... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس سے پہلے کہ اقوام متحدہ استصواب رائے کا حکم دے ، یہاں آبادی کا تناسب ہی تبدیل کر دیا جائے۔ کیونکہ بھارت دیکھ رہا تھا کہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس سے سرف نظر کرنا ممکن نہیں۔ عالمی برادری بھی اس طرف توجہ دینے لگی تھی۔ مختلف ممالک کی پارلیمنٹ اور حکومتیں وادی کے حالات پر تشویش کا اظہار کر رہی تھیں اور سب سے بڑھ کرجب بھی امریکہ یا کسی دوسرے ملک نے پاک بھارت مابین ثالثی کی بات کی تو بھارت بھڑک اٹھا۔
وادی میں غیر کشمیریوں اور خاص طورپر کٹر انتہا پسند ہندوؤں کو آباد کرنا بھارت کا بنیادی مقصد ہے۔ اس کے لئے وہ ہر قدم اٹھا سکتا ہے۔ جیسا کہ مقبوضہ بھارتی حکومت وادی میں برسوں سے بندمندروں کے دروازے پھرسے کھولنے اور پوجا کرنے کی تیاری کررہی ہے۔ بھارتی وزیرمملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے میڈیا پر کہا کہ وادی کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے تقریباً 50ہزارمندروں کے دروازے بند ہیں۔ان مندروں میں سے کچھ کا ڈھانچہ بھی توڑ دیا گیا تھا اور مورتیوں کو بھی نقصان پہنچایا گیاتھا۔ مرکزی حکومت وادی کشمیر میں ایسے مندروں کا جلد ہی سروے کرانے جارہی ہے اور جلد ہی ان کو پھر سے کھولنے پر کام شروع کیاجائیگا۔بھارتی حکومت کی جانب سے آرٹیکل370 اور آرٹیکل35 اے کے خاتمہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مزید قانونی اور آئینی تبدیلیوں کی سازش کا انکشاف ہوا ہے۔اگلے ماہ بھارت کی جانب مقبوضہ کشمیر میں نئی حلقہ بندیاں کرنے اور مسلم اکثریتی حلقوں کو تقسیم کرنے کا آغاز کر رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری قانونی ترامیم بھی تیار کی گئی ہیں۔مسلم اکشریتی حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا جائے گاکہ نئی حلقہ بندی میں ہندو آبادی کو شامل کیا جائیگا اور ان کی اکثریت ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی اور جن علاقوں میں ہندو اکثریت نہیں ہوگی وہاں نئے ووٹر بنا کر نئی بستیاں بنائی جائیں گی۔یعنی بھارتی حکمرانوں نے مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کی آباد کاری کا منصوبہ فائنل کر لیا ہے اور اس منصوبے کے مطابق مقبوضہ وادی میں دو سے تین لاکھ ہندؤوں کو آباد کیا جائے گا۔خاص طورپر یہ خیال رکھاجائیگا کہ مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو بستیاں آباد کی جائیں تاکہ مسلم اکثریت کو توڑا جائے۔ بھارتی جنتا پارٹی کے رہنما رام مادھو نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں دو سے تین لاکھ ہندؤوں کو ناصرف رہائش بلکہ مکمل سیکیورٹی بھی فراہم کی جائے گی۔
اب تک ریاست کشمیر تین حصوں میں منقسم تھی۔ بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر علاقہ رکھتے ہیں۔مگر چینی اور پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے برعکس ہندوستان کی مقبوضہ وادی میں بے چینی اور مظاہرے اس بات کے غماز ہیں کہ کشمیری اکثریت ہندوستانی تسلط کو نا پسند کرتی ہے۔ جس کو دبانے کے لئے ہندوستان کی پر تشدد انسانیت سوز کاروائیاں جاری ہیں۔ابھی چند روز قبل ہی اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں 160 افراد کو قتل اور 1253 افراد کو پیلٹ گن کے ذریعے بینائی سے محروم کردیا گیا۔ اس رپورٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں ایک بین الاقوامی کمیشن آف انکوائری قائم کرنے کی تجویز دی گئی تاکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کی جا سکے۔