... loading ...
جلال نورزئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حالیہ چند دنوں میں بلوچستان کے اندر فورسز پر متعدد حملے رپورٹ ہوچکے ہیں۔ پاک افغان سرحدی شہر چمن میں 21فروری کو گشت کرنے والے پولیس اہلکاروں پر حملہ ہوا۔ حملہ آور جوابی فائرنگ سے ہلا ک کردیا گیا۔ اسی روز ضلع مستونگ میں لیویز فورس کی چوکی پر حملہ ہوا دو لیویز اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ حملہ آوراہلکاروں کا اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔ 23فروری کو چمن میں روغانی روڈ پر فائرنگ کے واقعہ میں دو ایف سی اہلکار جاں بحق ہوگئے۔25فروری کوخضدار میں ایس ایس پی خضدار فہد خان کھوسوکے اسکواڈ کے قریب بم دھماکا ہوا ، نتیجے میں ڈرائیور اور اسکواڈ میں شامل دو اہلکار جاں بحق ہوگئے۔ اسی روز تربت میں فورسز پر دستی بم حملہ کیاگیا ۔26فروری کو بارکھان کے علاقے رکھنی کے بازار میں موٹر سائیکل بم دھماکے میں چھ افراد جاں بحق اور دس سے زائد زخمی ہوئے۔ ضلع میں طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو پنجاب منتقل کیاگیا۔27فروری کو ہرنائی کے علاقے خوست میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے چار مزدوروں کا بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ بارہ کوئلہ کانوں اور اس کی مشنری کو بھی جلادیا گیا۔ اسی روز کوہلو کے علاقے جنت علی میں لیویز کی گاڑی پر بم حملے میں دو اہلکار جاں بحق اور رسالدار سمیت تین زخمی ہوئے۔27فروری کو ہی چمن میں لیویز چیک پوسٹ پر فائرنگ سے ایک اہلکار زخمی ہوا۔18فروری کو کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹائون میں ماہل بلوچ نام کی خاتون گرفتار کرلی گئی۔ محکمہ انسداد ہشت گردی ( سی ٹی ڈی ) کا دعویٰ ہے کہ خاتون خودکش حملہ کرنے جارہی تھی۔کہ خودکش جیکٹ برآمد کی گئی۔ اس گرفتاری کی حقیقت خواہ کچھ بھی ہو۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ یہ سب خراب امن اور حالات کی حساسیت کے اشارے ہیں۔
اس صورتحال سے ریاست اس کے ادارے اور حکومتیں معاملہ ضرور کر تی ہیں ۔ طاقت استعمال کرتی ہے۔ تاہم ساتھ بنیادی وجوجات اور محرکات کا کھوج لگا کر اس کے حل اور ازالے کی طرف جانا چاہیے ۔ آئینی حقوق کا احترام اور اس پر عملدرآمد یقینی بنا یا جائے۔ انصاف کا بول ہر صورت بالا رکھا جا ئے۔ ایک لمحہ کے لئے بھی غفلت اور جانبداری نہیں برتی جا نی چاہیے ۔ ایسی حکومت اور سرکاری مشنری درپیش حالات و واقعات سے کیا نمٹ پائے گی کہ جس کے آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے بے بس و بے کس شہری با اثر لوگوں کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہوں۔ ایک طرف تخریب کاری اور دہشت گرد حملے ہورہے ہیں ۔ اور وہاںحکومت، پولیس، لیویز ، جاسوسی کے اداروں اور محکمہ داخلہ کی غفلت اور چشم پوشی کی وجہ سے بارکھان کے اندر ایک غریب لڑکی اور دو نوجوان بڑی سنگدلی اور شقاوت کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیے گے۔ یہ سانحہ اچانک پیش آتا تو بات سمجھ میں آجانے والی تھی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ لمبے عرصے سے ضلع کو ہلو کا ایک باشندہ خان محمد مری اسلام آباد میں بیٹھ کرسرکار اور اقتدار نشینوں سے اپنے خاندان کے افراد کی بازیابی کی التجا ئیں کرتا رہا۔ اس کی اہلیہ گراں ناز کی قرآن مقدس اٹھا کر دہائی اور فریاد کرتی ویڈیو وائرل ہوئی۔ سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس سے پہلے جنوری میں ہی یہ نکتہ اٹھایا تھا۔مگر ریاست اور حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے جملہ اداروں کے کان میں جوں تک نہ رینگی۔ اور نتیجتاً بیس فروری کو بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ کے مقام سے کنویں سے عورت اور دو جوانوں کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان میں دو لاشیں خان محمد مری کے دو نوجوان بیٹوں محمد نواز اور عبدالقادر کی تھیں ۔ اول خاتون ان کی پچاس سالہ اہلیہ گراں ناز تصور کی گئی۔ مگر کوئٹہ کے سول ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ 17،18سال کی لڑکی کی لاش ہے جسے سر میں تین گولیاں مار کر قتل کیاگیا تھا۔ چہرے پر تیزاب چھڑک کر شناخت مٹائی گئی تھی۔وحشت کی انتہاکہ لڑکی سے جنسی زیادتی بھی کی گئی تھی۔ نوجوانوں کو بھی سر میں گولیاں مار ی گئی تھیں۔ موت سے پہلے ان پر تشدد بھی رپورٹ ہوا ہے۔ لاشیں مری قبائل نے تحویل میں لے کر کوئٹہ پہنچادیں اور وزیراعلیٰ ہائوس کے قریب یعنی ریڈ زون پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دے دیا۔ متاثرہ خاندان صوبائی وزیر مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ پیش ازیں خان محمد مری یہی کہتا رہا کہ ان کی اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور چھ بیٹے سردار کھیتران کی نجی جیل میں بند ہیں۔ چناں چہ بعد از خرابی بسیار ریاست جاگ گئی، پولیس، محکمہ داخلہ ، وزارت داخلہ بیدار ہوگئی ۔ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو البتہ سوتے رہیں۔ یہاں تک کہ آئی جی پولیس وغیرہ سے ملاقات ان کے پرنسپل سیکریٹری کرتے۔ پھر سردار کھیتران کے گھروں پر چھاپوں کے ڈرامے رچائے گئے۔23فروری کی رات کو کوہلو، بارکھان اور دکی وغیرہ میں محمد خان مری کے اہلخانہ کی بازیابی کے لیے چھاپوں اور کارراوئیوں کے ڈرامے کیے گئے۔ حالاں کہ جب معاملہ نازک موڑ پر گیا تو یہ عورتیں اور بچے سرکار کی تحویل میں دے دیے گئے تھے۔ جے آئی ٹی بنانے کا اعلان ہوا ۔ انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی اور یوں سردار عبدالرحمان کھیتران جو اس عرصہ واقعی اپنی کوئٹہ کی رہائش گاہ موجود رہے تھے خود ڈی آئی جی آفس گئے ۔یہ 22فروری کی بات ہے جہاں وہ گرفتار کرکے کرائم برانچ منتقل کر دیے گئے۔ چوں کہ یہ کیس کرائم برانچ کو سپرد کردیا گیا تھا۔ 23فروری کو جوڈیشل مجسٹریٹ 12ثمینہ نسرین کی عدالت میں پیش کیے گئے۔ عدالت نے دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔ کوہلو میں خان محمد مری کی اہلیہ اور بچے لیویز ہیڈ کوارٹر میں رکھے گئے تھے۔ انہیں بارکھان میں عدالت میں پیش کیا جاتا تھا مگر مری قبائل کے افراد نے بارکھان جانے نہ دیا۔ یوں ان بازیاب افراد کو بڑے جلوس کی شکل میں براستہ سبی کوئٹہ پہنچایاگیا۔کوئٹہ میں انہیںپولیس کی حفاظتی تحویل میں رکھا گیا۔خان محمد مری کی بیٹی کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان کے دوبیٹوں نے بھی عدالت میں بیان دیا کہ انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ۔ تاہم پولیس سرجن نے طبی معائنہ میں بیٹوں کے ساتھ زیادتی کی تصدیق نہیں کی ۔ خان محمد کی اہلیہ نے بھی بتایا کہ انہیں بھی جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا رہا۔
خان محمد مری کے دو بیٹے پیوند خاک ہوگئے۔ خاندان کے باقی افراد محفوظ کر لیے گئے ۔مگر سوال یہ ہے کہ اٹھارہ سالہ مقتولہ کے لیے دھرنا کون دے گا؟ اس کے خون ناحق کا مقدمہ کون درج کرائے گا اور کس پر درج کرائے گا؟ اس لڑکی کی لاش لاوارث قرار دے کر آبائی علاقے سے سینکڑوں میل دور کوئٹہ میں ایدھی قبرستان میں سپردخاک کی گئی۔ ایک رشتہ دار لاش لینے آئے تھے مگر اسے قانونی الجھنوں میں ڈال دیا گیا۔خان محمد مری کے اہلخانہ کے مطابق یہ لڑکی ان کے ساتھ قید میں تھی اور یتیم تھی۔ اس کیس میں اول بارکھان پولیس حکام، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر پر ہاتھ ڈالا جانا چاہیے تھا کہ یہ حکام سیاسی بالادستی کو فوقیت دیتے ہوئے فرض منصبی کو پائوں تلے روندتے رہیں۔ دوئم صوبے کی حکومت ،چیف سیکریٹری بلوچستان عبدالعزیز عقیلی ،انسپکٹر جنرل پولیس عبدا لخالق شیخ سنگین غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں، کہ متاثرہ خاندانوں کی التجائیں اور فریادیں سننے اور دیکھنے کے باوجود انہوں نے اپنے منصب کو عزیز رکھا اور تین بے گناہ ، بے کس شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے دیا۔ محض ڈی پی او بارکھان نور محمد بڑیچ کے تبادلے اور معطلی سے بری الذمہ نہیں ہوا جاسکتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے زیادہ گلہ اس لیے نہیں کہ موصوف ضعف کے شکار ہیں۔ان کی11فروری کی پریس کانفرنس اور 16 فروری کو بلوچستان اسمبلی میں خطاب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ذہنی کیفیت اور سطح کس نہج پرہے۔ اب ایسی حکومت، پولیس، سول انتظامیہ اور ادارے جانتے بوجھتے غریب اور بے بس خاندان کو امان نہ دے سکے تو یہ درپیش دہشت گردی سے کیسے نمٹیں گے۔ خلاصہ کلام یہ کہ عدالت عالیہ بلوچستان، چیف سیکریٹری، وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس، بارکھان کی پولیس حکام اور انتظامیہ کا محاسبہ کرے کہ دراصل اس انسانی المیہ کے لیے یہی قصور وار ہیں۔
٭٭٭