وجود

... loading ...

وجود

امرت پال سنگھ پراتناسناٹا کیوں ہے بھائی؟

منگل 07 مارچ 2023 امرت پال سنگھ پراتناسناٹا کیوں ہے بھائی؟

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی چھاتی اگر چھپن انچ کی ہے تو وزیر داخلہ امیت شاہ کا سینہ ساٹھ انچ سے کم نہیں ہے ۔ ان کی زبان بھی وزیراعظم سے دوچار انچ لمبی ہی ہے اسی لیے انہوں نے ایوان پارلیمان میں اعلان کردیا تھاکہ کشمیر کے لیے جان دے دیں گے اوراکسائی چین ہمارا حصہ ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین نے گلوان پر حملہ کرکے اپنی ناراضی کا عملی اظہار کردیا ۔ شاہ جی نے گجرات میں جاکر سبق سکھانے کی بات تو کی مگر سبق نہیں سیکھا ورنہ پنجاب میں صورتحال نہ ہوتی اور وزیر داخلہ کو امرت پال سنگھ کھلے عام دھمکی نہ دیتا کہ ”پانچ سو سال ہمارے آباو اجداد نے اس سرزمین پر اپنا خون بہایا ہے ۔ قربانی دینے والوں کو انگلیوں پر گنا نہیں جاسکتا”۔ اپنی تمہید کے بعد وہ کہتا ہے ” اس سرزمین کے دعویدار ہم ہیں۔ اس دعویٰ سے کوئی ہمیں پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ نہ اندرا ہٹا سکی تھی اور نہ ہی مودی یا امیت شاہ ہٹا سکتا ہے ۔ دنیا بھر کی فوجیں آجائیں ، ہم مرتے مر جائیں گے لیکن اپنا دعویٰ نہیں چھوڑیں گے ”۔
وزیر داخلہ امیت شاہ کو یہ دھمکی محض یہ کہنے پر ملی تھی کہ پنجاب میں خالصتان کے حامیوں پر ان کی نظر ہے ۔ اس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ شاہ کو کہہ دو پنجاب کا بچہ بچہ خالصتان کی بات کرتا ہے ۔ جو کرنا ہے کرلے ۔ ہم اپنا راج مانگ رہے ہیں کسی دوسرے کا نہیں۔ اس اشتعال انگیز بیان کے جواب میں بھی وزیر داخلہ نے کوئی اقدام تو دور ایک ٹوئٹ تک نہیں کیا اس لیے وہ مکالمہ یاد آگیا’آخر اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟’ وزیر داخلہ کے علاوہ ‘گھر میں گھس کر مارنے والے ‘ وزیر اعظم بھی بالکل خاموش ہیں۔ چہا ر جانب پسرے اس پر اسرار سناٹے نے پھر سے ثابت کردیا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔اجنالا میں پچھلے دنوں جو واقعہ رونما ہوا اس کی مثال تو اس وقت بھی نہیں ملتی جب پنجاب خالصتانی تشدد کی آگ میں جل رہا تھا۔ اس بار خالصتان کی حامی تنظیم ‘وارث پنجاب دے ‘سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افرادنے امرتسر کے اجنالا پولیس اسٹیشن پرحملہ کردیا۔ان کے ہاتھوں میں بندوقیں اور تلواریں تھیں۔
اپنی تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ کی قیادت میں مسلح بھیڑ بیریکیڈ توڑ کر تھانے میں گھس گئی۔ دھکا مکی میں6پولیس اہلکار زخمی ہو گئے ۔ اس پرامرت پال سنگھ نے کہا”پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ گر کر زخمی ہوئے تھے۔ ہمارے 10تا 12لوگوں کوچوٹیں آئی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہلو پریت سنگھ طوفان کوایک دن کے اندر رہا کیا جائے ”۔
