... loading ...
جب ساری دنیا میں نئے سال کی آمد پرآتش بازی کے شاندار مظاہرے کیے جارہے تھے، رنگ و نور کی دل کش تقریبات منعقد کی جارہی تھیں اور اگلے برس کے لیئے نیک تمناؤں اور نیک خواہشات کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کو جشن سالِ نو کی مبارک باد اور تہنیتی پیغامات دے رہے تھے ۔ تو عین اُسی وقت ہمارے اِس کرہ ارض پر فلسطین نامی ایک ایسا بدقسمت مقبوضہ علاقہ بھی موجود ہے، جہاں کے باسی، اسرائیلی افواج کی گولیوں سے بچنے کے لیئے اپنے اپنے گھروں میں ڈرے سہمے دبکے بیٹھے تھے۔ کیونکہ اسرائیلی فورسز نے نئے سال کا آغاز ہوتے ہی چہار اطراف سے فلسطینیوں پر اپنے حملوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا تھا۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق نئے سال کے آغاز سے لے کر اَب تک اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنے والے مظلوم فلسطینی شہداء کی تعداد20 تک پہنچ چکی ہے۔جوگزشتہ 3 ہفتوں میں اسرائیلی افواج کی جانب سے ہونے والی بہیمانہ کارروائیوں کے نتیجہ میں بے دردی سے شہیدکیے جا چکے ہیں ۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس 2022بھی اسرائیلی افواج سرزمین فلسطین پر قہر بن کر ٹوٹی تھی اور ان کے ظالمانہ ہاتھوں نے217 معصوم فلسطینی شہریوں کا خون پانی کی مانند بہایاتھا۔ جن میں سے 52 معصوم فلسطینیوں کو غزہ اور 165 کو مغربی کنارے کے علاقہ میں شہید کیا گیا تھا۔جبکہ اسرائیلی فورسز کے حملوں میں زخمی ہونے والے اور گھر گھر تلاشی کے نام گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد بھی ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے سال ِ نو پر مقبوضہ فلسطین پر اچانک حملوں کا آغاز 30 دسمبر کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی اُس قرارداد کے بعد کیا گیا تھا۔ جس میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی قبضے کے معاملے پر عالمی عدالت انصاف سے رائے طلب کی گئی تھی اوراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے کہا تھا کہ’’اُس کی جانب سے جلد ازجلد اسرائیل کے قبضے، آباد کاری اور انضمام سمیت جغرافیائی تبدیلی، مقدس شہر یروشلم کی حیثیت اور کردار، امتیازی قوانین اور اقدامات کے نقصانات پر قانونی مشورہ فراہم کیا جائے‘‘۔اقوام متحدہ کے 87 اراکین نے مذکورہ درخواست کے حق میں ووٹ دیا،جبکہ اسرائیل، امریکا اور دیگر 24 ممالک نے قرارداد کی مخالفت کی اور 53 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیاتھا۔
فلسطینیوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے عالمی عدالت انصاف سے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی قبضے پر قانونی رائے فراہم کرنے کی درخواست کا خیرمقدم کیا تھااور فلسطین کے اعلیٰ عہدیدار حسین الشیخ نے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کی خلاف قرارداد منظور ہونے سے فلسطینیوں کی سفارت کاری کی فتح ظاہر ہوتی ہے‘‘۔تاہم اسرائیلی سفیر نے جنرل اسمبلی میں مذکورہ قرار کی ووٹنگ سے قبل بھرپور انداز میں مذمت کی بلکہ اِسے منظور ہونے سے روکنے کے لیے زبردست لابنگ بھی کی تھی۔مگر اسرائیلی سفیر کو بدترین ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور قرارداد کثرت رائے کے ساتھ منظور کرلی گئی۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر 1967 کی جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا جو فلسطین کا حصہ ہے اور وہاں کے عوام ان علاقوں میں اپنی ریاست میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔اسرائیل نے فلسطین کے علاقوں مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر رکھا ہے جبکہ عالمی سطح پر اسرائیل کے قبضہ کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور اسرائیلی قبضے کو اکثر ممالک جارحیت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔اسرائیل اور فلسطین کے درمیان 2014 میں اس تنازع کے حل کے لیے مذاکرات بھی ہوئے تھے لیکن وہ اسرائیلی قیادت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام ہوگئے تھے۔جس کے بعد فلسطینی قیادت کی جانب سے یہ تنازعہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کی کئی بار کوشش کی گئی ،جسے ہر بار اسرائیل نے ناکام بنادیا۔بہرحال اِس مرتبہ اسرائیل کی جنرل اسمبلی میں ایک نہ چل سکی اور اُس کی لاکھ مخالفت کے بعد جنرل اسمبلی نے مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کا تنازعہ عالمی عدالت انصاف کے سپرد کردیاگیا۔
دوسری جانب اسرائیل کے خلاف جنرل اسمبلی میں مذکورہ قرارد کا منظور ہونا اِس لیئے بھی بہت اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے کہ عالمی قوانین کے طے کردہ قوانین کے مطابق ریاستوں کے مابین تنازعات پر کام کرنے والی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد ہونا لازمی ہوتاہے ۔چونکہ اسرائیل خود کو عالمی قوانین سے یکسر بالاتر سمجھتا ہے ۔اس لیئے اُس کی کوشش ہے کہ مزیدکسی نئے عالمی فورم پر اُس کے خلاف کوئی نیا فیصلہ نہ آنے پائے ۔المیہ ملاحظہ ہو کہ اسرائیل نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارد اد پاس ہونے کا سارا غصہ مظلوم نہتے فلسطینیوں پر اُتارا اورغزہ کے مغربی کنارے پر حملوں کا آغاز کرتے ہوئے ،فلسطینی اتھارٹی کے خلاف مالی پابندیوں سمیت متعدد پابندیوں کا اعلان کردیا۔
