... loading ...
یہ نقیب اللہ محسود کون ہیں؟ انصاف کی دیوی مخمور حالت میں کسی بستر پر محو استراحت ہے۔ اس کا دولت مندوں اور طاقت وروں سے آنکھ مٹکا ہے، راؤ انوار جن کا ایک کارندہ ہے۔ سو انصاف کی دیوی کے آگے نقیب اللہ محسود کون ہیں؟ راؤ انوار کو حق تھا کہ وہ عدالت میں ایسے دکھائی دے جیسے فاتح اپنی مفتوحہ سرزمین پر ہوتے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد اس کے الفاظ قیامت کا خُروش رکھتے تھے۔ راؤ انوار ہی یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ’’ اُسے مقدمہ میں پھنسایا گیا تھا، پولیس سروس میں ایک سال باقی ہے، موقع دیا جائے کہ میں کراچی کی بھرپور خدمت کر سکوں‘‘۔ بالکل آنجناب کو یہ موقع ملنا چاہئے۔ یوں بھی کراچی میں ہونے والی مردم شماری میں جو لوگ گنے نہیں گئے، وہ سب راؤ انوار کی ’’بھرپور خدمت‘‘ کا ہدف بن سکتے ہیں تاکہ ایک سال بعد اگر مردم شماری نہ بھی کرائی جائے تو وہ اعداد و شمار ازخود، درست ہو جائیں۔
راؤ انوار کے الفاظ سے خلیل جبران حافظے میں اُبھرنے لگتا ہے جس نے انصاف کے اُس تصور کی ایک تمثیل میں ہمیں سیر کرائی ہے جو راؤ انوار ایسے کارندوں کے طاقت ور سرپرستوں کے ذریعے ہمارا روز مرہ بن چکا۔ وہ کوئی راؤ انوار ہی رہا ہوگا، جو خلیل جبران کی تمثیل میں طالبِ انصاف ہوتا ہے۔ لبنانی نژاد امریکی ادیب خلیل جبران لکھتا ہے:۔
ایک رات قصر شاہی میں دعوت ہوئی، اس موقع پر ایک آدمی آیا اور اپنے آپ کو بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ تمام مہمان اس کی طرف دیکھنے لگے۔ مہمانوں نے دیکھا کہ اُس کی ایک آنکھ باہر نکل آئی ہے اور خالی جگہ سے خون بہہ رہا ہے۔
بادشاہ نے پوچھا: تم پر کیا مصیبت پڑی ہے۔
اس آدمی نے کہا: عالی جاہ میں ایک پیشہ ور چور ہوں۔ آج شب جب کہ چاند ابھی طلوع نہیں ہوا تھا، میں ایک سیٹھ کی دُکان لوٹنے گیا۔ لیکن غلطی سے جُلاہے کے گھر میں داخل ہو گیا۔ جونہی میں کھڑکی میں کودا، میرا سر جُلاہے کے کرگھے سے ٹکرایا اور میری آنکھ پھوٹ گئی۔ عالی جاہ! میں اس جُلاہے کے معاملے میں انصاف چاہتا ہوں۔ یہ سن کر بادشاہ نے جُلاہے کو طلب کیا اور فیصلہ سنایا کہ جُلاہے کی آنکھ نکال دی جائے۔
جلاہا بولا: جہاں پناہ! آپ کا یہ فیصلہ درست ہے کہ میری آنکھ نکال دی جائے، لیکن عالی جاہ میرے کام میں دونوں آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ میں کپڑے کے دونوں حصوں کو دیکھ سکوں جسے میں بُنتا ہوں۔ البتہ میرے پڑوس میں ایک موچی ہے۔ جس کی دونوں آنکھیں سلامت ہیں۔ اس کو ویسے بھی ان دونوں آنکھوں کی ضرورت نہیں۔
یہ سن کر بادشاہ نے موچی کو بلوایا اور اس کی ایک آنکھ نکلوا دی۔ اس طرح انصاف کا تقاضا پورا ہوگیا‘‘۔
راؤ انوار کے معاملے میں ابھی موچی کو تلاش نہیں کیا گیا۔ کسی دن یہ کام بھی ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ راؤ انوار ایسے لوگ یہ اعتماد کہاں سے لاتے ہیں کہ اپنے کسی عمل پر شرمندہ ہونے کے بجائے پورے نظام کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ پورا نظام، سفاکوں، غنڈوں، لفنگوں، بدکرداروں، سیاہ کاروں، گناہ گاروں، مجرموں اور قاتلوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ اس نظام سے اُٹھنے والے بھبھکے سونگھنے ہو تو نقیب اللہ محسود کے مقدمے کے حقائق نامے سے جڑے واقعات کو ترتیب میں دیکھ لیں۔ سب کچھ ننگا نظر آئے گا۔ پہلے سے گرفتار نقیب اللہ محسود کو 13جنوری 2018 کو ایک جعلی مگر سفاکانہ پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ ابتدا میں اُسے ایک دہشت گرد قرار دے کر کارنامے کے طور پر پیش کیا گیا۔ پولیس مقابلے کا یہ سہرا خود راؤ انوار نے اپنے سر باندھا۔ مگر پھر اچانک اس کارنامے کے رنگ ایک ایک کرکے پھیکے پڑنے لگے، جب آشکار ہوا کہ نقیب اللہ محسود پہلے سے ہی گرفتار تھا۔ پھر یہ عیاں ہوا کہ مقابلہ جعلی تھا۔ پھر یہ کھلا کہ وہ کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ ماڈلنگ کا شوقین تھا۔ پھر یہ واضح ہوا کہ اُسے کسی دُکان کی خرید وفروخت کے دوران پیسوں کی لالچ میں مخبروں کے جال سے پھنسایا گیا۔ حقائق کی تیز روشنی نے جب جعلی پولیس مقابلے کے تمام اندھیروں کو گم کردیا تو پہلے سے ہی جعلی پولیس مقابلوں میں بدنام راؤ انوار نے خود کو جائے وقوعہ سے الگ کرنا شروع کر دیا۔ اُسے کارنامے کا سہرا، پھندا لگنے لگا تو فوراً وہ تمام لوگ اُس کی مدد کو پہنچے جن کی حاشیہ برداری کرتے ہوئے اُس نے اپنے سرکاری فرائض کو مجرمانہ کاموں سے آلودہ کیا تھا۔ سیاسی ہی نہیں وہ مقتدر قوتیں بھی اُسے چھتری فراہم کرنے پہنچیں، عدالتیں جن کی خدمت گاررہتی ہیں۔
نقیب اللہ محسود کے معاملے میں طاقت وروں کے منہ کا ذائقہ سول سوسائٹی کی ’’بے سمت‘‘ بیداری نے خراب کیا جس کے بعد راؤ انوار کو بچانے کا کام دور اور دیر تک ذرا ملفوف طریقے سے کرنا پڑا۔ اندازا لگائیے! جنوری 2018ء کے جعلی مقابلے کا ’’جعلی انصاف‘‘ بھی جنوری 2023ء یعنی پورے پانچ سال تک التواء میں رکھا گیا۔ یہ صرف اس لیے کیا گیا تاکہ نقیب اللہ محسود کے معاملے سے وابستہ جذبات سرد پڑ جائیں، اس کے لیے اُٹھنے والی انصاف کی آوازیں دھیرے دھیرے دبتی چلی جائیں اور یہی کچھ ہوا۔ نقیب اللہ محسود کے جعلی پولیس مقابلے پر اُٹھنے والے عوامی ردِ عمل اور جنوبی وزیرستان کی تحریک کے دباؤ کو پورے نظام نے دھیرے دھیرے دھیما ہونے دیا۔ انصاف کو بازار ی قہقہ بنا دینے والے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا 19 جنوری 2018 کا ازخود نوٹس بھی نقیب اللہ محسود کے معاملے میں انصاف کو رفتار دینے میں ناکام رہا۔ آخری تجزیے میں یہ دباؤ کم کرنے کا ایک حیلہ اور حربہ ہی ثابت ہوا۔ نقیب اللہ محسود کے والد اپنے بیٹے کے قتل کے مقدمے میں مدعی تھے۔ اُنہیں ملک کے تمام طاقت ور حلقے یہ تسلی دیتے رہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ ملک کی سب سے طاقت ور شخصیت تب کے فوجی سربراہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے بھی 5؍ اپریل 2018ء کو نقیب اللہ کے والد محمد خان محسود سے ملاقات کرکے انصاف میں تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ محمد خان محسود چیف جسٹس کے ازخود نوٹس اور آرمی چیف کی طفل تسلی پر بھروسا رکھتے ہوئے 2؍ دسمبر 2019ء کو لحد میں اُتر گئے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے ازخود نوٹس کے بعد پورے ایک سال تک اس منصب پر جلوہ افروز اور انصاف کے موتی رولتے رہے، آرمی چیف جنرل(ر) باجوہ نقیب کے والد کو انصاف کا یقین دلانے کے بعد ساڑھے چار برس سے زیادہ اپنے منصب پر فروکش رہ کر پتلی تماشا دکھاتے رہے۔ مگر نقیب اللہ محسود کو انصاف دلانے کے لیے اپنی کوئی ادنیٰ کوشش بھی تاریخ میں محفوظ نہ کراسکے۔ یوں سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس بھی اپنی قدروقیمت کھو بیٹھا اور فوجی سربراہ کی تسلی بھی سندِ اعتبار نہ پا سکی۔ یہ مجموعی صورتِ حال اداروں پر عوام کے عدم اعتماد کی جائز وضاحت کرتی ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عدالتی ناانصافیوں کو عدالتی طریقہ کار کی تہہ داریوں میں چھپایا جاتا ہے۔ اور اس کا ملبہ شہادتوں کی عدم دستیابی پر ڈال کر نظام انصاف کی ناکامیوں کی تقدیس و تجلیل(Glorification) کی جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظامِ انصاف دیکھتا ہے کہ کوئی شخص نقیب اللہ محسود تھا، جس کا پولیس مقابلہ ہوا؟ اگر اس مقابلے کا اعتراف کرنے والا راؤ انوار بھی بے گناہ ہے تو پھر اس کا گناہ گار کون ہے؟ راؤ انوار اپنے پولیس محفوظے (ریکارڈ) کے مطابق 25 جولائی 2011 سے لے کر 19 جنوری 2018 تک کُل 192 پولیس مقابلوں میں نقیب اللہ محسود سمیت 444 افراد کو قتل کر چکا ہے۔ اگر یہ شخص اپنے سرپرستوں کے باعث نظام انصاف کو دھوکا دے کر اپنے ساتھ تمام 17 ملزمان کو بری اور بے گناہ ثابت کرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس نظام انصاف کے پاس اپنے دفاع اور اس پورے نظام کے پاس اپنے بچاؤ کے لیے باقی کیا بچتا ہے؟ راؤ انوار نقیب اللہ کے مقدمے سے بری ہو گیا، مگر اس سے پورا نظام اپنے ننگے پن کے ساتھ عوامی کٹہرے میں کھڑا ہو گیا ہے۔ اب کسی موچی کی آنکھیں نکال کر انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکے گی۔
٭٭٭٭٭٭