... loading ...
کسی زمیندار کی بھینس نے دودھ دینا بند کر دیا، زمیندار بڑا پریشان ہوا ،وہ بھینس کو لے کرڈنگر ڈاکٹر کے پاس گیا ،ڈاکٹر نے متواترکئی روزٹیکے لگائے لیکن کوئی فرق نہ پڑا، تھک ہار کر وہ بھینس کو اپنے پیر صاحب کے پاس لے گیا
پیر صاحب نے دھونی رمائی، دم کیا، پھونک ماری۔
لیکن وہ بھی بے سود رہی بھینس کو کوئی فرق نہ پڑا۔ پھرزمیندارکسی کے مشورہ پر بھینس کو کسی سیانے کے پاس لے کرچلا گیا، سیانے نے کئی دیسی ٹوٹکے آزمائے لیکن وہ بھی بیکار ثابت ہوئے تنگ آکرآخر کارزمیندار نے سوچا کہ شاید اس کا چارہ بڑھانے سے مسئلہ ٹھیک ہو جائے! خوب کھل بنولہ مکس کرکے کھلایا ،نمک چٹایا، وقت پرپانی پلانے کا انتظام کیا، زمیندار نے کسی چیز کی کسر نہ چھوڑی لیکن بھینس نے دودھ دینا شروع نہ کیا۔ وہ تنگ آگیا، روز روز کے علاج سے عاجز و لاچار ہوکر وہ اسے قصائی کے پاس لے کر جانے لگا کہ یہ اب کسی کام کی نہیں تو چلو بیچ دوں یا سودا نہ بنے تو ذبح کروا لوں،زمیندار بھینس لیے جارہاتھا کہ راستے میں اسے ایک درویش ملا، زمیندار کو دیکھتے ہی کہنے لگا، گلتاہے تم: پریشان ہو!
زمیندار نے اسے اپنی پریشانی بیان کی، درویش نے پوچھا تم کٹا کہاں باندھتے ہو؟ زمیندار بولا
بھینس کی کھْرلی کے پاس۔
درویش نے پھر پوچھا:
’’کٹے کی رسی کتنی لمبی ہے ؟
زمیندار بولا: کافی لمبی ہے! درویش مسکرایا اور پھربڑی متانت سے بولا
’’ سارا دودھ تو کٹا چْنگ جاتا ہے! تمھیں کیا ملے گا، خودسوچو بھینس دودھ کیسے دے گی، کٹے کو بھینس سے دور باندھو!
پرانے وقت کی یہ کہانی پڑھی تو پاکستان کا اصل مسئلہ سمجھ میں آگیا آپ بھی آنکھیں اور دل و دماغ کے دریچے کھول کر اس پر غورکریں۔ اس وقت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی 50 قائمہ کمیٹیاں ہیں! اور ہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ۔ ہر چیئرمین کا ذاتی دفتر ،اسٹاف،مراعات اور نہ جانے کیا کیا۔ فرض کریں ایک چیئرمین اورممبران پر پر دو دو کڑور روپے خرچ ہوتے ہیں۔ہر چیئرمین ایک لاکھ سترہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی لے رہاہے، اسے گریڈ 17 کا ایک سیکریٹری، گریڈ 15 کا ایک ا سٹینو، ایک نائب قاصد، 1500cc گاڑی 600 لیٹر پیٹرول ماہانہ، ایک رہائش گاہ، اس کے سارے اخراجات،یوٹیلٹی بلز وغیرہ بھی حکومت کے ذمہ ہیں، اس کے علاوہ اجلاسوں پر ہونے والے اخراجات، دوسرے شہروں میں آنے جانے کیلئے جہاز کی فری ٹکٹیں،گاڑیاں ایک اندازے کے مطابق یہ کمیٹیاں اب تک کھربوں روپوں کا دودھ ” چْنگ” چْکی ہیں! اگر ان کٹوں کی رسی کو کم نہ کیا گیا تو یہ اجلاس اسی طرح جاری رہیں گے۔ اور یہ کٹے ایسے ہی کھربوں روپوں کا دودھ “چْنگتے” ر ہیں گے! اب آتے ہیں ایک اور پہلو کی جانب یہ کھربوںکا تخمینہ قائمہ کمیٹیوں کا خرچ ہے ۔ ذرا وزیروں ومشیروںکی قطاراندرقطار فوج ،ان کے پروٹوکول ،سکیورٹی، دفاتر،اسٹاف ،رہائش گاہوں اور دیگر لوازمات کی طرف بھی توجہ مبذول کریں توآپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ پاکستان کے وسائل کس اندازسے کیسے ضائع کیے جارہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ اس قوم کا حال ہے جس کا بال بال قرضے میں جکڑاہواہے ۔ اس قوم کے حکمران سادگی اختیارکرنے کی بجائے اپنے کشکول میں ایٹم بم رکھ کر قرضے پرقرضے لیے جارہے ہیں اور ان کو کوئی خداکا خوف نہیں آرہاحالانکہ وہ یہ بھاشن بھی دیتے نہیں تھکتے کہ قرضے لینارسوائی کا موجب ہے ، قرض لینے والے کی کو ئی عزت نہیں کرتا، ایسے لوگوںکوغیرت اور ایمان کی قربانی دیناپڑتی ہے ۔ عام تاثر یہ ہے کہ بھاری شرح سودپر قرضے حکمران اپنی عیاشیوںکیلئے لیتے ر ہے ہیں۔ موجود ہ حکمران تمام تر دعوئوں کے باوجود وہی کچھ کررہے ہیں جس کے خلاف وہ تقاریر کرتے تھے حکمرانوں اور ان کے حواریوںکے وہی لچھن ہیں،وہی اللے تللے ۔ حالات بتاتے ہیں ان کا یہ اسٹائل تبدیل ہونے والا بھی نہیں ۔ یہ تبدیل ہونا بھی نہیں چاہتے، محض عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے تبدیلی تبدیلی کی گردان کرنا فیشن بن چکاہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا حال اور مستقبل ایک جیساہے ۔ اللہ تبارک تعالیٰ کو ہم پر رحم آجائے تو الگ بات ہے۔ ایک جیسا مزاج،ایک جیسا انداز اور ایک جیسے حکمران۔ محض باتیں کرنے سے عوام کے دل موہ لینا چاہتے ہیں۔ آ پ کوشش کرکے دیکھ لیں ، سادگی کی ایک مثال بھی ڈھونڈنے سے نہیںملے گی۔ اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا پیٹ پر پتھر باندھنے اور کفایت شعاری کے لیے اقوال زریں صرف عوام کے لیے ہیں؟
٭٭٭٭٭٭٭