فلسطینی اتھارٹی پر عائد ہونے والی اسرائیل کے غیر منصفانہ اقتصادی پابندیوں کے خلاف پاکستان سمیت، اقوام ِ متحدہ کے 40 رکن ممالک نے عالمی عدالت انصاف اور بین الاقوامی قانون کے لیے اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے فلسطینی عوام، قیادت اور سول سوسائٹی کے خلاف تعزیری اقدامات نافذ کرنے کے فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ ’قرارداد پر ہر ملک کے مؤقف سے قطع نظر ہم عالمی عدالت انصاف کی جانب سے مشاورتی رائے کی درخواست اور وسیع پیمانے پر جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ردعمل میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور تعزیری اقدامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔یاد رہے کہ مذکورہ بیان پر الجزائر، ارجنٹائن، بیلجیم، آئرلینڈ، پاکستان اور جنوبی افریقہ سمیت ان تمام ممالک کے دستخط ہیں جنہوں نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، تاہم جاپان، فرانس اور جنوبی کوریا وغیرہ نے اس قرارداد پر رائے دینے سے پرہیز کیا جبکہ جرمنی اور ایسٹونیا نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔
اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ’ ’حالیہ پیش رفت اہم ہے کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ممالک بھی جنہوں نے ہماری قرار داد کے حق میں ووٹ نہ بھی دیا ہو لیکن وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جانب سے ہونے والے تعزیراتی اقدامات کو سختی سے مسترد کرتے ہیں‘‘۔جبکہ ترجمان سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ نے انتونیو گوتیرس کی فلسطینی اتھارٹی کے خلاف حالیہ اسرائیلی اقدامات کے بارے میں گہری تشویش کا اعادہ کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ’’ اسرائیل کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے حوالے سے فلسطینیوں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعے میں مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی کے علاوہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے نظریے کے مطابق عالمی تنازعات نمٹانے کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت کی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے ۔ اگر اقوامِ متحدہ کو اپنی ساکھ بچانے کی ذرہ برابر بھی پروا ہے تو پھر اُسے فوری طور پر دنیا بھر میں بالخصوص فلسطین میں عالمی انسانی حقوق کے قوانین کا تحفظ یقینی بنانا ہوگااور اپنے عظیم ادارے کی ساتھ کو قائم رکھنے کے لیے فلسطین میں اسرائیلی فورسز کے مظالم کو روکنے کے لیئے متعلقہ فریقین اپنا انتظامی وسیاسی دباؤ بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ گزشتہ کئی برسوں سے مسئلہ فلسطین کسی خاطر خواہ پیش رفت کانہ ہونا انتہائی مایوس کن ہے اور اسرائیل فلسطین تنازعہ کے اثرا ت تمام مشرق وسطی کا داخلی و سیاسی استحکام سخت خطرے کی زد میں ہے اور یہ تب تک رہے گا، جب تک فلسطینی عوام کو ریاست کے حق سے محروم رکھا جائے گا، جب تک فلسطینیوں کی سرزمین پر غیر قانونی آبادیاں تعمیر ہوتی رہیں گی، جب تک فلسطینی خاندان تشدد اور ناانصافی کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑتے رہیں گے، اور گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکیں گے تو تب تک مشرق وسطی میں غصہ اور تلخیاں بڑھتی رہیں گی۔
اگر اقوام متحدہ تھوڑی سی حوصلہ مندی دکھائے تو مسئلہ فلسطین 1967 سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر دوریاستی حل کے فارمولے کے مطابق نمٹایا جا سکتاہے اور جب تک مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوتا ،تب تک کم ازکم اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکنے کے لیے عالمی برادری اپنا کردار تو ادا کرہی سکتی ہے۔ فی الحال مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں رہنے والے 50 لاکھ فلسطینیوں میں سے نصف سے زیادہ کو زندہ رہنے کے لیے انسانی امداد کی سخت ضرورت ہے، نیز غزہ میں رہنے والے 80 فیصد فلسطینی بنیادی سہولیات اور سروسز تک رسائی کے لیے عالمی برداری کی جانب رحم طلب نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔جبکہ مشرق وسطیٰ میں پناہ گزین فلسطینی مہاجرین کی حالت بھی انتہائی مخدوش ہے۔یہاں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ عالمی برادری ہنگامی بنیادوں پر اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطین پر عائد اقتصادی پابندیاں کو اُٹھانے کے لیے اپنا اثرورسوخ اور دباؤ بڑھائے ۔تاکہ اسرائیل مقبوضہ فلسطین پر سے اقتصادی پابندیاں اُٹھانے پر مجبور ہوسکے اور اقوام متحدہ کی ریلیف فراہم کرنے والے ادارے اسرائیلی ظلم و جبر سے متاثرہ فلسطینیوں کی مدد کا منقطع ہو جانے والا سلسلہ دوبارہ سے شروع کرسکیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