وجود

... loading ...

وجود

ترکیہ کا زلزلہ: دہلی اور لاہور کے لیے سبق

جمعرات 23 فروری 2023 ترکیہ کا زلزلہ: دہلی اور لاہور کے لیے سبق

 

6 فروری کو ترکیہ کے جنوب مشرقی صوبوں اور شام میں آئے زلزلہ کے بعد تلاشی اور ریسکو کا کام اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے ، مگر ایک بڑی آبادی کی بازآبادکار ی اور انکی متبادل رہائش گاہ کا انتظام کرنا اور پھر نئے شہر اور ان کا انفراسٹرکچر کھڑا کرنا یقیناً ایک بہت بڑا چلینچ ثابت ہونے والا ہے ۔ عددی لحاظ سے ترکیہ امریکہ کے بعد دنیا بھر میں بیرون ملک انسانی امداد پر خرچ کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے ۔چاہے بنگلہ دیش اور میانمار میں روہنگیا ہوں، افغان یا شامی پناہ گزیں ہوں یا جنوبی امریکہ یا افریقی ممالک کے آفت زدگان ہوں 2021میں انقرہ نے بیرون ملک انسانی امداد بہم پہنچانے کیلئے 5.5بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ اس کا ایک ادارہ ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن ایجنسی (ٹیکا) تو اسی کام کیلئے مختص ہے ۔ اس کے علاوہ مذہبی امور کی وزارت اور لاتعداد غیر سرکاری تنظیمیں بھی امداد و زکوٰةاکٹھی کرکے ان کو دور دراز کے ممالک میں پہنچاتی ہیں۔ اگر ملک کی مجموعی قومی پیداوار کی نظروں سے دیکھا جائے ، تو اس کا 0.86 فیصد بیرون ملک انسانی امداد پر مختص کرکے ، ترکیہ امریکہ سے کافی آگے ہے ۔ اس کے قریب پھر صرف تیل کی دولت سے مالا مال متحدہ عرب امارات ہی ہے ، جو مجموعی قومی پیدوارا کا 0.21فی صد بیرون ملک انسانی ہمدردی اور امداد پر خرچ کرتا ہے ۔
اب ستم ظریفی یہ ہے کہ سخاوت دریا دلی اور خود داری کیلئے مشہور یہ ملک ،جس کے پاس عرب دنیا کی طرح تیل کے چشمے بھی نہیں ہے ، اس مصیبت کی گھڑی میں خودہی امداد کامستحق ہوگیا ہے ۔ ان آفت زدہ علاقوں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دور دور تک صرف ملبوں کے ڈھیر نظر آتے ہیںاور ان کے درمیان جزیروں کی طرح چند عمارتیں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق یہ حکومت کی طرف سے رعایتی نرخوں پر غریبوں کیلئے بنائے گئے مکانات ہیں، جو شدید زلزلوں کے جھٹکوں کو سہہ سکے ہیں۔ جبکہ اسکائی اسکریپرز، پر تعیش کثیر منزلہ عمارات ، ان میں سے کئی تو بس چند ماہ پہلے ہی مکمل ہو ئی تھیں، اور ان کو بیچنے کیلئے کئی شہروں میں ہورڈنگز لگی ہوئی تھیں، زمین بوس ہو چکے ہیں۔ آس پاس کی تباہی کو دیکھتے ہوئے ، اس قصبہ کے باسی بھی دہشت میں ہیں، اور ابھی تک گھروں کے بجائے سڑکوں اور پارکوں میں خیموں میں رہ رہے ہیں۔آفٹر شاک آنے کا سلسلہ جاری ہے اور اتوار تک چار ہزا ر ایسے شاک آچکے تھے ۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 19ہزار کثیر منزلہ عمارات زمین بوس ہو چکی ہیں اور مزید 30ہزار ناقابل رہائش ہو چکی ہیں۔ اس کے علاو ہ لاتعداد عمارتوں کو انتہائی مرمت کی ضرورت ہے ۔ چونکہ 1980سے ہی ترکیہ میں قانونی طور پر انفرادی مکانات یا بنگلے تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے ، اسلئے کم و بیش پوری آبادی کثیر منزلہ عمارات میں ہی رہتی ہے ۔ 1999میں ازمت اور استبول کے آس پاس آئے زلزلے ، جس میں 17ہزار کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے ، کے بعد بلڈنگ قوانین میں بڑی تبدیلیاں کی گئی تھیں اور یہ لازم کردیا گیا تھا کہ زلزلہ کو سہنے والی عمارات ہی بنائی جائیں۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جنوب مشرق کے ان صوبوں کی مقامی بلدیہ نے ان قوانین کا سختی سے ساتھ اطلاق نہیں کیا ہے ۔ مالاتیہ صوبہ میں ایک ایسی بلڈنگ گر گئی، جس کا پچھلے سال ہی افتتاح ہوا تھا۔ زلزلوں کے ماہر اور اسٹرکچر انجینئر مہدی زارا کے مطابق اکثر ہلاکتیں زلزلہ کے بجائے بلڈنگوں کے گرنے سے ہوئی ہیں اور اگر کوئی بلڈنگ شاک سے گر جاتی ہے ، تو یہ تسلیم کیا جانا چاہئے کہ اس کی تعمیر میں کوئی نقص تھا۔ ان کے مطابق جدید
ٹکنالوجی کے ذریعہ بلڈنگوں کو شاک پروف بنایا جاسکتا ہے اور یہ تکنیک عمارت بنانے کیلئے استعمال کرنا تو ترکیہ میں لازمی ہے ۔ اس کا بڑا ثبوت اسی علاقے میں غریب افراد کیلئے بنائی گئی عمارتیں ہیں، جو بالکل ایستادہ ہیں۔امریکی شہر کیلی فورنیا میں مقیم ایک جاپانی اسٹرکچر انجینئر کٹ میاموٹو ، جو ترکیہ آئے ہوئے ہیں، بتا رہے تھے کہ لگتا ہے کہ بلڈنگ قوانین یا کوڈ کو سختی سے ان علاقوں میں لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ ایک اور بلڈنگ انجینئر امتیاز سولومن کا کہنا ہے کہ ایک بہتر ڈیزائن والی عمارت اس سے بھی زیادہ شدت کے زلزے برداشت کر سکتی ہے ۔ کسی بھی بلڈنگ کو شاک پرو ف بنانے کیلئے اسکی بنیاد میں اسٹیل کی راڈیں ڈالی جاتی ہیں اور پھر ستونوں کے کالم بھی اسٹیل سے ہی کھڑے کئے جاتے ہیں۔ زلزلہ کے وقت لچک کی وجہ سے اسٹیل کالم جھٹکے کے بعد واپس اپنی پوزیشن میںآتے ہیں اور بلڈنگ محفوظ رہتی ہے ۔انقرہ میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں چونکہ بلدیاتی ادارے اپوزیشن گڈ پارٹی اور کرد ایچ ڈی پی کے پاس ہیں، انہوں نے مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اور رئیل اسٹیٹ بوم دکھانے کیلئے بلڈنگ بنانے کی شرائط اور ان پر عملدامد کروانے میں نرمی برتی ہے ۔ نائب صدر فواد اوکتہ کے مطابق ابھی تک 131 ٹھیکے داروں، انجینئرو ں اور معماروں کی نشاندہی کی گئی ہے ، جن کے خلاف کیس درج کیے جائیں گے ۔ وزارت انصاف نے تو باضابطہ تفتیش کیلئے ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے ۔ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں خاص طور پر گنجان آباد شہروں دہلی اور لاہور کے حکام کو اس زلزلہ سے سبق حاصل کرنا چاہئے ، کیونکہ ترکیہ کے شہروں کی طرح سرگودھا، لاہور اور دہلی کی پٹی زلزلہ کے لحاظ سے حساس زون میں شمار کی جاتی ہے ۔ اس لیے ان علاقوں میں بلڈنگ کوڈ کو وضع کرنے اور اسکا سختی کے ساتھ اطلاق کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترکیہ میں ہر گھر کا انشورنس کرنا لازمی ہوتا ہے ، اس کے بغیر بجلی، پانی اور گیس کا کنکشن مل ہی نہیں سکتا ہے۔ چونکہ سبھی گھر انشورنس کے زمرے میں آتے ہیں، اسی لئے بیمہ کی قسطیں جیب پر بھاری نہیں پڑتی
ہیں۔ ہر سال انشورنس کمپنیاں مکان مالکان سے 19.2بلین لیرا اکٹھے کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے عائد زلزلہ ٹیکس میں بھی 88بلین لیرا حکومت کے خزانے میں جمع ہیں۔ ہر سال بلدیہ کے ضابطہ محکمہ کے افراد اجدید آلات لیے بلڈنگوں کی چیکنگ کرتے رہتے ہیں۔ انقرہ میں جس علاقے میں ، میں رہائش رکھتا ہوں پچھلے ایک سال کے دوران پانچ بلڈنگوں کو غیر محفوظ قرار دے کر مسمار کردیا گیا ۔ ضابط محکمہ مکینوں کو نوٹس دیتا ہے اور پھر ان کو ایک سال تک متبادل رہائش اور سامان کے نقل و حمل کیلئے خرچہ دیکر مسمار شدہ جگہ پر نئی بلڈنگ بغیر کسی خرچہ کے تعمیر کراتا ہے ۔ اس کا خرچہ مکان مالک کے بجائے انشورنس کمپنی سے لیا جاتا ہے ۔ جنوبی ایشاء میں بلدیاتی اداروں کو اس طرح کے وسیع اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ دہلی شہر کا تو اور بھی بُرا حال ہے ۔ اس کے والی ہی اتنے ہیں، جتنے سر کے بال۔ صوبائی حکومت ، مرکزی حکومت اور پھر مونسپل کارپوریشن، اداروں کا ایک طرح سے جال ہے اور وہ ایک دوسرے سے ہی برسر پیکار رہتے ہیں۔
ترکیہ کا زلزلہ دہلی اور لاہور کے حکام کو بتاتا ہے کہ اگرا ب بھی نہ جاگے اور اقدامات نہ اٹھائے ، تو خدا نخواستہ وہ ایک بڑی تباہی کے شکار ہو سکتے ہیں۔ کم از کم عمارتوں کے انشورنس کو ہی لازمی قراد دیا جائے اور انشورنس کمپنیوں پر ذمہ داری عائد کی جائے کہ عمارتیں شاک پروف تعمیر ہوں اور بیس سال بعد ان عمارتوں کی مرمت انشورنس کے پیسے سے کرائی جائے ، کیونکہ مکان خریدنا ایک بڑی سرمایہ کاری ہوتی ہے او رعام مڈل کلاس شخص زندگی بھر کی کمائی اس میں لگا دیتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر