... loading ...
دوستو، ہر نیا سال ۔۔(اب اسے ’’ہرنیا‘‘ نہ پڑھ لینا)نئی امنگوں اور نئی امیدوںکے ساتھ آتا ہے لیکن جاتے جاتے مایوسیاں دے جاتا ہے۔۔ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ دوہزار تئیس کانیا سورج اپنی اوٹ میں کتنی خوشیاں، خوشخبریاں اور بری خبریں لے کر طلوع ہوا ہے لیکن خدائے رب ذوالجلال سے یہی دعا ہے کہ آنے والا یہ نیا سال دنیا کے لیے امن و آشتی اور انسانوں کے لیے خوشحالی کا پیغام لے کر آئے۔ اس نئے سال سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ خدا کرے یہ سال ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کا سال ثابت ہو۔
پپو ہمارے لنگوٹیا فرینڈ ہیں، میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ہمارے احباب کو اچھی طرح سے علم ہے کہ پپو میں کیا کیا خوبیاں ہیں ۔۔ میڈیا انڈسٹری کے لیے ’’پپو‘‘ کسی دہشت گرد سے کم نہیں، لیکن درحقیقت پپو ایک بے ضرر سے انسان اور ہمارا بچپن کا دوست ہے، پپو کا کراچی کے مضافاتی علاقے کورنگی میں پان کا کیبن ہے جہاں ہم روز رات کو بیٹھک لگاتے ہیں ، یہ بیٹھک باباجی اور ہمارے پیارے دوست کے علاوہ ہوتی ہے ، پپو کے ساتھ بیٹھک ہمیشہ اس کے پان کے کیبن پر ہی لگتی ہے،جہاں پپو کی ’’پرمغز‘‘باتوں سے دماغ کی دہی بننا لازم ہوجاتی ہے۔۔اس بار جب پپو سے ایک ماہ بعد کیبن پر ملاقات ہوئی،اس ایک ماہ میں ہم ہی مصروف رہے۔پپو سے ملاقات جب بھی ہوتی ہے پپو کی بانچھیں کھل جاتی ہیں کیوں کہ انہیں ایک شاندار سامع میسر آجاتاہے جو ان کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہتا ہے۔۔انہوں نے فوری ملباری کی چائے کا آرڈر دیا۔۔باتوں کا سلسلہ شروع ہوا، ہم نے جب کہا کہ یہ سال بھی بس ایک دو روز کا مہمان ہے تو کہنے لگے۔۔آنے والے نئے سال کی وجہ سے میں ایک بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔۔ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟؟ کہنے لگے۔۔ نئے سال کو سال نو کہتے ہیں؟ ہم نے اثبات میں گردن ہلائی۔۔پپو پھر گویا ہوئے۔۔عمران بھائی میرے ایک دوست کی مارچ میں شادی ہے ،وہ جس بچی(لڑکی) سے شادی کررہا ہے وہ نوبھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔۔یہ کہہ کر اس نے ملباری سے آنے والی چائے کا کپ ہماری طرف بڑھایا۔۔اور بسکٹ کا ایک پیکٹ بھی برہنہ کرکے ہمیں پیش کیا۔۔پھر پپو بھائی؟؟ نوبھائیوں کی اکلوتی بہن سے اگر آپ کا دوست شادی کررہا ہے تو آپ کس طرح مصیبت میں پھنس گئے؟؟ ہماری سوئی اپنی جگہ اٹکی ہوئی تھی۔۔وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔۔پرابلم بس اتنی سی ہے کہ جب میں مارچ میں اس کی شادی میں شرکت کرونگا تو کیا اپنے دوست کو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں۔۔۔’’سالے نو مبارک ‘‘۔۔
باباجی نے پیشگوئی کی ہے کہ ملک میں رواں سال بھی جمہوریت ہی رہنی ہے۔۔ساتھ ہی انہوں نے جمہوریت کو منہ بھربھر کر سنابھی دی۔۔ ہم نے بھی جب ان کی باتیں سنیں تو اتفاق کئے بغیر نہ رہ سکے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ساری باتیں جمہوریت کے خلاف سازش ہیں۔۔باباجی دانت بھینچ کر فرمارہے تھے۔۔پہلے لوگ کنویں کا میلاکچیلا پانی پی کر بھی سوسال سے زیادہ جیا کرتے تھے، اب یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں ’’آر او‘‘ اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا خالص و شفاف پانی پی کر بھی چالیس سال کی عمر میں بوڑھے ہورہے ہیں۔۔ پہلے کے تیل میں کھاکربڑھاپے میں محنت ہوجاتی تھی اب ڈبل ، ٹرپل فلٹر تیل، اولیوآئل، کولیسٹرول فری اور پتہ نہیں کیاکیاقسم کے تیل کھاکر بھی جوانی میں ہانپ رہے ہوتے ہیں، یہ کیسی جمہوریت ہے؟؟؟پہلے کوئی ڈلی والانمک کھا کر بھی بیمار نہیں ہوتا تھا،اب جب کہ جمہوریت ہے تو آیوڈین والا نمک کھاکربھی لوبلڈپریشر اور ہائی بلڈپریشر کے ہزاروں مریض گھوم رہے ہیں۔۔پہلے نیم،ببول،کوئلے،نمک سے دانت چمکاتے تھے اور بڑھاپے تک اصلی دانتوں کے ساتھ خوراکیں کھاتے تھے، اب جمہوریت ہے تو ہر فلیور،ہرنسل،ہرطرح کا ٹوتھ پیسٹ جس پر دنیا کے سارے دندان سازوں کا اتفاق بھی ہوتا ہے، لیکن دانت ٹوتھ پیسٹ سے اتفاق نہیں کرتے،اور ان کا آپس کا اتفاق ایک ایک کرکے ختم ہوجاتا ہے۔۔پہلے نبض پکڑتے ہی کسی بھی بیماری کو پکڑ لیا جاتا تھا، اب جمہوریت ہے تو ہرطرح کی جدید مشینری کے باوجود مرض پکڑائی نہیں دیتا۔۔پہلے آٹھ، دس بچے پیدا کرنے والی مائیں بھی اسی نوے سال کی عمرتک اپنے کھیتوں میں کام کرتی تھیں، اب جمہوریت ہے تو پہلے مہینے سے ڈاکٹرز کی آبزرویشن میں ہونے، گھر کے کسی کام کو ہاتھ نہ لگانے والی نازک خواتین کے بچے پھر آپریشن سے ہورہے ہیں، کیا اسی دن کے لئے جمہوریت کو برداشت کیا تھا؟؟؟
جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو سال کی رخصتی اور آمد کے حوالے سے ہرجگہ وہی گھسی پٹی رسمی باتیں ہورہی ہوں گی،اکثر ملاقاتیں اس جملے سے شروع ہوں گی۔۔’’’نیا سال مبارک ہو‘‘۔۔جواب میں کہنے والا کہے گا ۔۔’’شکریہ ، آپ کو بھی نیا سال مبارک ہو۔‘‘۔۔ایک آدھ ہفتہ گزرے گا تو جملے میں تمہید کا اضافہ ہو جائے گا۔۔’’’معاف کیجئے اس سے پہلے موقع نہیں ملا‘‘۔۔یاپھر یوں کہاجائے گا، ’’بھئی آپ کو کئی بار فون کیا مگر بات ہی نہیں ہو سکی،مبارکباد کا میسیج میں نے کردیا تھا۔‘‘کچھ یوں بہانے بنارہے ہوں گے، معاف کرنا میں ذرا آئوٹ آف اسٹیشن تھا ،اس لئے ذرادیر سے مبارک باد دے رہا ہوں۔۔کل ہرجگہ کوئی نہ کوئی آپ کو نئے سال کی مبارک باد ضرور دے کر رہے گا۔۔ا س کے بعد سب کچھ وہی ہوتا رہے گا، جو پچھلے سال ہواتھا یا رواں سال ہوا ہوگا، جو اس سے پچھلے سال ہوا تھا اور جو نہ جانے کتنے نئے سالوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔یعنی بسوں کے دھکّے، کھڑکیوں پر قطاریں، بیوی کی جھڑکیاں، ٹی وی کی بریکنگ نیوز،باس کی ٹیڑھی نظر،دفتروں کی سیاست، دفتری ساتھیوں کے بھدّے لطیفے، خالی جیب، مہنگائی، دہشت گردی، اسپتال،کچہری ، رشوت، چوربازاری، ذخیرہ اندوزی،ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، خالی مسجدیں، ناچ گانا۔۔کچھ بھی تو نہیں بدلے گا، لیکن پھر بھی ۔۔سالے نو مبارک۔۔پپو نے نئے سال کے حوالے سے زبردست پیش گوئی فرمائی ہے۔۔ کہتے ہیں، نیاسال بھی ایک سال سے زیادہ ٹکنے والا نہیں۔۔ہم نے پپو کی بات سن کر ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی طلب کی۔۔جس پر پپو نے منہ بسورتے ہوئے کہا، پورا سال گزر گیا، کوئی معافی نہیں مانگی، اب معافی مانگ کر شرمندہ نہ کریں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ نئے سال بھی ہونا وونا کچھ نہیں، وہی عالمی منڈی میں تیل مہنگا اور انسانی خون سستا ہی ملے گا۔۔خواتین میں لباس کا ناجائز استعمال فروغ پائے گا اور بعض مستورات عریانی کے
لیے سترپوشی سے کام لیں گی۔۔چند بزرگ سیاستدان، دانشور اور مذہبی رہنما جو اپنی طبعی عمر پوری کر کے ’’اوور ٹائم‘‘ لگا رہے ہیں ،اگلے سال ہم میں نہیں رہیں گے،تاہم قوم کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ ان کا خلا پر کرنے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔۔نان ایشوز پر دھرنے بازیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بیان بازیاں ، جگت بازیاں ، رنگ بازیاں ، آتش بازیاں ، پتنگ بازیاں اور نقاب کشائیاں جاری رہیں گی ۔۔جرائم کا بول بالا ہوگا اور قانون کا منہ کالا ہوگا۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