... loading ...
اندلس کے نامورمسلم اسکالر ، صوفی ، شاعر ، اور فلسفی ، انتہائی بااثر اسلامی فکر کے حامل شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں کہ جن پر تصوف نازکرتی ہے۔ آپ دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق اور علوم ا لبحر ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ کو شیخ اکبر کے نام سے یادکیا جاتا ہے یہ لقب اور اعزاز پوری اسلامی تاریخ میں کسی اور شخصیت کے لیے مخصوص نہیں کیا گیا اور تمام مشائخ آپ کے اس مقام کے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلام میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔ ان کا قول تھا کہ باطنی نور، خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما ء نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس سلسلے میں ابن ِ تیمیہ ان کے سخت ناقد ہیں لیکن حضرت مجدد الف ثانی ان کی عظمت کے قائل ہیں ۔ اسی لیے بیشتر صوفیا انھیں شیخ الاکبر کہتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد850 کے قریب ہے۔ جن میں فصوص الحکم اور الفتوحات المکیہ ( 14000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المکیہ 560 ابواب پر مشتمل ہے اور کتب تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔
شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی نے انسانی مملکت کو ایک بادشاہت سے تشبیہ دی ہے جس طرح ایک مملکت میں بادشاہ ، وزیر، مشیر، محافظ، قاضی، سپاہ سالار، فوج اور رعایا ناگزیر ہے ویسے ہی اس جسم انسانی میں بھی یہ سب موجود ہیں۔ انسان اپنی زندگی کے مراحل ویسے ہی طے کرتا ہے جیسے کوئی پودا طے کرتا ہے، یہ جوان ہوتا ہے پھر اس سے بیج لیا جاتا ہے ، کئی پودوں کی نسل چلتی ہے جبکہ کچھ کی رک جاتی ہے، پھر یہ پودا بوڑھا ہو کر ختم ہو جاتا ہے انسان کی مثال ایسی ہی ہے شیخ اکبر کے نزدیک اس انسان کا بھائی اور دوسرا پودا یہ کائنات ہے۔ کائنات کے بڑھنے کی مثال انسان میں ناخن اور بال ہیں، کائنات میں چار عناصر ہیں انسان کی تخلیق بھی انہی عناصر سے ہوئی ہے۔ کائنات میں درندے اور وحشی جانور ہیں انسان میں بھی قہر غضب کمینگی اور حسد ہے۔ جیسے کائنات میں نیک روحیں اور فرشتے ہیں ویسے ہی انسان میں اعمال صالحہ ہیں۔ زمین میں موجود پہاڑوں کی مثال انسان میں ہڈیاں ہیں۔ زمین میں بہتے دریاوں کی مثال اس کی رگوں میں گردش خون ہے۔ جیسے کائنات میں سورج ایک روشن چراغ ہے، ویسے ہی جسم میں روح ایک روشنی ہے؛ جب یہ جسم سے جدا ہوتی ہے تو جسم اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ کائنات میں چاند ہے، انسان میں اس کی مثال قوت عقل ہے ، جیسے چاند سورج سے روشنی اخذ کرتا ہے، ویسے ہی عقل روح سے نور اخذکرتی ہے، جیسے چاند گھٹتا اور بڑھتا ہے ، ویسے ہی عقل عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے اور پھر بڑھاپے میں کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ عالم علوی میں موجود عرش کی مثال جسم انسانی میں دل ہے ۔
