وجود

... loading ...

وجود

کشمیری خواتین پرظلم و تشدد اور عالمی برادری کی خاموشی!

جمعه 24 فروری 2023 کشمیری خواتین پرظلم و تشدد اور عالمی برادری کی خاموشی!

 

کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ کشمیری خواتین بزدل بھارتی افواج کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ سانحہ کنن پوش پورہ بھارتی حکام کی طرف سے کشمیری خواتین کو جدوجہد آزادی سے دور رکھنے کے لیے ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران 11ہزار245 خواتین کی بے حرمتی کی ہے کیونکہ وہ جنسی ہراسانی اور خواتین کی بے حرمتی کو جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی فورسز کی جارحیت کے نتیجے میں 1989سے آج تک 22 ہزار923 خواتین بیوہ ہوچکی ہیں۔ 23 فروری 1991 کی رات کنن اور پوشپورہ علاقوں میں تقریباً 100 خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ثبوتوں کے باوجود ایک بھی بھارتی فوجی کو عصمت دری پر سزانہیں دی گئی ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کرنے والے بھارتی فورسز اہلکار انسانیت پر بدنما دھبہ ہیں اور عالمی برادری کو جنسی تشدد کو روکنے کے لئے آگے آنا چاہیے۔
کشمیرکی مائیں اب بھی 1991 میں کشمیری خواتین سے ہونے والے اجتماعی زیادتی کے واقعات کا سوچتی ہیں تو خوف سے کانپ جاتی ہیں۔ کشمیر کی نوجوان لڑکیوں کو بھی ان دیکھی آفت کا سوچ کر ہول اٹھتے ہیں جو یہ سنتے سنتے بڑی ہوئی ہیں کہ آزادی کشمیر کی اگر جنگ ہوئی تو جانیں جائیں گی اور اموات کی گنتی ہو جائے گی مگر کتنی کشمیری عورتوں کی عزتیں پامال ہوں گی، قابض فوج کے ہاتھوں کتنوں کے جسم نوچے جائیں گے، ان دردوں کا شمار ممکن نہ ہوگا۔ اس وقت دنیا میں خواتین کے حقوق کے لیے بڑے پیمانے پر آواز بلند کی جارہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں خواتین بھارتی ریاستی دہشت گردی کا انتہائی شکار ہیں۔ قابض بھارتی فورسز کشمیری خواتین کی آبروریزی کے ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ آبروریزی کے واقعات کے مجرم بھارتی فوجی آزادانہ گھوم رہے ہیں۔کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی مجموعی صحت پر پڑا ہے۔ جس کی وجہ سے کشمیری عورتوں میں اولاد پیدا کرنیکی صلاحیت میں کمی ہوئی ہے اور انہیں پیچیدہ نسوانی امراض لاحق ہونے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ہزاروں مظلوم و بے بس کشمیری خواتین و نوجوان لڑکیاں انہیں شدید حالات سے دوچار ہیں۔
بھارتی قابض فوجیوں نے کشمیریوں کو آزادی کی جنگ سے روکنے کیلئے ایسے بھیانک مظالم ڈھائے ہیں کہ ان کے انسان ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ بھارتی فوجی رات کے سناٹے میں کسی بھی ایسے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں جہاں انہیں علم ہو کہ کوئی جوان مرد نہیں ہے۔ دروازہ کھلتے ہی گھر میںموجود بوڑھے مرد کو تحریک آزادی میں حصہ لینے کا الزام لگا کر چند سپاہی گھسیٹتے ہوئے باہر لے جاتے ہیں اور باقی لوگ گھر کی عورتوں کے ساتھ جنسی وحشت و بربریت کا وہ خوفناک کھیلتے ہیں کہ اسے لفظوں میںبیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ اکثر عورتیں اس عمل کا نشانہ بننے کے بعد اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ لیتی ہیں۔
بیشتر کشمیری عورتیں اپنے بچوں کی ہلاکت کی وجہ سے ذہنی مریض بن گئی تاہم علاج معالجہ ملنے کی وجہ سے اب ان کی حالت بہتر ہے۔ ان 30 سالوں میں جو نوجوان پیدا ہوئے ان کے دماغ مفلوج ہو چکے ہیں اور یہ کہ ان پر نفسیاتی دباؤ بھی بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔ 60 فیصد سے زائد کشمیر کی آبادی نفسیاتی مریض بن گئی ہے۔کیونکہ نوجوانوں کو اپنا مستقبل غیر واضح دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی درندہ صفت افواج کے ظلم و ستم سے 50 فیصد بالغ آبادی کے ساتھ ساتھ 40 فیصد نوعمر اور بچے کسی نہ کسی طور پر اپنی زندگی کو خطرے میں محسوس کرتے ہیں جن کے سبب ان کے ذہنی تناؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی فوج کی بربریت و درندگی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے اسی وجہ سے دس لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی ذہنی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر میں عورتوں کی عصمت دری بنا خوف و خطر کی جاتی ہے۔ بھارتی حکومت کے جبر، انتقامی کاروائی اور معاشرے میں بدنامی کے خوف کی وجہ سے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہو پاتےـ مزید برآں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نافذ کردہ سیاہ قوانین قابض افواج کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور اس سے کشمیریوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ ہوا ہے –بیوہ خواتین اپنے مقتول شوہروں کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں کیونکہ آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں ان کیلئے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے روزگار کمانا ناممکن بن گیا ہے – ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق یتیموں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کشمیر میں یہ حالات حادثاتی نہیں بلکہ انہیں فوجی مقاصد یعنی سیاسی دہشت گردی ، آزادی کی آواز دبانے اور سٹیٹس کو کے خلاف مزاحمت کچلنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
بھارتی فوج اور پولیس غیر کشمیری بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر جمہوری طریقے سے حکمرانی کر رہے ہیں جبکہ مقبوضہ علاقے کے عوام کو حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھانے پر دبایا جا رہا ہے۔جبکہ سابق وزیر اعلی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب کوبگاڑنے کیلئے غیر کشمیری ہندوئوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد کیاجارہا ہے اور انہیں ووٹر لسٹوں میں بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔ انہوں نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت سے سوال کیا ہے کہ اگر کشمیر کا تنازع ختم ہوچکا ہے تو پھر ہزاروں کشمیری غیر قانونی طورپر بھارت کی جیلوں میں کیوں قید ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے مقبوضہ کشمیر میں پراپرٹی ٹیکس کے نفاذ کوعوام دشمن اقدام اور سنگین ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیری عوام پراپرٹی ٹیکس کابوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں اور ان فیصلوں سے صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایک ٹویٹ میں عمر عبداللہ نے قابض بھارتی انتظامیہ سے سوال کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے عوام مجوزہ پراپرٹی ٹیکس سمیت دیگر تمام ٹیکس کیوں ادا کریں؟
٭٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر