... loading ...
دنیا کے کسی بھی ملک میں دہشت گردی کا کوئی چھوٹا سا واقعہ بھی رونما ہوجائے یا پھر غیر معمولی احتجاجی تحریک کی وجہ سے کسی ملک میں اَمن ِ عامہ کی صورت حال سنگین رُخ اختیار کرلے تو امریکا کی جانب سے متاثرہ ملک میں قیام پزیر اپنے شہریوں کے لیے فوری طور ایک ہدایت نامہ جاری ہوجاتاہے کہ ”امریکی شہری جتنا جلد ممکن ہوسکے، متاثرہ ملک کی سرزمین کو چھوڑدیں ”۔یہ خبر سیاسی انارکی یا دہشت گردی کے شکار ممالک کے عوام اپنے ذرائع ابلاغ پر اتنی بار تواتر کے ساتھ سُن اور پڑھ چکے ہیں کہ اَب تو اُنہیں امریکا کی احتیاط پسندی یا معروف معنی میں جسے بعض لوگ بزدلی سے بھی تعبیر کرتے ہیں پر کوئی خاص حیرت و استعجاب بھی نہیں ہوتا ۔ کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ یہاں اُن کے ملک میں امن عامہ کی صورت حال، بس ذرا سی بگڑنے کی دیر ہی ہے کہ فوری طور پر وہاں واشنگٹن سے امریکی شہریوں کو سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کا ایک لمبا چوڑا ہدایت نامہ جاری ہوجائے گا ۔ ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ وہ امریکا جو اپنے شہریوں کی زندگیوں کو ذرا سے خطرے کی زَد پر بھی نہیں آنے دیتا ۔اُسی امریکا کا صدر اچانک شدید جنگ زدہ علاقہ میں پہنچ جائے تو اگر امریکی صدر کے اِس جرات مندانہ اقدام پر ساری دنیا حیران ہے تو یقینا حیرانگی تو بنتی ہی ہے۔
جی ہاں ! رواں ہفتے امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے دورہ پولینڈ کے دوران اچانک یوکرین کے شہر کیف میں اپنے ہم منصب یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی سے ملاقات کے لیے پہنچ کر صرف امریکیوں ہی کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو شدید حیران و ششدر کردیا ہے۔ امریکی صدرجو بائیڈن کے خفیہ دورہ کیف کی خبر بعض لوگوں کے لیے تو اتنی غیر متوقع اور حیران کن تھی کہ اُنہوں نے اس کی بریکنگ نیوز کو عالمی ذرائع پر براہ راست دیکھنے کے بعد بھی خبر کی صحت پر یقین نہیں کیا اور سوشل میڈیا پر کئی صارفین کیف میں امریکی صدر جوبائیڈن کی موجودگی کو جدید ٹیکنالوجی کی ہیراپھیری اور کمال قرار دیتے رہے ۔مگر جب تھوڑی دیر بعد اِس خبر کی امریکی وزارت خارجہ نے باقاعدہ تصدیق کردی کہ امریکی صدر جوبائیڈن واقعی نہ صرف جنگ زدہ یوکرینی شہر کیف میں موجود ہیں بلکہ یوکرینی صدر زیلنسکی سے ایک طویل ملاقات کے بعد براہ راست پریس کانفرنس بھی کرنے جارہے ہیں ۔ تب کہیں جاکر دنیا کو یقین آیا اور احساس ہو اکہ واقعی امریکی صدر نے ایک جنگ زدہ علاقے کا دورہ کرکے کتنی بڑی بہادری اور جرات مندی کا ثبوت دیاہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں مختلف امریکی صدور کے جنگ زدہ ممالک عراق اور افغانستان کے سرکاری دوروں سے اِس لیے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ جنگ زدہ ممالک میں امریکی افواج جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ میدان جنگ میں ہمہ وقت ہر طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے موجود ہوتی تھی۔لیکن یوکرین کی زمینی صورت حال عراق اور افغانستان سے یکسر مختلف ہے کیونکہ یہاں امریکی افواج کی موجودگی تو کجا،یوکرینی فوج بھی اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے موجود نہیں ہے۔ جبکہ یوکرین اور روس کے درمیان ابھی تک عارضی جنگ بندی کا کوئی معاہدہ بھی طے نہیں پاسکا کہ جس کی بنیاد پر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کیف شہر، روسی افواج کے فضائی حملوں سے عارضی طور پر ہی سہی محفوظ ہے ۔