... loading ...
فاشسٹ نریندرا مودی کی شدت پسند سوچ نے بھارتی معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ کے فروغ کے باعث ہندوتوا کے پیروکاروں نے اپنے ملک کے بانی مہاتما گاندھی کے قاتل تک کو ہیرو بنا ڈالا ہے۔ گاندھی کے قاتل گوڈسے کی قتل و غارت پر مبنی سوچ بھارتی معاشرے میں پروان چڑھنے لگی ہے۔حال ہی میں مدھیا پردیش کے علاقے اتارسی میں مہاسبھا کے زیر اہتمام ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں شرکاء نے مہاتما گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈسے کی حمایت میں نعرے لگائے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہندو مہاسبھا کے جنرل سکریٹری دیویندر پانڈے کا کہنا تھا کہ نتھورام گوڈسے قوم کے لیے ایک مثال ہے۔ ایسے واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے ملک کے بانی سے نفرت کرتی ہے اور اس کے قاتل کی پوجا کرتی ہے اور بھارت میں مودی راج نے خود ہی بھارت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
فسطائی نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ملک میں اقلیتوں پر آر ایس ایس کے نظریے کو مسلط کر رہی ہے اور اس کی امتیازی پالیسیوں نے بھارتی اقلیتوں کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے۔ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں ہندوتوا کے بڑھتے ہوئے بیانئے نے خطرناک رخ اختیار کر لیا ہے جبکہ ملک میں اقلیتوں کو تشددکا نشانہ بنانا اور ہراساں کرنا روز کا معمول ہے۔بھارت سیکولر ریاست کی بجائے ہندو ریاست بنتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں پر تعلیم اور روزگار کے مواقع بند ہو چکے ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام میں انتہا پسندوں کے ساتھ حکومت کا بھی ہاتھ ہے۔گجرات میںمسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی تو ہندو انتہا پسندوں کے پس پشت گجرات حکومت تھی۔ بھارتی قانون میں ایسی شقیں ڈال دی گئی ہیں کہ کوئی اچھوت عیسائی یا مسلمان نہیں ہو سکتا۔ہندو آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے غیر مذاہب سے متعصب چلا آرہا ہے خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ تو اس کا تعصب عروج پرہے۔ہندوستان کے سیاستدانوں نے وہاں کے مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور مسلمانوں کو ہمیشہ نقصان پہنچایا۔ چنانچہ پہلے کانگریس نے سیکولر ازم کا نعرہ لگایا اور مسلمانوں کی ترقی کی قسمیں کھائیں۔ کبھی پنڈت نہرو پروہاں کے مسلمانوں کوفدا کیا گیا اور کبھی اندرا گاندھی کے ہاتھوں پر وہاں کے مسلمانوں کو بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا۔
انجہانی پنڈت نہرو کے دور میں زمینداری ختم ہوئی۔ مسلمانوں کے قبضے سے ان کی زمین جائیدادجاتی رہی اور کل کا مسلمان زمیندار ہندوستان کی آزادی کے بعد وہاں کوڑیوں کا محتاج ہوگیا۔ اس کی جو بھی پونجی بچی تھی وہ وکلاء کی نذر ہو گئی لیکن انہیں بھارتی عدالتوں سے انصاف نہ ملا۔ مسلمانوں کی جائیداد کبھی کسٹوڈین کے قبضے میں گئی تو کبھی وکیل کے معاوضے کے نام پر رہن رکھی گئی۔ ایک طرف مسلمانوں کی اراضی اور جائیداد جاتی رہی تو دوسری طرف نئے زمیندار پیدا کیے گئے اور مسلمانوں کے علاوہ دوسری قومیں دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں ایکڑ اراضی پر کاشت کاری کرنے لگیں۔ایک متعصب ہندو پروین تو گاڈیہ نے کہا کہ مسلمان کو غدار کے طور پر پیش کرو۔ اس کا خون طلب کرو۔ اس کے حصول کے ذریعے کے طورپر چالبازی کو تقدیسی عطا کرو۔ مسلمانوں کو خوفزدہ کرو۔ ان کو تشدد پر اکساؤ اور مناسب موقع پر نسل کشی کا آغاز کر دو۔ بھارت کی سرزمین اور سیاست پراب ہمارا قبضہ ہے۔ یہ خالص گنگا اور جمنا کی سر زمین ہے ۔
تعلیمی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ شہروںمیں54.6 فیصد اور گاؤں 60.2 فیصد مسلمانوں نے اسکول کا کبھی منہ تک نہیں دیکھا۔ دیہی علاقوں میں صرف 0.3 فیصد مسلمان گریجویٹ ہیں جبکہ شہروںمیں 40 فیصد جدید تعلیم حاصل کرنے والوں میں گریجویٹ مسلمانوں کی تعداد 3.1 فیصد اور پوسٹ گریجویٹ کی تعداد1.3 فیصد ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ 25 کروڑ مسلمان اگر بھارت میں رہناچاہتے ہیںتو انہیں ”وندے ماترم”کا گیت گانا ہوگا ورنہ وہ اپنا بوریا بستر یہاں سے گول کریں اور بھارت چھوڑ دیں۔ حکمرانوں کی اس دھمکی سے بھارتی سیکولر ازم کا پردہ چاک ہوگیا ہے۔ ہندو پیدا ہی مکارانہ ذہنیت کے ساتھ ہوتا ہے۔بھارت میں مسلمانوں پر روز بروز ظلم و ستم بڑھتا جا رہا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ خود کو زیادہ غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مودی بھارت کو صرف ہندوؤں کا ملک بنانا چاہتے ہیں اور وہ بھی انتہا پسند ہندوؤ ں کا۔اس کے لیے وہ اپنے ہندو قوم پرست نظریے پر جارحانہ طریقے سے عمل پیرا ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی ملک بدری کے واقعات ، بابری مسجد کا فیصلہ اور اب متنازع بھارتی قانون ان خدشات کو تقویت دے رہا ہے کہ وزیراعظم مودی سیکولر اور اجتماعیت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو قوم بنانا چاہتے ہیں ۔
مودی کے دور میں بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا بھارتی اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارت میں مسلمانوں اور سکھوں سمیت اقلیتوں کو ہندوتوا کے حملوں سے بچانے کے لیے آگے آنا چاہیے اور عالمی برادری کو بھارت میں اقلیتوں کی حالت زار کا نوٹس لینا چاہیے۔
٭٭٭