اس حیرت انگیز واقعہ کے بعد ‘دہشت گردی پرصفر برداشت’ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کے پولیس کمشنر جسکرن سنگھ نے اعلان کیا کہ ”طوفان کورہا کیا جارہا ہے ۔ ان کے حامیوں نے ان کی بے گناہی کے کافی ثبوت دیے ہیں۔معاملے کی جانچ کے لیے ایس پی تیج بیر سنگھ ہنڈل کی قیادت میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی گئی ہے ‘۔ اس بیان کے کئی دلچسپ پہلو ہیں اول تو یہ کہ معاملے کی تفتیش کے ایس آئی ٹی کی تشکیل کی گئی ہے لیکن اس کی جانچ سے قبل طوفان چھوٹ گیا تو خصوصی ٹیم کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ وہ آخر کیا کرے گی ؟اس بیان کا دوسرا مضحکہ خیز پہلو یہ کہ ایک ملزم کے حامیوں سے مطمئن ہوکر پولیس نے اسے چھوڑ دیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پولیس تھانے کا محاصرہ کرنا، اس پر قبضہ کرکے اہلکاروں کو یرغمال بنا لینا اور بدلے میں اپنے آدمی کو چھڑوانا کوئی جرم نہیں ہے ؟ اس کی تفتیش اور سزا کسی کو ہوگی یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب وزیر اعظم کو دینا ہوگا کیونکہ یہ محض صوبائی نہیں بلکہ قومی مسئلہ ہے ۔اجنالا پولیس تھانے پر حملہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک دن قبل امرت پال نے متنبہ کردیا تھا کہ اگر اس پر اور ساتھیوں پر دائر ایف آئی آر ایک دن کے اندررد نہ کی گئی تو وہ اپنے حامیوں سمیت پولیس اسٹیشن کا گھیراؤ کرنے پہنچے گا۔
اعلان کے مطابق دو دن بعد امرت پال تھانے پہنچا اور اس کے بعد وہاں بھیڑ جمع ہوگئی۔ اس اعلان کے پیش نظر امرتسر میں پولیس انتظامیہ نے سیکورٹی کا سخت انتظام کیا تھا۔ الگ الگ راستوں سے اجنالا پولیس اسٹیشن میں پہنچنے والے مقامات پر خصوصی ناکہ بندی کی گئی تھی اور زبردست پولیس فورس کی تعیناتی ہوئی تھی۔ اس کے باوجود امرت پال کے حامی بڑی تعداد میں تھانہ اجنالا کے باہر پہنچ گئے جہاں پہلے سے تعینات پولیس فورس نے انھیں حراست میں لے لیا لیکن بعد میں امرتسر دیہات کے ایس ایس پی نے حراست میں لیے گئے نوجوانوں کو چھوڑ دیا ۔
اس ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملتے ہی امرت پال بھی اجنالا تھانے پہنچ گیا اور اس نے ایس ایس پی ستیندر سنگھ سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے امرت پال سنگھ کے ساتھ معاہدہ طے پانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے تصدیق کی کہ لوپریت طوفان موقع واردات پر موجود نہیں تھا اس لیے اگلے دن عدالت میں درخواست دے کراسے رہا کر دیا جائے گا۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عدلیہ کا کردار معطل ہوچکا ہے اور سارے اختیارات انتظامیہ کو سونپ دیے گئے ہیں؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اگر طوفان بے قصور تھا تو اسے گرفتار کیوں کیا گیا اور قصوروار تھا تو چھوڑا کیوں گیا؟ایک طرف تو انتظامیہ یہ نرمی دِکھا رہی تھی مگر اس کے جواب میں امرت پال سنگھ اعلان کررہا تھا کہ جب تک پولیس تحریری بیان نہیں دیتی وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اورتحریری یقین دہانی کے بعد تھانہ تو خالی کر دیا جائے گالیکن مقدمہ ختم ہونے تک اجنالا میں ڈٹے رہیں گے ۔
انتہا پسند امرت پال سنگھ اپنے جس معاون لوپریت سنگھ طوفان کو بزورِ قوت رہا کروانے میں کامیاب ہوگیا اس پر دیگر الزامات کے علاوہ اغوا کا بھی الزام تھا۔ اس معاہدے کے ایک دن بعد وہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ جیل سے باہر نکل آیا کیونکہ پولیس کی درخواست پر عدالت کو رہائی کا حکم دینا پڑا۔ اجنالا سانحہ کو امرت پال سنگھ کے اس چیلنج کی روشنی میں دیکھنا چاہیے کہ جس میں انہوں نے کہا تھا وزیراعلیٰ میں ہمت ہے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے دکھائیں۔ وہ بولے پولیس بار بارٹٹولتی ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہم یہاں یہ دکھانے کے لیے آئے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
یہ کوئی ریاستی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امرت پال سنگھ کہتا ہے : ہم خالصتان کے مطالبے کو بے حد پُرامن طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں’۔ اس کے بعد وہ کہتا ہے ، ‘وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ خالصتان تحریک کو نہیں بڑھنے دیں گے ۔ میں نے کہا تھا کہ اندرا گاندھی نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو نتائج بھگتنے ہوں گے ‘۔ اپنے اس بیان کے بعد امرت پال نے ایک ایسی بات کہہ دی جس نے پورے سنگھ پریوار کو آئینہ دکھا دیا۔ وہ کہتا ہے ‘ اگر وزیر داخلہ ‘ہندو راشٹر’کا مطالبہ کرنے والوں سے یہی کہتے ہیں تو میں دیکھوں گا کہ کیا وہ وزیرداخلہ بنے رہتے ہیں؟’ اس طرح امرت پال نے خالصتان کو ہندو راشٹر کے برابرپلڑے میں ڈا ل کر کھڑا کردیا۔
اتر پردیش کے بھگوا دھاری وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا تھا کہ بھارت ایک ہندوراشٹر ہے اور یہاں کا ہر شہری ہندو ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندو کوئی مذہب یا فرقہ نہیں ہے ۔ یہ ایک ثقافتی اصطلاح ہے ، جو ہر شہری کے لیے موزوں ہے ۔ اب اگر یوگی جی میں ہمت ہے تو پنجاب جاکر امرت پال کو سمجھائیں کہ بھیا یہ ریاست بھی ہندو راشٹر کا حصہ ہے ۔ ہندوستان ایک ہندو راشٹر تھا ، ہے اور رہے گا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتائیں کہ بیٹا امرت پال تم بھی سکھ نہیں بلکہ ہندو ہی ہو۔ اس کے بعد انہیں دال آٹے کا بھاؤ پتہ چل جائے گا اس لیے کہ اپنی گلی میں تو ہر کوئی شیر ہوتا ہے ۔ امرت پال تو ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ کو دھمکی دے چکا ہے کہ ‘اندراگاندھی نے دبانے کی کوشش کی تھی کیا حشر ہوا؟ اب امیت شاہ اپنی خواہش پوری کرکے دیکھ لے ‘۔
اس سنگین صورتحال کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کوشمال مشرق کی ننھی منی ریاستوں میں فینسی ڈریس شو کرکے انتخابی مہم چلانے میں مصروف رہے ۔ اب تو وہاں کے انتخابی نتائج بھی آچکے ہیں اور وزیر اعظم کیا تیرمار سکتے ہیں یہ بھی عوام نے دیکھ لیا۔ تریپورہ میں بی جے پی کی چار اور اس کی پارٹنر نے سات سیٹیں گنوادیں ۔ ناگالینڈ میں دنیا بھر کا تماشا کرنے کے باوجود ایک سیٹ بھی نہیں بڑھا سکے اور جونیئر کے جونیئر پارٹنر ہی رہے ۔ میگھالیہ میں قبائلی لباس پہن کر تلوار لہرانے کے باوجود پہلے بھی دو اور اب بھی دوہی رہیں۔ تین صوبوں میں سے ایک میں وزیر اعلیٰ پہلے تھا سو اب بھی ہے ۔ باقی دو میں دوسروں کی جوتیاں سیدھا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے ۔ اس سے فرصت نکال کر انہیں پنجاب کی جانب توجہ دینی چاہیے تھی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک کا شمال مغربی صوبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے اور حکمرانوں کو شمال مشرق میں انتخابی کامیابی کی فکر ستا رہی تھی ۔ ایسی صورتحال میں ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر