وجود

... loading ...

وجود

الاحسان اور بارکھان

پیر 27 فروری 2023 الاحسان اور بارکھان

روہیل اکبر

__________

لاہور میں الاحسان ویلفیئر ٹرسٹ نے آنکھوں کے حوالے سے انمول کام کیا ہوا ہے جہاں غریب ،نادار اور کمزور افراد کا مفت آپریشن ہوتا ہے اور انہیں آنکھوں کی بیماریوں سے نجات دلائی جاتی ہے ۔گزشتہ روز لاہور کے مقامی ہوٹل میں اس پراجیکٹ کے روح رواں جناب ثناء اللہ خان کاکڑ نے ایک چیرٹی ڈنر کا اہتمام کیا تو بہت سے مخیر حضرات نے دل کھول کر اس نیک کام میںانکی مدد کی۔ پاکستان میںایسی شخصیات ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں جو اپنا پیسہ اور وقت غریب لوگوں کی خدمت میں لاتے ہوں اگر دیکھا جائے تو انسانی جسم اللہ تعالی کی قدرت اور کاریگری کا بہترین شاہکار ہے۔ اربوں خلیوں پر مشتمل یہ جسم اپنے پیچیدہ نظام کے ساتھ معاملات کی انجام دہی کرتا یہ جسم مشین کی مانند ہے اور جب تک درست حالت میں ہو چلتی رہتی ہے ۔جونہی کسی پرزے میں کوئی نقص یا خرابی پیدا ہوئی تو مشین اپنا کام چھوڑ دیتی ہے اور پھر خرابی دور کرنے تک مشین بے کار رہتی ہے۔
انسانی جسم اور ہمارے معاشرے کی بھی یہی صورتحال ہے۔ انسانی جسم میں سب سے اہم عضو آنکھ ہے جس سے ہم معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہیں ظلم کو ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر برداشت بھی کرتے ہیں۔ خاص کر غریب اور کمزور لوگوں پر ہونے والے مظالم کو تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ بارکھان میں صوبائی وزیر اور سردار عبدالرحمن کھیتران نے غریب کے خاندان کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے بہت زیادہ ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ اس طرح کے واقعات سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ،یہ تو سوشل میڈیا کا کمال ہے کہ بلوچستان کے حکمرانوں نے مجبوری کے طور پر اپنے سردار بھائی کے خلاف ایکشن لے لیا ورنہ تو سیاسی طور پر اندھے لوگوں کا یہ ظلم بھی کسی کھاتے میں نہ آتا اور پورا خاندان موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔ ان سرداروں کی نجی جیلوں میں ایسا ہونا معمول کی واردات ہے ۔ اسی لیے تو ان سرداروں کے خوف اور ظلم سے وہاں کے مقامی لوگ ڈرتے ہیں اور انکی غلامی میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی بلوچستان میں سیاسی سردار کے ہاتھوں اغوا ،زنا اور پھر قتل کی واردات ہو گئی اور ہمارا قانون منہ دیکھتا رہ گیا ۔ اگر سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ نہ آتا تو شاید ان سرداروں کے کالے کرتوت ہمارے سامنے نہ آتے۔ 21 فروری 2023 کو بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے گولیوں سے چھلنی ایک کمسن لڑکی کی لاش کے پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ معصوم لڑکی کو جنسی زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس کے سر میں تین گولیاں مار کر قتل کردیا اور پھر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسکی شناخت چھپانے کے لیے
