... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔
حکومت کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہونے سے پی ٹی آئی نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف سیاسی افراتفری کی وجہ سے ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سیاسی جمہوری اور پارلیمانی اداروں کی شرمناک ناکامی کے بعد انتخابات کے معاملہ کو بھی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کے ساتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
سیاست دانوں کے لاحاصل جھگڑے ، فساد نے عملاً سیاست اور جمہوری اقدار کو انتہائی کمزور کردیا ہے۔ اسمبلیوں کے قبل از وقت تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات آئینی پابندی ہے۔ انتخابات کی تاریخ دینا راکٹ سائنس نہیں ۔یہ گورنرز، نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن بدنیتی اور دال کو کالا کرنے کا رجحان ہو توپھر ایسے تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ہم عملًا اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور خارجہ محاذ پر ڈیفالٹ ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی سیاسی عیاشیاں ختم نہیں ہو رہیں۔ مہنگائی نے عوام بدحال کررکھا ہے اور سیاست دان اپنی سیاسی عیاشی اور ہٹ دھرمی انتقامی مزاج پر نازاں ہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ قومی اتفاقِ رائے اور قومی ترجیحات کا راستہ اختیار کیا جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر سیاسی تذبذب، بے یقینی، معاشی بحران، آئین و انتخابات سے کِھلواڑ، سطحی پوائنٹ ا سکورنگ سے عوام اور زیادہ پریشان جبکہ ملک مزید بحرانوں سے دوچار ہوگا۔ اس لیے قومی قیادت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اگر پانی سروں کے اوپر سے گزر گیا تو سیاست، جمہوریت، انتخابات، پارلیمانی عمل سب کچھ ڈوب جائے گااور پھر کسی کی کوئی شنوائی نہیں ہوگی۔ لوگ قانون ہاتھ میں لے لیں گے تو اداروں کی ساکھ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گی۔ اس وقت ہر سیاسی جماعت اپنی مرضی کا قانون اور فیصلے چاہتی ہے۔
عوام معاشی بدحالی کی وجہ سے انتہائی متاثر ہو چکے ہیں، آئی ایم ایف کے کہنے پر بھاری ٹیکس بجلی اور گیس پر ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کچلے جارہے ہیں۔ حکمران اتحاد مہنگائی ختم کرنے کا ایجنڈا لے کر آئی تھی لیکن دس ماہ کی حکومت نے کئی سال کے ریکارڈ توڑ دیے ، زرمبادلہ کے ذخائر، اسٹاک ایکسچینج اور کاروبار بری طرح پسپا ہو چکا ہے جس کے بعد ملک میں آسمان کو چھوتی مہنگائی، بے روزگاری، گرتی ہوئی سرمایہ کاری، وسیع ہوتا ہوا تجارتی اور مالیاتی خسارہ، غیر یقینی طور پر کم غیر ملکی ذخائر، قرضوں کا زیادہ جمع اور بیرونی عدم توازن بڑھ رہا ہے ۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 10 فروری 2023 تک زرمبادلہ کے ذخائر 3.1بلین ڈالر کی خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 60 کھرب روپے سے زائد ہو چکے ہیں اور مالی سال 2021-22 کے اختتام تک ہر شہری پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک 21 فیصد اضافے سے 216,708 روپے تک پہنچ گیا ہے اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے ۔ ان حالات میں حکومت کی معاشی بہتری پہلی ترجیح ہونی چاہئے، مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ صرف ذات، سیاسی بقا اور موروثیت ترجیح ہے ، جہاں دیکھیں وہیں بے رحم وڈیروں اور کرپٹ سرمایہ داروں کی پارٹیاں نظر آتی ہیں۔ یہ مختصر اور مخصوص قسم کے لوگ 23 کروڑ عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں۔ ان ہی پارٹیوں میں شامل لوگوں کی نجی جیلیں ہیں۔ چار ہزار ارب کے اثاثوں کے مالکان ان18 طاقتور افراد کو کوئی نہیں پوچھتاجبکہ170ارب کے ٹیکسز عوام کے سروں پر لاد دیے گئے۔ ان حالات میں عمران خان نے جیل بھرو تحریک کا اعلان کررکھا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں متعدد بار حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے جیل بھرو تحریک چلائی گئی ۔ پاکستان میں پہلی بار سیاسی جماعتوں نے 1981 میں جمہوریت کی بحالی اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کی مذمت کے لیے ”موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (MRD)” قائم کرکے اس وقت کے صدر ضیاء الحق کے خلاف جیل بھرو تحریک چلائی جس میں وکلائ، سیاسی کارکنوں سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی جنہیں بعد میں گرفتار کر لیا گیا۔ ایم آر ڈی نے دوسری بار 1986 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے ساتھ مل کر تحریک چلائی تاہم یہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ دوسری بارمتحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے ) کے صدر قاضی حسین احمد نے شوکت عزیز کی حکومت کو اس کی دھمکی دی کہ اگر ایم ایم اے کے 28 نومبر 2004 کے احتجاج میں رکاوٹ ڈالی گئی تو وہ جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیں گے۔ تاہم ایم ایم اے اس منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکی اور پھر اس کے بعد جب پی پی پی، اے این پی، جے آئی اور دیگر جماعتوں کا اتحاد پرویز مشرف کی طرف سے لگائی گئی ایمرجنسی، مرحومہ بے نظیر بھٹو کی نظر بندی اور ججوں کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف سڑکوں پر نکلے تو پولیس نے انہیں گرفتار کر لیا جس کا جواب پیپلز پارٹی نے جیل بھرو تحریک کے ذریعے دیا۔ اس کے بعد 2018 میں چوتھی بار جیل بھرو تحریک کی آواز سنی گئی جب تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے امیر اشرف جلالی نے اس وقت کے وزیر داخلہ کے استعفے کے مطالبے پرجیل بھرو تحریک کا اعلان کیا اور ابھی حال ہی میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے مطالبے پر موجودہ حکومت کی جانب سے غیر تسلی بخش ردعمل کے خلاف 22 فروری 2023 کو لاہور سے تحریک چلانے کا اعلان کیاتھا۔ جس کے بعد پارٹی قائدین سمیت کارکنوں نے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے لاہور سے گرفتار ہونے والوں کو پنجاب کی دور دراز کی جیلوں،لیہ،میانوالی،ڈیرہ غازی خان لاہور اور اٹک میں رکھا گیا ہے۔ پچھلی جیل بھرو تحریکوں کو اگر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام تحریکیں حکومت کی توجہ حاصل کرنے اور اپنے مطالبات کو پورا کرنے میں ناکام رہیں، دیکھتے ہیں اس بار تحریک کہاں تک جاتی ہے ؟
٭٭٭