... loading ...
دوستو،گزشتہ روز ہفتہ وار گھریلو شاپنگ کے دوران گوشت اور سبزیاں لینی تھیں، جب اپنے روایتی چکن فروش کی دکان پر گئے اور اس سے چار کلو چکن طلب کی تو اس نے ہمیں نیچے سے اوپر تک اچھی طرح سے گھورا، ہمیں اس کے انداز پر حیرت ہوئی، کیوں کہ اس سے قبل اس نے کبھی یہ حرکت نہیں کی تھی، اس سے پہلے کہ ہم اس کے گھورنے کی وجہ پوچھتے، وہ تھوڑا سا مسکرایا اور کہنے لگا۔۔بھائی، آپ کو پتہ ہے چکن کا ریٹ کیا چل رہا ہے؟ ہم نے اسے گزشتہ ہفتے کے نرخ بتائے جو پانچ سو بیس روپے کلو تھے، وہ ہماری بات کاٹتے ہوئے کہنے لگا۔ چکن چھ سو روپے کلو ہے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا، مرغیوں کی فیڈ کا بحران چل رہا ہے، جس کی وجہ سے چکن مہنگاہوگیا ہے۔ ہم نے اگلا سوال جو انتہائی احمقانہ سا تھا،داغا کہ چکن سستا کب ہوگا۔ اس نے دونوں شانے اچکاتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھامگر بولا کچھ نہیں، ہم سمجھ گئے کہ ہمارے سوال کا جواب دینا اس کے لئے فی الحال ممکن نہیں ہے۔
وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی طارق بشیر چیمہ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آٹے اور گندم کی قیمتوں کا تعین صوبائی حکومتیں کرتی ہیں۔صوبوں میں مہنگائی کنٹرول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔فلور ملز مصنوعی طور پر قیمتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ سندھ نے گندم کی سپورٹ پرائس چار ہزار مقرر کی۔سپورٹ پرائس مقرر کرنے سے پہلے کسان کی لاگت کو دیکھا جاتا ہے۔چار ہزار سپورٹ پرائس پر مزدور آٹا کیسے خریدے گا۔بلاول بھٹو اور وزیر اعظم کی جس دن ملاقات ہو جائے گی اس دن گندم کی قیمت پر مسئلہ حل ہو جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دی،ابھی تک ایک کلو چینی برآمد نہیں کر سکے۔عالمی منڈی میں چینی سستی ہو چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد مہنگائی ہمارا مسئلہ نہیں ہے، مہنگائی کنٹرول مسئلہ صوبائی حکومتوں کا ہے۔طارق بشیرچیمہ کا کہنا تھا کہ جی ایم او سویابین زہریلی بیماری ہے، کینسر ہے، مرغی کھانا چھوڑ دو،میں مرغی نہیں کھاتا، گوشت بھی نہیں کھاتا، جی ایم او سویابین کا پولٹری میں استعمال بیماری پھیلا رہا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2015ء سے پہلے جی ایم او سویابین پولٹری فیڈ میں شامل نہیں تھی، اس کے بعد پولٹری مافیا نے چکر چلا کر مقامی سویا بین پر ٹیکسز لگوادیے جس سے امپورٹڈ سویابین سستی اور مقامی سویابین مہنگی ہوگئی، پھر انہوں نے جی ایم او سویابین درآمد کرنا شروع کردی، ایک ارب کی درآمد کرکے 2 ارب روپے کماتے ہیں، امپورٹڈ سویابین مضرصحت ہے جو بیماری پھیلارہی ہے، میری سختی کا یہ فائدہ ہوا کہ اب نان جی ایم او سویابین منگوائی جارہی ہے جو مضر صحت نہیں۔
چیمہ صاحب کی پریس کانفرنس سے ہمیں اپنے چکن فروش کی وہ بات یاد آگئی کہ۔۔ مرغیوں کی فیڈ کا کوئی چکر ہے۔۔ جب وفاقی وزیرایسی بات کررہا ہے کہ چکن کھانا چھوڑ دو،یہ کینسر ہے،میں مرغی نہیں کھاتا۔۔ تو اس پر حکومت کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتی؟ بازار میں چکن کی فروخت پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟ چکن کو ممنوع کیوں قرار نہیں دیتی؟جب ترکی والے عشق ممنوع کرسکتے ہیں تو ہم بھی چکن ممنوع کرسکتے ہیں۔ہمیں تو پرانا زمانہ یاد آجاتا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست نے پرانے زمانے کے حوالے سے ہمیں ایک تحریر واٹس ایپ کی،جس میں لکھا تھا کہ۔۔معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی کے بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے۔چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا۔۔۔زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن پلکوں سے اُٹھانی پڑیں گی۔۔گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے۔۔محلے کا ڈاکٹر ایک ہی سرنج سے ایک دن میں پچاس مریضوں کو ٹیکے لگاتا تھا، لیکن مجال ہے کسی کو کوئی انفیکشن ہو جائے۔۔یرقان یا شدید سردرد کی صورت میں مولوی صاحب ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دم کردیا کرتے تھے اور بندے بھلے چنگے ہوجاتے تھے۔۔گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے۔ ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا۔۔ امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے۔۔یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے۔۔ موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھرمیں حقیقی قہقہے لگاتے تھے۔۔ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی۔۔میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں۔۔۔ حلوہ، زردہ اور کھیر ۔۔آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی، جو میوزک نہیں بجاتی تھیں۔۔گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا۔۔نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا۔۔دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ ’بہانے‘ سے دودھ لینے جاتے تھے۔۔گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا۔۔گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہوتی تھیں‘ محلے کے بابے حُقہ پی رہے ہوتے تھے اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کر رہے ہوتے تھے۔۔جن گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے۔۔مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا۔ اور فریج کے بغیر بھی مٹکے اور صراحیوں کا پانی ٹھنڈا رہتا تھا۔ ۔لیکن۔۔۔پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔ہم قدیم سے جدید ہوگئے۔اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا۔کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا۔ دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو۔منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں اِس قدر سہولتوں کے باوجود ہمیں گھر میں ایک ایسا ڈبہ ضرور رکھنا پڑتا ہے، جس میں، ڈپریشن‘ سردرد‘ بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنز کی گولیاںہر وقت موجود ہوں۔۔
پروفیسر صاحب گھر تشریف لائے تو اپنی زوجہ محترمہ سے پوچھا۔۔بیگم کھانے میں کیا ہے آج؟بیگم صاحبہ غصے سے دھاڑیں۔۔خاک۔۔پروفیسرصاحب کہنے لگے۔۔ واہ خاک، خاک کو الٹا پڑھو تو کاخ بنتا ہے،کاخ فارسی زبان میں محل کو کہتے ہیں اور محل کو الٹا پڑھو تو لحم بنتا ہے، لحم عربی زبان میں گوشت کو کہتے ہیں، کمال کردیا گوشت پکا ہے واہ۔۔بیگم صاحبہ بھی آخر پروفیسر صاحب کی تھیں،فرمانے لگیں۔۔ پروفیسر صاحب گوشت کو الٹا پڑھو تو تشوگ بنتا ہے اور تشوگ سنسکرت زبان میں سوٹے کو کہتے ہیں لاؤں۔۔پروفیسر صاحب گھبراکر بولے۔۔ نہیں نہیں میں تو بس یہ کہہ رہا تھا اردو اپنے اندر بہت خزانہ رکھتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں شراب پینے والوں کو سزادی جاتی ہے اور بنانے والوں کو لائسنس۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