... loading ...
جب سے ایم کیو ایم کے مختلف ناراض دھڑے ایک ہوئے ہیں، تب سے ایم کیو ایم پاکستان کی سیاسی فیصلہ سازی کی صلاحیت میں نمایاں بہتری اور تیزرفتاری دیکھنے میں آرہی ہے ۔قطع نظر اس کے کہ گزشتہ چند ہفتوںمیں جو بھی سیاسی فیصلے پارٹی قیادت کی طرف سے کیئے گئے ہیں، وہ سیاسی لحاظ سے درست تھے یا غلط ۔ بہرحال ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بڑے فیصلے کیئے جارہے ہیں او رپے درپے کیئے جارہے ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق ایسا ہی ایک بڑا فیصلہ گورنر سندھ ،کی تبدیلی کے حوالے سے بھی ایم کیوایم پاکستان کی قیادت کے زیر غور ہے۔ بعض حلقوں کے نزدیک گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری کی تبدیلی کا فیصلہ اِس لیئے بھی ایک بڑا غیر متوقع فیصلہ ہے کہ بظاہر کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کے عہدہ سے ہٹانے کا کوئی جائز جواز یا وجہ موجود نہیں ہے ۔نیز اگر بادی النظر میں جائزہ لیا جائے تو کامران ٹیسوری نے ابھی تک گورنرشپ کی مختصر سی مدت میں سیاسی و انتظامی کارکردگی سے اپنے آپ کو پوری طرح سے گورنر سندھ کے عہدہ کا اہل ثابت کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر آج ایم کیو ایم کے تمام ناراض دھڑے ایم کیو ایم پاکستان کے سیاسی پرچم تلے شیر و شکر ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں تو اِس میں بھی گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری کی مخلصانہ کاوشوں کا بھرپور عمل دخل ہے۔
دوسری جانب کامران ٹیسوری ،ایم کیوا یم کی نامزد کردہ ،صوبہ سندھ کے شاید وہ واحد گورنر ہیں ،جن کے صرف سندھ حکومت کے ساتھ ہی مثالی تعلقات قائم نہیں ہیں ،بلکہ پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی بھی اُن کے ساتھ ایک بہت اچھی اور کارآمد ،ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہے۔ یاد رہے کسی بھی صوبہ کے گورنر کے صوبائی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہونا ، جمہوری نظام ہائے حکومت میں خامی نہیں بلکہ ایک بہترین خوبی تصور کی جاتی ہے۔یعنی وزیراعلیٰ اور گورنر کے مابین ہر لمحہ سیاسی تناؤ اور محاذ آرائی کی صورت حال قائم رہنے سے صوبائی حکومت کی انتظامی کارکردگی پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جس کا خمیازہ لامحالہ صوبے کی عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ماضی قریب میں ہم وزیراعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس میں پنپنے والی ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کے کئی منفی اثرات و عواقب بہت تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کر چکے ہیں ۔اگر سندھ کی سیاست میں یہ طے کیا جاچکا ہے کہ وزیراعلیٰ اور گورنر ، بہر صورت دوالگ الگ سیاسی جماعتوں سے ہی ہوں گے تو مذکورہ دونوں عہدوں پر ایسی سیاسی شخصیات کا ہونا ایک دمِ غنیمت ہے ،جن کے درمیان بہت اچھی سیاسی و انتظامی ورکنگ ریلشن شپ پائی جاتی ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ وزیراعلی سندھ ،سید مراد علی شاہ اور گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری جب مل جل کر کسی ترقیاتی منصوبہ کا افتتاح یا سنگِ بنیاد رکھتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے ۔جبکہ عوام میں یہ تاثر بھی جاتاہے صوبے کے حکمرانوں کی ساری توجہ سیاسی شعبدہ بازی کے بجائے حکومتی حسنِ انتظام کی جانب مبذول ہے۔