اِس لیے دورہ کیف امریکی صدر جوبائیڈن کے لیے ممکنہ طور پر کسی بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتاتھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق جس وقت یوکرینی شہر کیف میں جوبائیڈن اور زیلنسکی کے درمیان ملاقات جاری تھی ۔عین اُس وقت اچانک فضائی حملے سے خبردار کرنے والے الارم بھی بجنا شروع ہوگئے تھے۔ بہرحال تمام تر خطرات اور تحفظات کے باوجود امریکی صدر جوبائیڈن تقریباً 5 گھنٹے کیف میں زیلنسکی کے ساتھ موجود رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے یوکرینی شہر کیف میں دن کا بیشتر حصہ گزار کر ہی اپنے آپ کو شدید خطرات سے دوچار نہیں کیا بلکہ کیف تک خفیہ طور پر پہنچنے کے لیے امریکی صدر نے جو راستہ اور ذرائع آمدورفت استعمال کیے وہ بھی بہت خطرناک، کٹھن ، صبر آزما اور تھکا دینے والے تھے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر یوکرین کے لیے واشنگٹن سے صبح 4 بجے روانہ ہوئے جس کے بعد انہوں نے پولینڈ سے 10 گھنٹے ٹرین میں بھی سفر کیا اور اِس خفیہ دورے کے لیے امریکی صدر کے لیے مختص دنیا کے محفوظ ترین لگژری جہاز کے بجائے ایک چھوٹے سے جہاز کا استعمال کیا گیا تھا اور اِس جہاز کو بھی دورہ کی حقیقی جگہ سے کافی دور کھڑا کرکے اِسے لوگوں کی نگاہوں میں آنے سے چھپا دیا گیا تھا۔نیز امریکی صدر کے ساتھ بہت ہی چھوٹی میڈیکل ٹیم، سیکیورٹی اور اسٹاف کا دیگر عملہ تھا۔جبکہ امریکی صدر کے ساتھ صرف 2 صحافیوں کو سفر کرنے کی اجازت دورہ یوکرین کا راز افشاء نہ کرنے کا حلف اُٹھانے کے بعد دی گئی تھی اور اِن صحافیوں سے موبائل فونز سمیت ہر شے لے لی گئی تھی۔علاوہ ازیں ان صحافیوں کو اس خفیہ دورے کی خبر اپنے نیوز چینل کو بھیجنے کی اس وقت تک اجازت نہیں تھی جب تک امریکی صدر بائیڈن بحفاظت کیف نہیں پہنچ جاتے ۔ واضح رہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن جس خفیہ انداز اور انتہائی راز داری کے ساتھ یوکرینی شہر کیف میں زیلنسکی سے ملاقات کے لیے پہنچے ۔اِ س پر بالکل ہالی وڈ کی کسی بلاک بسٹر جاسوسی فلم کا گمان ہوتا ہے اور اسکرپٹ کے مطابق جوبائیڈن نے اپنا کردار بالکل ویسے ہی نبھایا جیسے جیمز بانڈ اپنی فلموں میں نبھانے کے لیے مشہور رہے۔
بعض حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آخر امریکی صدر جوبائیڈن نے خطرناک ”مشن کیف ” مکمل کرکے حاصل کیا ،کیاہے؟ہماری دانست میں واشنگٹن نے اپنے صدر کے ناممکن دورہ کیف کو ممکن بنا کر کئی اہداف حاصل کیے ہیں ۔ پہلا ہدف ماسکو کی اعلیٰ قیادت بالخصوص روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو یہ باور کروانا ہے کہ امریکا روس یوکرین جنگ میں یوکرین کی مدد کرنے کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے اور وہ ہر آخری حد تک جاسکتاہے۔نیز یورپی اقوام جو آہستہ آہستہ یوکرین کی پشت پناہی سے پیچھے ہٹتی جارہی تھیں ۔امریکی صدر کے مذکورہ خفیہ دورہ سے انہیں بھی واضح پیغام مل گیا ہوگا کہ یوکرینی عوام کے ساتھ یک جہتی کے لیے خالی خولی لفظی حمایت کے علاوہ بھی بے شمار نئی اورعملی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔ دوسرا سب سے اہم ترین ہدف جو بائیڈن نے امریکی عوام کی غیر معمولی توجہ کا مرکز بن کر حاصل کیا ہے۔ کیونکہ امریکی صدر کے حالیہ دورہ کیف سے امریکا بھر میں یہ تاثر مستحکم ہوا ہے کہ اُن کی قیادت نڈر اور بہادر ہے اوروہ غیرمعمولی حالات میں اپنی زندگی کو بھی خطرات میں ڈالنے سے دریغ نہیں کرتی ۔ غالب امکان ہے کہ دورہ کیف کے مثبت تاثر کا سیاسی فائدہ اگلے انتخابات میں ڈیموکریٹ کو ضرور حاصل ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