صوفی ثقافت میں پہلے سے عام خیال کو لے کر ، ابن عربی نے ایک کامل انسان کے تصور پر گہرے تجزیے اور عکاسی کا اطلاق کیا اور اس مقصد کی تکمیل میں کسی کی جستجو کی۔ کامل ہستی کی وضاحت کے لیے ابن عربی نے پہلے آئینے کے استعارے کے ذریعے وحدانیت کے مسئلے پر بحث کی۔ اس فلسفیانہ استعارے میں ، ابن عربی نے کسی چیز کا موازنہ بے شمار آئینوں میں خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق سے کیا ہے۔ خدا کا جوہر وجود انسان میں دیکھا جاتا ہے ، جیسا کہ خدا ایک شے ہے اور انسان آئینہ ہے۔ دو چیزوں کے معنی؛ کہ چونکہ انسان محض خدا کے عکس ہیں ، دونوں کے درمیان کوئی فرق یا جدائی نہیں ہو سکتی اور خدا کے بغیر مخلوق کا وجود نہیں ہو گا۔ جب ایک فرد سمجھتا ہے کہ انسان اور خدا کے درمیان کوئی جدائی نہیں ہے تو وہ حتمی وحدانیت کے راستے پر شروع ہوتا ہے۔ جو شخص اس وحدانیت پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ حقیقی حقیقت کی پیروی کرتا ہے اور خدا کے جانے کی خواہش کا جواب دیتا ہے۔ اس وحدت کی حقیقت کے اندر تلاش انسان کو خدا کے ساتھ دوبارہ ملنے کا سبب بنتی ہے ، نیز خود شعور کو بہتر بناتی ہے۔ کامل انسان ، اس ترقی یافتہ خود شعور اور خود شناسی کے ذریعے ، الہی خود ظہور کا اشارہ کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے کامل انسان خدائی اور زمینی دونوں طرح کا ہوتا ہے۔ ابن عربی تشبیا اسے ایک بلاتا سزا . آسمان اور زمین کے درمیان استمس ہونے کے ناطے ، کامل انسان خدا کی جاننے کی خواہش پوری کرتا ہے۔ خدا کی موجودگی دوسروں کے ذریعے اس کے ذریعے محسوس کی جا سکتی ہے۔ ابن عربی نے اظہار کیا کہ خود ظہور کے ذریعے کوئی الہی علم حاصل کرتا ہے ، جسے اس نے محمد کی اولین روح اور اس کے تمام کمالات کہا۔ ابن عربی نے تفصیل بتائی کہ کامل انسان کائنات الہی کے لیے ہے اور الہی روح کو کائنات تک پہنچاتا ہے۔ ابن عربی نے لوگو پر غور کرتے وقت کم از کم بائیس مختلف تفصیل اور مختلف پہلوؤں کا استعمال کرتے ہوئے کامل انسان کے تصور کی مزید وضاحت کی۔ اس نے لوگو ، یا “یونیورسل مین” پر غور کیا ، انفرادی انسان اور الہٰی جوہر کے درمیان ثالثی کے طور پراتفاق کیا۔
ابن عربی کا خیال تھا کہ محمد ۖبنیادی کامل انسان ہیں جو خدا کے اخلاق کی مثال دیتے ہیں۔ ابن عربی نے وجود میں آنے والی پہلی ہستی کو محمد ۖ قراردیاہے۔ جو اہل ِ سنت سوادِاعظم کا عقیدہ ہے کہ کائنات میں ہر چیز سے پہلے اللہ تبارک تعالیٰ نے نبی آخرالزماں ۖ کا نور ایک تارے میں ظہور پزیرکیا۔ اللہ جو تمام مخلوقات کا مالک ہے اور محمد ۖ انسانوں کے لئے ایک بنیادی رول ماڈل ہیں۔ ابن عربی کا خیال تھا کہ خدا کی صفات اور نام اس دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں ، ان خدائی صفات اور ناموں کی مکمل اور کامل نمائش کے ساتھ جو محمدۖ میں نظر آتے ہیں۔ ابن عربی کا خیال تھا کہ کوئی خدا کو حضرت محمد ۖ کے آئینے میں دیکھ سکتا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت محمدۖ خدا کا بہترین ثبوت ہیں اور حضرت محمد ۖ کو جاننے سے خدا کو بخوبی جانا جاسکتاہے۔
ابن عربی اگرچہ کٹر سنی تھے ، حالانکہ بارہ اماموں پر ان کی تحریریں بھی شیعہ میں مقبول تھیں۔ وفات کے بعد ابن عربی کی تعلیمات پوری اسلامی دنیا میں تیزی سے پھیل گئیں۔ ان کی تحریریں صرف مسلم اشرافیہ تک محدود نہیں تھیں ، بلکہ صوفی احکامات کی وسیع پیمانے پر رسائی کے ذریعے معاشرے کے دوسرے درجوں میں ان کا راستہ بنا۔ ابن ِ عربی کا کام بھی فارسی ، ترکی اور اردو میں کاموں کے ذریعے مقبول ہوا۔ بہت سے مشہور شاعروں کو صوفی احکامات کی تربیت دی گئی اور وہ عربی تصورات سے متاثر تھے۔ ان کی کتابوںمیں پوری دنیا کی زبانوں میں تراجم ہوئے جن سے ایک دنیا مستفید ہوئی۔
ابن عربی نے ایک سے زیادہ مواقع پر خود اقرار کیاہے کہ انہوں نے اسلامی فقہ کے کسی ایک اسکول کی بھی آنکھ بند کرکے پیروی نہیں کی، وہ ظاہری یا لٹریلسٹ اسکول کی کتابوں کو کاپی کرنے اور محفوظ کرنے کے ذمہ دار تھے ، جس پر شدید بحث ہے کہ ابن عربی اس سکول کی پیروی کی۔ اگناز گولڈ زہر نے کہا کہ ابن عربی نے درحقیقت اسلامی فقہ کے ظاہری یا حنبلی مکتب سے تعلق رکھا۔ حمزہ ڈجون کا دعویٰ ہے کہ اداس ، چوڈکی ویزک ، گرل ، ونکل اور الغورب نے غلطی سے ابن عربی کو غیر مذہبیت سے منسوب کیا۔ ابن حزم کے ایک موجودہ نسخے پر ابن عربی نے نقل کیا ہے ، ابن عربی اس کام کا تعارف پیش کرتا ہے جہاں وہ اپنے ایک خواب کو بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں”میں نے اپنے آپ کو سیول کے قریب شراف گاؤں میں دیکھا، وہاں میں نے ایک میدان دیکھا جس پر بلندی بلند ہوئی۔ اس بلندی پر نبی stood کھڑے ہوئے ، اور ایک آدمی جسے میں نہیں جانتا تھا ، اس کے قریب آیا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو اس قدر پرتشدد طریقے سے گلے لگایا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور ایک شخص بن جاتے ہیں۔ بڑی چمک نے انہیں لوگوں کی نظروں سے چھپایا۔ ‘میں جاننا چاہوں گا ،’ میں نے سوچا ، ‘یہ عجیب آدمی کون ہے؟’ پھر میں نے کسی کو یہ کہتے سنا: یہ روایت پسند علی ابن حزم ہے۔ میں نے پہلے کبھی ابن حزم کا نام نہیں سنا تھا۔ میرے ایک شیخ ، جس سے میں نے سوال کیا ، نے مجھے بتایا کہ یہ شخص حدیث کی سائنس کے میدان میں ایک اتھارٹی ہے۔ حضرت محی الدین ابن ِعربی غیر معمولی صلاحیتیں اور خوبیاں رکھتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم اور کیفیت ظاہری و باطنی کے حامل تھے۔ شیخ کے طرز تحریر سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں غلط فہمیاں ہیں۔ بعض نادان یورپ زدہ ابن عربی کے فلسفے یا حکمت کو افلاطون کا فلسفہ سمجھتے ہیں مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام کتب جنید البغدادی، بایزید بسطامی، سہیل ،تشتری اور بزرگان اسلام کے اقوال، آیات قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالوں کے ساتھ لکھی گئی ہیں۔ ابن عربی کی کتب میں مغربی فلسفہ کا کہیں ذکرنہیں ہے۔
حضرت ابن عربی تاریخ اسلام میں ایک ایسے منفرد مصنف ہیں جن کی مخالفت اور موافقت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں سے حصہ لیا اور آج بھی ان کی تصنیفات معرض بحث ہیں۔ شیخ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اور نہ ہی کسی سے مناظرہ کیا ہے بلکہ خاموشی اور متانت سے لوگوں کی باتوں کو سنا اور اپنا علمی کام جاری رکھا۔ ہی ابن عربی نے دمشق میں 22 ربیع الثانی 638ھ مطابق 1240ء کو وفات پائی۔ آپ کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبل قاسیون کے پہلو محلہ صالحیہ میں ہے۔ اس جگہ کو اب محلہ ابن عربی بھی کہا جاتا ہے۔آپ نے علم کی اخلاقی و عملی جہات پر زور دیا ابنِ عربی کے لیے علم لامحدود وسعت کا مالک ہے۔ آپ کے خیال میں کوئی انسان علم کی آخری منزل تک نہیں پہنچ سکتا اور بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہےـابن عربی کا قول ہے کہ انسان علم کا حصول بنیادی طور پر دو طریقوں سے کرتا ہے۔ ایک اپنے وجدان سے اور دوسرا حواسِ خمسہ یا غوروفکر سے۔ بلاشبہ ابنِ عربی اسلامی فکر کا عظیم سرمایہ ہیں،اْن کی علمی وراثت کی حفاظت اور تصنیفی قدروقیمت کا تعین کرنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
٭٭٭