اسی طرح نیو یارک ٹائمز نے سرینگر سے جاری رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں شہریوں کو گرفتارکرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں الگ زون قائم کر کے آبادی کے تناسب کو تبدیل کر نے کی بھارتی کوشش اقوامِ متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دہلی سرکار کو ان حرکتوں سے باز رہنا چاہیے۔ اسے بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک سو پچیس کروڑ انسانوں پر حکومت کرنے والا بھارتی حکمران گروہ ہر معاملے میں دوہرے معیار اپنائے ہوئے ہے۔ ہندوستان کا یہ غیر انسانی رویہ صرف یہاں تک ہی محدود نہیں بلکہ مقبوضہ ریاست میں کشمیری پنڈتوں کے لئے علیحدہ بستیاں تعمیر کرنے کیلئے جگہ کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ اتنا سنگین معاملہ ہے جس کے خلاف کشمیری عوام کے تمام طبقات کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا اور تمام حریت پسند قائدین بشمول ” میرا واعظ عمر فاروق ” ، ” یاسین ملک ” ،” حزب المجاہدین کے سربراہ ” سید صلاح الدین ”اور دیگر کی جانب سے دہلی سرکار کو وارننگ دی گئی کہ کشمیری عوام د ہلی سرکار کو کسی صورت اس امر کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری برہمنوں کے لئے الگ بستیاں تعمیر کریں اور یوں دھیرے دھیرے اسرائیلی ماڈل پر ہی آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیریوں کو اپنے ہی وطن میں آہستہ آہستہ اقلیت میں تبدیل کر کے رکھ دے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر شہریوں کے گھروں کو تباہ کر کے انہیں کشمیر چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے۔ وادی کے کئی علاقوں میں رہائشی مکان مسمار اور پھل دار درخت کاٹ دیے گئے۔
بھارتی سرکار کا کہنا ہے کہ 1989 میں تحریک آزادی میں شدت آنے کے بعد سے چند ہزار کشمیری پنڈت بھارتی سرکار کے ایما پر مقبوضہ ریاست سے چلے گئے تھے اور ” بی جے پی ” نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کر رکھا تھا کہ حکومت میں آنے کی صورت میں ان کو واپس لا کر آباد کیا جائے گا۔اس ضمن میں قا بلِ توجہ امر یہ ہے کہ مقبو ضہ کشمیر کے کسی بھی ر ہنما نے یہ نہیں کہا کہ کشمیر ی پنڈ تو ں کو و ا پس نہیں آ نے د یا جا ئے گا بلکہ سب نے دعوت دی ہے کہ یہ لوگ واپس آ کر اپنے اپنے گھروں میں رہیں مگر چونکہ دہلی کے حکمرانوں کا ا س سلسلے میں ا پنا ا یجنڈ ہ ہے اس لئے وہ اسرائیلی طرز پر الگ سے برہمن بستیاں آباد کرنے کے خواہش مند ہیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں حکومت نے کشمیری پنڈتوں کی آبادکاری کے لئے ایک سو ایکڑ زمین مختص کر دی ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے۔ فوج کے ریٹائرڈ افسروں کو مقبوضہ کشمیر میں زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں اور کشمیری پنڈتوں کے لیے علیحدہ ٹاؤنز قائم کیے جا رہے ہیں، مسلم اکثریتی علاقوں کو اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومتی اقدامات کے باعث جموں میں ہندو آبادی کسی حد تک اکثریت میں آچکی ہے۔لداخ میں بودھ مت کو اکثریت میں دکھایا گیا ہے۔ وادی کشمیر جس میں سری نگر، بارہ مولہ اور دیگر اضلاع شامل ہیں، یہاں مسلم اکثریت ہے۔لیکن1947 سے اب تک آبادی کے تناسب کو دیکھا جائے تو یہاں مسلم آبادی کا تناسب بتدریج کم ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کوخصوصی حیثیت کے دور میں بھی مودی سرکار چور دروازے سے یہاں غیر کشمیریوں کی آبادی بڑھا تی رہی ہے۔
٭٭٭