے ۔لہٰذا، وہ کسی بھی چور اور ڈاکو کے ساتھ بھلا کیسے بات چیت کرسکتے ہیں ؟آج کی سیاست میں پارسائی کا جتنا بڑا دعوی عمران خان کو ہے ،شاید ہی انسانی تاریخ میں کوئی سیاسی رہنما پارسائی کا اتنا بڑا دعوے دار رہا ہو۔
خود فریبی اور خوش فہمی کی اِس خودساختہ دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے عمران خان باہر نکلیں تو انہیں اندازہ ہوکہ وطن عزیز پاکستان کے حقیقی مسائل کیا ہیں اور انہیں کیسے حل کیا جاسکتاہے ؟سرِدست تو عمران خان کے نزدیک سب بڑا ملکی مسئلہ معاشی نہیں بلکہ ذاتی یعنی اُن کا دوبارہ، وزیراعظم پاکستان بننا ہے اور وہ مذکورہ مسئلہ کو جلد ازجلد حل کرنے کے لیے پوری تندہی کے ساتھ شبانہ روز احتجاجی اور تخریبی سیاست میں مصروف ہیں ۔مگر یہاں مصیبت یہ درپیش ہے کہ عمران خان کی نفرت اور انتشار پر مبنی سیاست صرف حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ خود اُن کے لیے بھی مستقل قانونی مسائل اور سیاسی پریشانیوں کاپیش خیمہ بنتی جارہی ہے ۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والے افراد بھی اَب تو عمران خان کے طرز سیاست سے بہت زیادہ مایوس اور بیزار ہوتے جا رہے ہیں ۔ دراصل سوشل میڈیا پر ہر روز تحریک انصاف کی جانب سے اپنے ہمدردوں کو یہ خوش کن خواب دکھایا جاتا ہے کہ ”سب بڑے بڑوں کے درمیان تمام معاملات طے پاگئے ہیں اور آج رات کو ہی حکومت کو گھر بھیج کر انتخابات کا اعلان کردیا جائے گا”۔ لیکن جب صبح ہوتی ہے تو وہی شہباز شریف کی حکومت ہوتی ہے اور پی ٹی آئی کارکنان کو احتجاجی جلسے ، ریلی یا دھرنے کے لیے بنی گالا یا پھر زمان پارک پہنچنے کا پیغام آجاتاہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ سے یہ ہی سب کچھ پوری یکسانیت کے ساتھ ہورہا ہے۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ عمران خان کی تخریبی سیاست کے بداثرات اَب تو حکمران اتحاد پر بھی پڑنا شرو ع ہوگئے ہیں اور کثیر الجماعتی اتحاد،المعروف پی ڈی ایم حکومتی اتحاد میں سیاسی اختلافات کی دراڑیں صاف دکھائی دینے لگی ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ،اور ناقابل تردید ثبوت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وفاقی وزارتیں چھوڑنے کی دھمکی ہے۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے رواں ہفتہ ، ڈیجیٹل مردم شماری پرتحفظات ظاہر کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر غلط طریقے سے کسی کی”خاص ہدایات” پر ڈیجیٹل مردم شماری ہونی ہے تو پیپلز پارٹی اس کو قبول نہیں کرے گی اور اگر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب متاثرین سے کیے گئے وعدے کے مطابق 4.7 بلین ادا نہیں کیے تو ہمارے لیے اپنی وزارتیں باقی رکھنا مشکل ہوجائے گا ”۔ جبکہ اِسی حکمراں اتحاد میں شامل متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے بھی وزیر اعظم کو انتہائی سخت الفاظ میں متنبہ کیا ہے کہ ”ہماری جانب سے آخری بار یاددلایا جا رہا ہے کہ آپ پر ہماری تنظیم کا بھی کچھ قرض ہے لہٰذا کراچی آکر ہماری داد رسی کیجیے”۔بظاہر کہنے کو یہ دونوں بڑی جماعتیں حکمراں اتحاد کا حصہ ہیں لیکن مردم شماری، انتخابی حلقہ بندی اور انتخابی فہرستوں پر ان کے شدید باہمی اختلافات ہیں اور خاکم بدہن، وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اِن مسئلوں کو سلجھاتے سلجھاتے ،خدانخواستہ اُلجھ کر اقتدار کی کرسی سے گر بھی سکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ قومی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے سیاسی استحکام کا ہونا ناگزیر ہے ۔لیکن یہ ایک ایسی مشکل بات ہے جسے ہم اپنے سیاسی اکابرین کو نہیں سمجھا سکتے ۔دراصل سیاسی اکابرین سیاسی استحکام کو اپنی سیاست کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاؤٹ خیال کرتے ہیں ۔ مثال کے طورپر اگر پی ڈی ایم اتحاد کی موجودہ حکومت قومی معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اِس کا سب سے زیادہ براہ راست نقصان پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کوہی پہنچے گا۔کیونکہ اگلے انتخابات میں عمران خان کی انتخابی کامیابی کا تمام تر دارمدار ہی حکومت کی بدترین ناکامی پر ہے۔اِس لیے خاطر جمع رکھیئے کہ ملکی سیاست کے حالات جس غلط سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں ،بدستور ویسے ہی بڑھتے رہیں گے اور سیاسی خلفشار میں ہرگزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ بھی ہوتارہے گا۔کیونکہ عمران خان اقتدار کے لیے جنگ لڑرہے ہیں اور اِس جنگ میں وہ جیت یا پھر ہار تو سکتے ہیں لیکن ملک کے وسیع تر مفاد میں سیاسی استحکام کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتے ۔
٭٭٭٭٭٭٭