چلیں چند لمحات کے لیئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایم کیوایم پاکستان کی قیادت، ایم کیوایم رابطہ کمیٹی کی مشاورت و حمایت سے نیا گورنر سندھ لانے کا حتمی فیصلہ کرلیتی ہے اور موجودہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری بھی پارٹی پالیسی کا احترام کرتے ہوئے اِس فیصلہ کے آگے اپنا سرتسلیم خم کردیتے ہیں ۔اَب یہاں دو اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اوّل، گورنرسندھ کی تبدیلی کا عمل وقوع پذیر کیسے ہوگا؟۔دوم، ایم کیوایم پاکستان کی طرف سے نیاگورنر سندھ کسے نامزد کیا جائے گا؟۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ گورنر سندھ لگانے کا اختیار وزیراعظم پاکستان ،شہباز شریف کا ہے اورہم بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم یہ فیصلہ سابق صدر پاکستان ، آصف علی زرداری کی مرضی ومنشا سے ہٹ کر بالکل بھی نہیں کریں گے۔ لہٰذا،یہاں سب سے پہلے تو ایم کیو ایم پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو آصف علی زرداری کو رام کرنا ہوگا ۔ ہماری دانست میں یہ ایک مشکل کام ہوگا ،کیونکہ آصف علی زرداری نے بہر حال سندھ حکومت کے مفاد کو سب سے مقدم رکھنا ہے ۔جہاں تک ایم کیوا یم کے ساتھ دستخط کردہ چارٹر آف رائٹس کی اِس شق کی بات ہے کہ گورنر سندھ ایم کیوایم پاکستان سے ہوگا تو وہ اپنا یہ عہدایک بار پورا کرچکے ہیں ۔ پیپلزپارٹی یا پی ڈی ایم کی قیادت سے بار بار گورنر سندھ لگانے یا ہٹانے کا مطالبہ کرنا یقینا ایم کیوایم پاکستان کا سیاسی حق توہے مگر اُس کے لیئے یہ مطالبہ تسلیم کروانے کے لیئے غیر ضروری سیاسی دباؤ بروئے کار لانے کا راستہ اختیار کرنا شاید زیادہ مفید اور موثر ثابت نہ ہوسکے۔
جبکہ نئے گورنر سندھ کے لیئے ایم کیوایم پاکستان کی طرف سے جو نام سامنے آرہے ہیں ۔اُن میں مصطفی کمال اور نسرین جلیل سرفہرست ہیں ۔ یاد رہے نسرین جلیل صاحبہ ،کامران ٹیسوری کا نام آنے سے پہلے بھی گورنر سندھ کے عہدے کی لیئے نامزد کی گئیں تھیں۔ مگر جن وجوہات کی بنا پر پہلے اِن کے نام کا نوٹی فکیشن جاری کرنا وزیراعظم پاکستان نے مناسب نہیں سمجھا تھا ۔غالب امکان یہ ہی ہے کہ وہی وجوہات اِس بار بھی ضرور نسرین جلیل کے گورنر سندھ بننے کی راہ میں ضرور حائل ہوں گی۔ جہاں تک مصطفی کمال کی بات ہے تو ہماری دانست میں اُن کے نام پر اتفاق کرنا پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے لیئے کم و بیش نا ممکن ہی ہوگا۔ کیونکہ جس طرح کی جارحانہ سیاست اور حکومت کرنے کے لیئے مصطفی کمال شہر ت عام رکھتے ہیں ۔اُن کا وہ طرزِ سیاست مستقبل میں سندھ حکومت کے لیئے بہت سے سیاسی مسائل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
نیز گورنرسندھ کامران ٹیسوری اور وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کے درمیان پائی جانے والی مثالی ورکنگ ریلیشن شپ کی موجودگی میں پیپلزپاٹی کی اعلیٰ قیادت صوبہ میں گورنر کی تبدیلی کے کسی بھی سیاسی فیصلے کی حمایت سے حتی المقدور اجتناب ہی برتے گی۔ اگر مذکورہ تمام ناقابل تردید سیاسی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی ایم کیو ایم پاکستان نے گورنر سندھ کی تبدیلی کے معاملہ کو لے کر بہت زیادہ سیاسی و احتجاجی دباؤ پیپلزپارٹی پر ڈالنے کی غلطی کی تو عین ممکن ہے کہ گورنر سندھ کا عہدہ پر بھی کوئی جیالا ہی متمکن نہ کردیا جائے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے کی جانے والی بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کی غلطی نے بلدیہ عظمی کراچی میں ایک جیالا میئر تعینات ہونے کی راہ ہموار کردی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