چہرے اور گردن پر تیزاب پھینک دیا۔ اسی کنویں سے اس لڑکی کے دو جوان بھائیوں کی لاشیں بھی گولیوں سے چھلنی برآمد ہوئی، یہ ظلم نہیں بلکہ ظلم کی انتہا ہے۔ ایسے واقعات ان سرداروں کا معمول ہیں۔ پولیس ان کی غلام ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہر سرکاری محکموں میں یہ اپنے خاص کارندوں کو بھرتی کرواتے ہیں۔ خاص کر محکمہ پولیس میں ان کے علاقوں میں انکے ذاتی نوکر قسم کے لوگ ہوتے ہیںجو تنخواہ تو سرکار سے لیتے ہیں اور نوکری ان سرداروں کی کرتے ہیں۔ مقتول کے رشتہ دار وں کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی لڑکی اور اس کے دونوں بھائی مبینہ طور پر صوبائی وزیر کی نجی جیل میں قید تھے اور ابھی بھی اسکی نجی جیل میں مزید 5 افرادقیدہیں سیکیورٹی اداروں کی جانب سے حال ہی میں بازیاب کروائی گئی خان محمد مری کی بیوی گراں ناز کی کے مطابق وہ 8 سال سے عبدالرحمان کھیتران کی قید میں تھی اور قید کے دوران اس پر تشدد کیا گیا ۔ کوہلو میں آپریشن کے بعد بازیاب کرائی گئی خان محمد مری کی 17 سالہ بیٹی سے بھی جنسی زیادتی کی تصدیق کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ کا کہنا ہے کہ لڑکی کے پائوں پر سیگریٹ سے جلنے کے نشانات بھی ہیں۔
کوہلو میں خاتون سمیت 3 افراد کی لاشیں ملنے کے بعد پولیس آپریشن میں ایک شہری خان محمد مری کی اہلیہ، بیٹی اور 4 بیٹوں کو مبینہ طور پر صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل سے بازیاب کرایا گیا تھا۔ سردار کی قید سے برآمد ہونے والے خان محمد مری کے 2 بیٹوں نے بھی جنسی زیادتی کی شکایت کی ہے متاثرہ بچوں کے والد خان محمد مری کی مدعیت میں 18 جنوری 2023 کو مقتولین سمیت خاندان کے دیگر افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا گیا تھاجس میں کوہلو بارکھان سے رکن صوبائی اسمبلی، بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)کے ترجمان اور صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کو نامزد کیا گیا مگرمقامی پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی اگر پولیس فورا کارروائی کرتی تو تینوں مقتولین کی جان بچائی جاسکتی تھی مگر ایسا نہ ہو ا۔ مقدمہ کے مدعی خان محمد مری کے مطابق 2019 میں سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے بیٹے سردار انعام کھیتران کے درمیان تنازع میں گواہی نہ دینے پر اس کی بیوی اور جواں سالہ بیٹی سمیت 7 بچوں کو سردار نے نجی جیل میں قید کرلیا تھا اور تب سے لیکر اب تک ان سرداروں نے ظلم کی انتہا کررکھی تھی۔ بات آنکھوں سے شروع ہوئی تو کہاں تک جا پہنچی ۔
میں بات کررہا تھا ثناء اللہ کاکڑ کے الاحسان کی جو واقعی پاکستانیوں پر ایک احسان ہے جہاں جدید مشینری کے ذریعے آنکھوں کا آپریشن کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں اس وقت آنکھوں کے تقریباً 20 لاکھ مریض ہیں اور بروقت مداخلت سے آنکھوں سے متعلق ہر قسم کی بیماریوں سے 80 فیصد بچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں 2.2 بلین لوگ بصارت کی کمزوری یا نابینا پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جبکہ پاکستان میں اندھے پن کا زیادہ تر تعلق آبادی میں اضافے اور مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں تاخیر سے ہے اگر کوئی بچہ سر درد اور آنکھوں میں پانی آنے کی شکایت کرتا ہے تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے کہ اس کی بینائی خراب ہورہی ہے ۔ 8 اکتوبر 1993 کو الاحسان ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے قائم ہونے والی اس چھوٹی سی تنظیم نے آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ابھی اس کو پاکستان کے دوسرے علاقوں میں بھی جانے کی ضرورت ہے، خاص کر بلوچستان کے بارکھان میں جہاں سرداروں کے وحشیانہ ظلم پر لوگوں کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر