وجود

... loading ...

وجود

عمران خان کو الیکشن چاہیے ،مگر کون سے جناب ؟

پیر 06 مارچ 2023 عمران خان کو الیکشن چاہیے ،مگر کون سے جناب ؟

سیاسی زائچہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدرِ مملکت پاکستان ،جناب عارف علوی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر پنجاب اسمبلی کے انتخابات کروانے کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے مذکورہ انتخابات میں لاہور سے حصہ لینے والے پی ٹی آئی اُمیدواروں کے نام فائل کرکے اپنے تئیں انتخابی مہم کا آغاز بھی کردیا ہے۔جبکہ عین ممکن ہے کہ اگلے دو،چار ،دنوں میں الیکشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیئے باضابطہ طور پر انتخابی شیڈول بھی جاری کردیا جائے ۔ لیکن یہ سب اقدمات ہونے کے بعد بھی یہ سوال بدستور اپنی جگہ قائم رہے گا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات صدر مملکت کی دی گئی مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے یا پھر کسی ناگزیر وجہ کے باعث عین آخری لمحات میں ملتوی ہوجائیں گے؟یہ تذبذب اور اندیشہ ہائے سود و زیاں اِس لیے جاں کا آزار بنا ہوا کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا ایک الگ بات ہے اور مقررہ تاریخ پر واقعی انتخابات کا انعقاد ہوجانا، بالکل ہی دوسری بات ہے۔ عموماً پاکستان میں دوسری قسم کی بات اکثر ناگفتہ ہی رہ جاتی ہے۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ملک بھر میں انتخابات کروانے کا واحد ذمہ دار ،ریاستی ادارہ ضرور ہے لیکن انتخابات کروانے کے لیے جس قدر مالی وسائل اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے ۔اُس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ہمیشہ ہی سے یکسر محروم اور بے آسرا رکھا گیا ہے۔ لہٰذا،زیادہ تر سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ خیال ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں انتخابات کروانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تمام تر تیار ی اُس وقت تک قطعی بے معنی اور غیر مؤثر ہوگی ،جب تک حکومت وقت، انتخابات کروانے کے لیئے خلوص نیت کے ساتھ پوری طرح سے تیار نہ ہوجائے۔ فی الحال نظر بھی یہ ہی آرہا ہے کہ حکومتی اتحادی صرف دو ،صوبوں میں انتخابات کروانے کے لیئے کسی صورت میں بھی راضی نہیں ہیں۔ اَب یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کیا سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ آجانے اور صدرِ پاکستان کی طرف سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیے جانے کے بعد بھی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت یہ قوت اور صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد میں اتنی بڑی تیکنیکی ، انتظامی یا پھر قانونی رکاؤٹ کھڑی کردے کہ انتخابات کچھ عرصہ کے لیئے سہی التوا کا شکار ہوجائیں ؟ اِس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت کے پاس ایسے ایک نہیں بلکہ کئی آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں ،جن کا سہارا لے کر وہ بہت آسانی کے ساتھ اعلان کردہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو وقتی طور پر ملتوی کرواسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومتی اتحاد ی مذکورہ انتخابات کو غیر معینہ مدت تک التوا میں ڈالنے کے لیے نہ صرف پوری طرح سے یکسو ہیں بلکہ وہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے ہر آئینی ،قانونی اور انتظامی ہنر آزمانے کی حکمت عملی بھی طے کرچکے ہیں ۔ جس کا بخوبی ادراک پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں عمران خان اپنے ایک ویڈیو لنک خطاب میں التجائیہ انداز میں یہ تک کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ’’میں اَب سب سے بات کرنے ، سمجھوتا کرنے اور خود پر قاتلانہ حملہ میں ملوث افراد کو معاف کرنے پر بھی تیار ہوں ‘‘۔یقینا عمران خان کا یہ مفاہمانہ بیان حالیہ سیاسی منظرنامہ میں ایک بڑی پیش رفت ہے ۔کیونکہ اِس سے پہلے موصوف کو بات چیت کے لیے بھی صرف اپنی ٹکر کے لوگوں کی تلاش ہوتی تھی ۔ مگر جب ہر طرح کے احتجاجی گُر آزمانے اور اِدھر اُدھر ٹکریں مارنے کے بعد بھی ٹکر کے لوگ بات چیت کے لیئے سامنے نہیں آئے اور تو بالآخر تھکے ہارے ،مایوس عمران خان کو ہی کئی قدم پیچھے ہٹ کر سب کے ساتھ سمجھوتا کرنے کا پیغام ِ عام دینا پڑرہاہے۔
دراصل عمران خان جلد ازجلد ایک بار پھر سے وزیراعظم پاکستان بننا چاہتے ہیں اور وزیراعظم بننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ملک بھر میں عام انتخابات کا انعقاد ہو۔لہٰذا ، عمران خان جیسے تیسے کرکے بھی حکومت سے قومی اسمبلی کے انتخابات کروانے کی کوئی ایک حتمی تاریخ لینا چاہتے ہیں اور سچ پوچھئے تو عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلیوں کے انتخابات سے ذرہ برابر بھی دل چسپی نہیں ہے ۔اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی بار بار ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا ہی مطالبہ پر مطالبہ کیے جارہے ہیں ۔کیونکہ عمران خان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا نتیجہ اگر اُن کی جماعت کے حق میں بھی آجائے ،تب بھی وزیراعلیٰ تو عثمان بزدار یا پھر پرویز الٰہی میں سے ہی کسی ایک نے بننا ہے ۔جبکہ وہ زمان پارک سے بنی گالہ کے درمیان ہی احتجاجی جلسوں اور لانگ مارچوں میں اپنا خون پسینہ بہاتے رہیں گے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگرپرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کی کرسی پر بیٹھا دیکھ کر ہی عمران خان کی آنکھیں اتنی ہی ٹھنڈی ہورہی ہوتیں تو وہ بھلا پنجاب اسمبلی توڑتے ہی کیوں ؟ عمران خان نے تو پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں فقط، توڑی ہی اس لیے تھیں کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت آئینی دباؤ میں آکر ملک بھر میں عام انتخابات کروانے پر مجبور ہوجائے گی ۔ اَب جب کہ حکومت نے عام انتخابات کروانے کے لیئے ہر قسم کے سیاسی، آئینی اور قانونی دباؤ کو مسترد کرنے کا واضح اور، واشگاف الفاظ میں عندیہ دے دیا ہے تو ایسے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پاس بس! اَب ایک یہ ہی سیاسی راستہ باقی بچتا ہے کہ وہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ اسمبلیوں کے انتخابات کے التوا کی قیمت پر پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سے مذاکرات کرکے قومی اسمبلی کے انتخابات کے لیے اِسی برس کی کوئی بھی قریبی تاریخ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ عمران خان کا اصل مطمح نظر وزیراعظم پاکستان بنناہے ناکہ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانا ۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر