وجود

... loading ...

وجود

ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین ہمارے منتظر ہیں

جمعرات 09 فروری 2023 ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین ہمارے منتظر ہیں

 

کرہ ارض پر آنے والے زلزلے کتنے ہول ناک ہوتے ہیں اور یہ اپنے پیچھے تباہی و بربادی کتنی دردناک داستانیں چھوڑجاتے ہیں ۔یہ بات دنیا میں ہم پاکستانیوں سے بہتر کون جانتاہوگا؟۔ کیونکہ 2005 میں خیبر پختونخواہ اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کی ہول ناکیاں ابھی تک اکثر پاکستانیوں کے ذہنوں میں کسی ڈراؤنے خواب کی طرح محفوظ ہیں ۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ 6 فروری کی علی الصبح 4 بج کر 17 منٹ ترکی کے جنوب اور شام کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں آنے والے حالیہ صدی کے قیامت خیز زلزلے نے ہر پاکستانی کے دل کو شدید اضطراب اور صدمہ میں مبتلا کردیاہے ۔یا درہے کہ ترکی اور شام صرف دو اسلامی مملکتیں ہی نہیں ہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کے ساتھ اُخوت ،محبت اور تعاون کے مضبوط رشتے میں بھی بندھے ہوئے، ہمارے انتہائی قریبی دوست ممالک بھی ہیں ۔ جیسا کہ عام طور پر کہا جاتاہے جو اپنے دوست کے جتنا قریب ہوتا ہے تو اُسے اپنے دوست کی تکلیف اور پریشانی پر صدمہ بھی اُسی شدت کے ساتھ جھیلنا پڑتاہے۔ لہٰذا، ترکی و شام میں زلزلہ متاثرین کی حالتِ زار پر من حیث القوم ہر پاکستانی کی آنکھیں اَشک بار ہیں ۔
ترکی و شام میں جب اکثر لوگ دنیا ومافیا سے بے خبر سکون کی نیند محو خرام تھے تو ریکٹر اسکیل پر 7.8 ریکارڈ کی گئی شدت کے زلزلے نے اُنہیں اچانک دبوچ لیا۔ ابتدائی اعدادوشمار کے مطابق 7000 افراد جاں بحق ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے۔ مگر ہزاروں لوگ تباہ ہونے والی 3ہزار سے زائد عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔نیز زلزلے کے بعد آنے والے شدید آفٹر شاکس کا سلسلہ بھی تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ جس سے ماہرین کو اندیشہ ہے کہ ایک اندا زے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد کم سے کم 8 سے 10 گنا تک بھی ہوسکتی ہے ۔جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ دراصل زلزلہ کے بعد انفراسٹرکچر کی تباہی تو پھر بھی کسی حدتک زمین کے اُوپر مشاہدہ کی جاسکتی ہے ،لیکن جانی نقصانات کا درست اندازہ اُس وقت نہیں بالکل بھی نہیں لگایا جاسکتا۔جب تک کہ تباہ و برباد عمارتوں کے بکھرے ہوئے ملبے کو علاقے سے مکمل طور پر صاف نہیں کرلیا جاتا ۔ بظاہر ترکی کی حکومت ،ترک رضاکاروں اور اہلکاروں کے علاوہ 65 ملکوں کی امدادی ٹیموں کے ساتھ مل کر ملنے کے نیچے دبے ہوئے ہزاروں لوگوں کو نکالنے وسیع پیماے پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ مگرحالیہ ایام میں ترکی میں پڑنے والی شدید سردی ، طوفانی بارش اور زلزلہ کے آفٹر شاکش کی وجہ سے امدادی کاموں میں شامل کارکنان اور رضاکاروں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج زلزلہ متاثر علاقوں میں بلا تعطل اور بغیر کسی انقطاع کے امدادی سرگرمیوںکو بحال رکھنا ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ زلزلے میں ترکی کے دس شہر بری طرح سے متاثر ہوئے ہیں اور 1939کے بعد یہ سب سے بڑی آفت ہے ،جس کا ترکی کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ ترکی کے کئی علاقوں کا تو صفحہ ہستی سے نام و نشان بھی مٹ گیا ہے۔ ترکی کے صدر طیب اردوان نے ملک ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرکے ایک ہفتے تک کے لیے سرکاری سوگ منانے کا اعلان کیا ہے جبکہ قومی پرچم کو بھی سرنگوں کردیاگیا ہے۔نیزپاکستان، امریکا، روس اور عرب امارات سمیت 45 ملکوں نے اب تک زلزلہ زدگان کے لیے ترکی اور شام کو امداد کی پیشکش کی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے ترک عوام کے ساتھ مشکل کے اِس گھڑی میں یکجہتی اور ہمدردی کے اظہار کے لیے ترک صدر سے ٹیلیفون پر بات کی۔علاوہ ازیں پاکستان کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی امدادی سامان پاکستان کے عوام کی جانب سے ترکی بھیج دی ہے اورپاکستانی فضائیہ کے سی-130 ہرکولیس نامی دو طیارے سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کے ارکان کے ہمراہ اَب تک ترکی میں زلزلہ متاثرین کے لیے پر بڑی تعداد میں کمبل ، ٹینٹ اور دیگر سامان ترکی پہنچ چکے ہیں ۔ جبکہ پاکستانی افواج کے کئی دستے پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں ۔
دوسری جانب شام میں زلزلہ کے بعد کی حالت ترکی سے بھی زیادہ خوف ناک ہے ۔کیونکہ بین الاقومی سیاسی چپقلس کے باعث بہت سے ممالک کی امدادی ٹیموں کو نہ تو شام سے زلزلہ متاثرین کے متعلق درست معلومات دستیاب ہوپارہی ہے اور نہیں اُنہیں شام میں امدادی سرگرمیوں کے لیئے داخلے کے لیئے محفوظ راستے مل پارہے ہیں ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق شام میں اس لحاظ سے تباہی کے اُوپر تباہی ہوئی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سے ہی اکثر شامی علاقے شدید وبائی امراض کی لپیٹ میں تھے اور ابھی شام میں لوگوں کی اکثریت وبائی امراض کے چنگل سے جان خلاصی حاصل نہ کرپائی تھی کہ رواں ہفتے ایک ہولناک زلزلہ کی اُفتاد اُن کے سروں پر آپڑی ۔ یعنی المیہ ملاحظہ ہوکہ زمین بوس ہونے والی عمارتوں کے ملبے میں دبے اکثر شامی لوگ شدید بیمار ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہاہے کہ اگر شام میں وسیع پیمانے پر امدادی کارروائیاں شروع نہیں کی جاتیں اور لوگ زیادہ عرصے تک زخمی حالت میں ملبے تلے دبے رہتے ہیں تو ان کے گردے ناکارہ ہونے کا خدشہ ہے۔ جبکہ شامی حکومت کے پاس اپنے طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے بھاری مشینری اور وسائل بھی سرے سے موجود نہیں ہیں ۔ علاوہ ازیں وہاں زلزلہ متاثرین کا پیٹ پھرنے کے لیے خوراک اور سخت موسم سے بچنے کے لیے عارضی رہائش کے لیے درکار سازو سامان کی بھی شدید قلت ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی بہت جلد سرکاری دورہ پر انقرہ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ترک صدر، طیب اردوان سے اظہار تعزیت کے علاوہ امدادی سرگرمیوں کے لیے پاکستان کے کردار کا تعین کرسکیں۔لیکن یہاں ہم وزیراعظم پاکستان سے یہ بھی گزارش کرنا چاہیں گے کہ وہ ترکی کے ساتھ ساتھ شام کا بھی سرکاری دورہ ضرور کریں ۔تاکہ دنیا بھر کو یہ پیغام جائے کہ مشکل کی اِس گھڑی میں دونوں برادر اسلامی ملک کی عوام ہمارے لیئے یکساں اہمیت اور حیثیت رکھتی ہے۔ خاص طو رپر جن مسائل کی وجہ سے ابھی تک شام میں بین الاقوامی امدادی اداروں کی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں ۔ وزیراعظم شہباز سریف اپنے ذاتی اثر و رسوخ اور برادرانہ سفارتی تعلقات کو بروئے کار لاکر اُن اسباب کا تدارک جلد ازجلد کرنے کے لیے شامی حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کریں ۔
بلاشبہ ریاستِ پاکستان خود اِس وقت ہر طرف سے مختلف النوع معاشی مسائل کے گرداب میں گھرا ہواہے اور ملک کے اکثر علاقے چند ماہ پہلے آنے والے سیلاب کے بعد ہول ناک تباہی کے مناظر پیش کررہے ہیں ۔ مگر جس طرح کی مصیبت اِس وقت ترکی اور شام کی عوام کو سامنا اگر اِسے ہم اپنی مصیبت سے زیادہ بڑی مصیبت اور پریشانی نہ بھی قرار دیں۔ تب بھی کم ازکم یہ تو ماننا ہی پڑے گا یہ تباہی و بربادی بھی اتنی ہول ناک تو ضرور ہے ۔جس کا سامنا گزشتہ برس ہمارے ملک کو کرنا پڑا تھا۔لہٰذا، جس طرح ترکی نے ہمارے مشکل وقت میں اپنا دوستانہ کردار بخوبی انداز میں نبھایا تھا ۔ اَب پاکستانی عوام کو بھی اپنی لاکھ مشکلات کے باوجود ترکی و شام کے زلزلہ متاثرین کی کچھ نہ کچھ امداد تو لازمی کرنا ہی چاہیئے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر