... loading ...
معصوم مرادآبادی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستان سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے پر کمربستہ عناصر کو سپریم کورٹ نے زبردست پھٹکار لگائی ہے ۔ملک میں تاریخی مقامات، شہروں اور شاہراؤں کے نام تبدیل کرنے کے لیے کمیشن قائم کرنے کی جو درخواست کی گئی تھی، اسے سپریم کورٹ نے سختی سے مسترد کردیا ہے ۔سپریم کورٹ نے اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے جو طویل تبصرہ کیا ہے ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت فسطائی ٹولے کی ریشہ دوانیوں سے بخوبی آگا ہ ہے ۔ جسٹس بی وی ناگا رتنا اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ نے کہاہے کہ ماضی کو مت کریدئیے ۔ اس سے صرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوگی۔ ہم ملک کو آگ میں نہیں جھونک سکتے ۔عدالت نے عرضی گزار سے سوال کیا کہ آپ اس کے ذریعہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہمارے ملک میں کئی دیگر مسائل ہیں جن پر توجہ دینا چاہئے اور آپ چاہتے ہیں کہ وزارت داخلہ نام بدلنے والا کمیشن تشکیل دے تاکہ مقامات اور سڑکوں کے نام تبدیل کیے جائیں۔
سبھی جانتے ہیں کہ جب سے مرکز میں بی جے پی نے مکمل اکثریت کے ساتھ اقتدار سنبھالا ہے تب سے نام بدلنے کی مہم چلی ہوئی ہے ۔ یہ نام وہ ہیں جویاتو مسلم دورحکومت میں رکھے گئے تھے یاپھر انھیں انگریزوں نے رکھا تھا۔ شہروں، مقامات اور شاہراؤں کے نام بدل کر انھیں بی جے پی اور آرایس ایس لیڈروں کے نام پر رکھا جارہا ہے اور یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ ملک صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کی میراث ہے ۔باقی جو بھی لوگ یہاں رہتے ہیں وہ ان ہی کے رحم وکرم پر ہیں۔بی جے پی کا خاص نشانہ مغل بادشاہوں کے ناموں پر رکھے گئے شہر اور مقامات ہیں۔ حال ہی میں مہاراشٹر کے دوشہروں اورنگ آباد اور عثمان آبادکے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔اس سے قبل راشٹرپتی بھون میں واقع مغل گارڈن کانام تبدیل کرکے ’امرت ادیان ‘کردیا گیاتھا۔ یو پی کے شہر’مغل سرائے ‘ کودین دیال اپادھیائے نگر، الہ آبادکو پریاگ راج اور فیض آباد کو ایودھیاکیا جاچکاہے ۔اسی طرح عثمان آبادکو’دھارا شیوا،اورنگ آباد کو چھترپتی سنبھا جی نگر،بھوپال کے حبیب گنج اسٹیشن کو رانی کملا پتی ریلوے اسٹیشن،ہوشنگ آباد کو نرمدا پورم کیا جاچکا ہے ۔لکھنؤکو لکشمن پوری اور علی گڑھ کو ’ہری گڑھ‘ کرنے کے مطالبات زوروں پرہیں۔۔ غرض یہ کہ مسلم ناموں کو مٹانے کی پوری مہم چل پڑی ہے ۔
ناموں کو بدلنے کے لیے کمیشن تشکیل دینے والے اشونی اپادھیائے دہلی بی جے پی کے لیڈر اور پیشے سے سپریم کورٹ کے وکیل ہیں۔ ان کا نام اشتعال انگیزی کرنے والوں میں سرفہرست ہے ۔ جنتر منتر پر ہوئے ایک ایسے ہی پروگرام کے سلسلہ میں انھیں گرفتار بھی کیا جاچکا ہے ۔ ان سب کے باوجود بی جے پی نے ان سے کبھی اظہار برات نہیں کیا۔ سپریم کورٹ میں بطور وکیل وہ ایسی عرضیاں داخل کرتے رہتے ہیں جن کی ضرب مسلمانوں کے دستوری حقوق پر پڑتی ہو۔عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کو بھی انھوں نے ہی چیلنج کیا ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ تین طلاق، یکساں سول کوڈ، تبدیلی مذہب، مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ اور اسی قسم کی دیگر عرضیوں پر بھی وہ سپریم کورٹ میں ایک فریق ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اشونی اپادھیائے اس مہم کا قانونی حصہ ہیں جو اس ملک میں مسلمانوں کی بنیادیں کھودنے کے لیے شروع کی گئی ہے ۔ شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کی غرض سے کمیشن قایم کرنے کے لیے اپادھیائے نے جو عرضی داخل کی تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ ملک میں مذہبی اہمیت کے ایسے بہت سے مقامات ہیں، جن کے نام غیرملکی حملہ آوروں اور لٹیروں نے تبدیل کردیے ہیں۔ آج بھی ایسے کئی مقامات کے نام ان غیرملکی حملہ آوروں یا ان کے متعلقین کے نام پر ہیں۔
اپادھیائے کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے بجا طورپرکہا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور ماضی کی تاریخ سے موجودہ نسل کے تعاقب کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم ایک سیکولر فورم ہیں۔ ہمارا کام دستور اور تمام طبقات کا تحفظ کرنا ہے ۔جب اپادھیائے نے بحث کے دوران یہ کہا کہ یہ معاملہ ہندوستانیوں کے وقار سے جڑا ہوا ہے تو اس پر جسٹس جوزف نے جواب دیا کہآپ منتخب طورپر ماضی کو دیکھ رہے ہیں۔دستور کو اختیار کرنے کے بعد آج کا ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ۔ عدالت نے مسلمانوں کا نام لیے بغیر کہا کہآپ ایک مخصوص فرقہ کی طرف انگلی اٹھارہے ہیں۔ آپ اس فرقہ کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں، جو سیکولرازم کے خلاف ہے ۔ جسٹس ناگا رتنا نے یہ بھی کہا کہ ہندوازم ایک طرززندگی ہے ۔یہ کوئی مذہب نہیں ہے ۔اس میں کوئی تعصب نہیں ہے ۔ ہندوستان ہرکسی کو اپنے اندر جذب کرتا ہے ۔چاہے وہ حملہ آور ہو یا دوست۔ اسی وجہ سے ہم مل جل کررہ پاتے ہیں۔پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی پالیسی انگریزوں نے شروع کی تھی۔ اس طرح کی درخواستوں کے ذریعہ ہندوستان کو نہیں توڑنا چاہئے ۔ماضی میں جو کچھ ہوا اس طرف دیکھنا اور احتجاج کرنا ٹھیک نہیں ہے ، اسے دفن کردینا چاہئے ۔سماج میں نفاق مت پیدا کیجیے ۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی تبصرے کو یہاں نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اس بات کا اندازہ لگاسکیں کہ ملک میں صحیح اور تعمیری سوچ رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عدالتوں کی طرف سے اکثر حقیقت حال بیان کرنے میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیا جاتا۔ نچلی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک ایسے منصف موجود ہیں جو سیاہ وسفید میں فرق کرنا جانتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ فسطائی ٹولہ انھیں بھی اپنی پراگندہ ذہنی کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے دنوں جب سپریم کورٹ نے بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی کے خلاف دائر عرضیوں پر مرکزکو نوٹس جاری کیا تھا تو اس پر آرایس ایس کے ترجمان ‘پانچ جنیہ’ میں سپریم کورٹ کی تنقید پرمبنی ایک اداریہ شائع ہوا تھا۔ اس اداریہ میں کہا گیا تھا کہ ہند مخالف طاقتیں سپریم کورٹ کو اوزار کی طرح استعمال کررہی ہیں۔اداریہ میں لکھا تھا کہ انسانی حقوق کے نام پر دہشت گردوں کو بچانے کی کوششوں اور ماحولیات کے نام پر ہندوستان کی ترقی میں خلل ڈالنے کے بعد اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ ملک دشمن طاقتوں کو ملک کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کا حق بھی ملنا چاہئے ۔اس اداریہ میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کو ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے بنایا گیا تھا، لیکن یہ ملک دشمن طاقتوں کے ذریعہ اپنا راستہ صاف کرنے کے لیے اوزار کی طرح استعمال ہورہا ہے ۔ مضمون کے مطابق سپریم کورٹ ملک کے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے ، ہندوستانی قانون اور ہندوستانیوں کی بھلائی کے لیے چلتا ہے ۔آرایس ایس ترجمان کایہ اداریہ دراصل الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی مثال ہے ۔ اس اداریہ سے واضح ہوتا ہے کہ ’پانچ جنیہ‘ سپریم کورٹ کو
اشونی اپادھیائے جیسے لوگوں مسلم دشمن لوگوں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کا اوزار بنانا چاہتا ہے ۔ سپریم کورٹ اس ملک میں انصاف، سیکولرازم، جمہوریت اور اظہاررائے کی آزادی کے دستوری محافظ کے طورپر جو خدمات انجام دے رہا ہے ، وہ لائق تحسین ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے انصاف پر مبنی فیصلوں سے فسطائی ٹولہ پریشانی محسوس کرتا ہے ۔شہروں اور مقامات کانام بدلنے والوں کو ان کی اوقات بتاکر سپریم کورٹ نے تاریخی کام کیا ہے ۔
٭٭٭