... loading ...
ویسے تو مشکل حالات کاسامنا کسی کے لیئے بھی ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا،لیکن مشکل وقت میں بہرکیف یہ ایک اچھی بات اور خوبی تو ضرور پائی جاتی ہے کہ بدترین مشکلات کا شکار انسان ہو یا پھر قوم اُسے اپنی صلاحیتوںاور اپنے دوستوں کی خامیوںاور خوبیوں کے بارے میں بہت اچھی طرح سے معلوم ہوجاتاہے۔ مشکل حالات میں خودشناسی اور دنیا شناسی کا یہ تجربہ کسی بھی فرد ،اور قوم کے لیے ایک نعمت غیر متبرکہ سے کم نہیں ہوتا۔ واضح رہے کہ من حیث القوم ہم بھی آج کل کچھ ایسے ہی تجربہ کی بھٹی میں سلگ رہے ہیں ۔ پاکستانی معیشت جس کی صورت حال ماضی میں بھی کبھی اطمینان بخش نہیںرہی تھی ، لیکن ملک بھر میں گزشتہ برس ہونے والی طوفانی بارش اور سیلابی ریلوں سے آنے والی تباہی نے اُسے مزید دگرگوںکر کے دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا اوریوں ہمارے پاس دنیا کو مدد کے لیئے پکارنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ بچا۔
پاکستان اور اقوام متحدہ کی مشترکہ میزبانی میں سوئٹرز لینڈ کے شہر جنیوا میں ایک بڑی بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہماری ایک ایسی ہی پکار تھی، جس کا مقصد سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیرات کے کاموں میں عالمی برادری کی حمایت اور معاونت حاصل کرنا تھا۔مذکورہ کانفرنس سے قبل ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی یہ بحث شدت کے ساتھ جاری تھی کہ کیا دنیا پاکستان کی اقتصادی مدد کے لیئے اپنے دستِ تعاون دراز کرے گی؟بعض تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ چونکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی برادری خود ایک بڑے اقتصادی بحران سے گزر رہی ہے ۔لہذا، دنیا کے اکثر ممالک کے لیے روز بروز دگرگوں ہوتی پاکستانی معیشت کو ’’امدادی ‘‘سہارا دینا ممکن نہ ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنیوا کانفرنس کی تاریخ اور موضوع میں تبدیلی کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بننے سے اِس خدشہ کو مزید تقویت ملی اور کہنے والے یہاں تک کہنے لگے کہ جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو امداد کے نام پر ڈالر ملنے کا خیا ل ہی چھوڑ دینا چاہیے ۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے ایک طبقہ کا یہ اصرار بھی تھا کہ پاکستانی عوام ،جو ذرا سی بات اور واقعہ پر مغربی او ریورپی ممالک کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتی ۔بھلاایسے ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے یورپی اور مغربی ممالک کیوں سر جوڑ کر بیٹھیں گے؟حد تو یہ ہے کہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور سابق وزیراعظم کو بھی یہ خوش گمانی لاحق تھی کہ چونکہ سوشل میڈیا کے صادق اور امین وہ ہیں ۔لہٰذا، بیرونِ ممالک سے اُن کے علاوہ کوئی امداد حاصل کر ہی نہیں سکتا۔مگر سارے اندیشے غلط ثابت ہوئے اور جنیوا کانفرنس میں پاکستان کو عالمی برادری کی دامے ،ورمے ،سخنے بھرپور مدد و اعانت حاصل ہوئی ۔ دراصل ،یہ معجزہ اِس لیے رونما ہوا کہ ماضی میں ریاست ِ پاکستان نے دنیا بھر میں اَمن کے قیام اور آفاتِ سماوی کی صورت میں اپنی استعداد سے کئی گنا بڑھ کر متاثرہ اقوام اور ممالک کی مدد کی ہے ۔ اس لیے عالمی برادری کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ایک ایسی ریاست کو مشکلات سے مقابلہ کرنے کے لیئے اکیلا چھوڑ دیتی ،جس نے کر ہ ارض سے بلند ہونے والی مدد کی ہر درخواست پر خلوص نیت کے ساتھ لبیک کہا ہو۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان کو جنیوا میں بین الاقوامی کانفرنس کے دوران گزشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب سے بحالی کے لیے عالمی برادری اور اداروں کی جانب سے پاکستان کی طرف کی گئی امدادی درخواست سے بھی تقریباً ڈھائی ارب ڈالر زیادہ یعنی 10.57 ارب ڈالر امداد کی یقین دہانی حاصل ہوئی ۔یاد رہے کہ جنیوا کانفرنس کے دوران وزیراعظم پاکستان ،شہباز شریف نے پاکستان کے عالمی شراکت داروں سے ملک میں ہونے والی تباہی کے بعد اگلے تین سال کے دوران تعمیر نو کیلئے 8 ارب ڈالر فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ’’ آدھی رقم کا انتظام خود اپنے وسائل سے کریں گے، امداد میں شفافیت پہلی ترجیح ہوگی، تھرڈ پارٹی سے آڈٹ کرائیں گے۔‘‘ نیز،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ، انتونیو گوتریس نے بھی سیلاب سے متاثرہ پاکستان میں بحالی کی کوششوں کے لیے بڑے پیمانے پر امداد دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ’’ پاکستان کو ماحولیاتی انصاف دیا جائے۔‘‘
جنیوا کانفرنس میں عالمی امداد کے اعلانات کے مطابق اسلامی ڈیولپمنٹ بینک گروپ اگلے تین برسوں میں 4.2 ارب ڈالر دے گا۔ عالمی بینک نے سیلاب متاثرین کے لیے2 ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا۔ سعودی عرب ایک ارب ڈالر دے گا، یورپی یونین نے 500ملین ڈالر، چین نے 100ملین ڈالر، یو ایس ایڈنے 100ملین ڈالر، جرمنی نے 88ملین ڈالر، جاپان نے 77ملین ڈالر، فرانس نے 345ملین ڈالر، برطانیہ 9ملین ڈالر دینے اعلان کیا۔نیز ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب 50 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا جبکہ ایشین انفرااسٹرکچر انویسمنٹ بینک نے ایک ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا۔فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون نے بھی پاکستان کے لیے ایک کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا۔جرمنی پاکستان کو مزید 88ملین یورو فراہم کرے گا، چین کی طرف سے بھی سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے مزید 10کروڑ ڈالر گرانٹ دینے کا اعلان کیا گیا ہے، جاپان بھی مزید 77 ملین ڈالرامداد دے گا، یورپی یونین کی جانب سے بھی 93 ملین ڈالر کا اعلان ہوا ہے۔ان ممالک کے علاوہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا ہے، برطانیہ نے 90 لاکھ یورو اور ایشین انفرااسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے بھی ایک ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔نیزکانفرنس کے اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ تعمیر نو اور بحالی کیلئے دی جانے والی امداد تین مرحلوں میں استعمال ہوگی اور اس سلسلے میں مختصر، درمیانی اور طویل المیعاد منصوبے بنائے جائیں گے۔ کانفرنس کا دوسرا سیشن جلد ہوگا جس میں بحالی کے منصوبوں پر عملدرآمد اور مزید امداد کے امکانات کا جائزہ لیا جائیگا۔
واضح رہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیراتی کاموں کے لیے پاکستان کو اندازاً 16.3 ارب امریکی ڈالرز کی خطیر رقم کی ضرورت ہے جس سے لاکھوں گھر، ہزاروں کلومیٹر سڑکیں اور ریلوے ٹریک تعمیر کیے جائیں گے۔یعنی جنیوا کانفرنس میں اعلان کی گئی امداد جتنی رقم کا بندوبست پاکستان کو اپنے طور پر بھی کرنا پڑے گا۔ تب کہیں جاکر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی ممکن ہوسکے گی۔ اگر گزشتہ نومبر میں 101 ارب ڈالر کا جو قرضہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیئے منظور کیا تھا،فوری طور مل جاتا ہے تو ملکی معاشی صورت حال کافی حد تک بہتر ہوسکتی ہے ۔ نیز آئی ایم ایف پروگرام کے بحال ہوجانے سے ہمارے دوست ممالک چین اور سعودی عرب وغیرہ کے لیے پاکستان کی مزید معاشی امداد کرنا بھی بے حد آسان ہوجائے گا۔ دراصل 1983 ،1987 اور پھر 2008 کی عالمی کساد بازاری کے بعد دنیا کے تمام ممالک نے باہمی طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ آئی ایم ایف کے اطمینان یعنی ہیلتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر کوئی بھی ملک کسی بھی دوسرے ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا نہیں دے گا۔ اس قانون کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ایک ملک کو آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارہ کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا ، تب ہی دوسرے عالمی ادارے یا ممالک اُس ملک کو مالیاتی سہارا فراہم کریں گے۔
مذکورہ رکاؤٹ کی وجہ سے چین اور سعودی عرب پاکستان کی اُس طریقے سے کھل کر اعلانیہ اقتصادی امداد کرتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے ،جیسا کہ وہ ماضی میں پاکستان کو ہر مشکل وقت میں فراہم کیا کرتے تھے۔ بہرحال تمام تر عالمی رکاؤٹوں اور مشکلات کے باوجود چین پاکستان کی اقتصادی مدد کے لیئے پوری طرح سے کمر بستہ ہے اور وہ گزشتہ چند برس میں پاکستان کے معاشی استحکام کے لیئے 15 ارب ڈالر بطور قرض دے چکا ہے اور 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے ۔جبکہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے دیئے جانے والے 16 کروڑ ڈالر اس کے علاوہ ہیں ۔ دوسری جانب سعودی عرب کے اور متحدہ عرب امارات کے سرکاری دورے پر موجود چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کی مدینہ میں سعودی ولی عہد ،شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی ترقیاتی فنڈ (ایس ڈی ایف) کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) میں جمع رقم 5 ارب ڈالر تک بڑھانے کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی ہے۔ نیز سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ’شہزادہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کا جائزہ لینے کی بھی ہدایت کردی ہے جس کا اعلان 25 اگست 2022 کو کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 2021 میں سعودی عرب نے پاکستان کے غیر ملکی ذخائر میں اضافے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے تھے۔3 ارب ڈالر کی یہ رقم 5 دسمبر 2022 کو واپس واپس کرنا تھی، تاہم 2 دسمبر کو سعودی عرب نے اس ڈپازٹ کی مدت میں توسیع کر دی تھی۔علاوہ ازیں سعودی عرب موخر ادائیگیوں پر تیل بھی پاکستان کو فراہم کررہا ہے۔ جنیوا کانفرنس کی فقید المثال کامیابی ،نیز چین اور سعودی عرب کا مشکل معاشی حالات میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنا ،ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کے خواب دینے والے سخت تکلیف میں اور پاکستان کے ساتھ ساری دنیا کھڑی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