... loading ...
ایک عام تاثریہ پایا جاتا ہے کہ سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں پاک امریکا تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ۔مگر یہاں مصیبت تو یہ ہے کہ عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکمرانی میں کس ملک کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات خراب کرنے کی اپنی دانست میں بھرپور کوشش نہیں کی تھی۔ حد تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے صرف پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ ہی نہیں بلکہ دوست ممالک کے سربراہان مملکت کے ساتھ بھی تعلقات کو حتی المقدور کشیدہ ہی رکھا ۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان ہوں یا پھر ترک صدر طیب اردوان ،چینی صدر شی جن پنگ ہوں یا پھر ایرانی صدر ،ابراہیم رئیسی، سابق وزیراعظم عمران خان اِن میں سے جس شخصیت سے جہاں بھی ،جب بھی اور جیسے بھی ملے اُسے اپنے متکبرانہ طرزِ عمل کی وجہ سے مسلسل زچ ہی کرتے رہتے تھے اور اگر کچھ کمی بیشی رہ جاتی تھی تووہ رہی سہی کسر تحریک انصاف کی سوشل میڈیا فورس عمران خان سے ملنے والے سربراہ کو بوزنا ثابت کرنے والی پوسٹیں اور میمز وائرل کرکے پوراکردیا کرتی تھی ۔
جب سابق وزیراعظم عمران خان پاکستان کے دوست ممالک کے سربراہان کو ہی ذرہ برابر اہمیت نہیں دیتے تھے تو پھر اُن سے یہ توقع رکھنا بالکل ہی عبث تھا کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کی سفارتی اہمیت اور ضرورت کی ذرہ برابر بھی پرواہ کریں گے۔بظاہر عوامی حلقوں میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے یوکرین پر حملے کے وقت روس کا دورہ کر کے پاک امریکا تعلقات کو خراب کیا تھا ۔لیکن سفارتی حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان نے کبھی بھی پاک امریکا تعلقات کی اہمیت کوسمجھنے کی نہ تو کوشش کی اور نہ ہی کبھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بالغ نظر ی کا مظاہر ہ کیاہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے پاک امریکا تعلقات کو خراب کرنے کی بھاری قیمت پر اپنی سیاست کو بڑی سیاسی چالاکی کے ساتھ پروان چڑھایااوراسلام آباد اور واشنگٹن کو سفارتی میدان میں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کردیا۔
اِس وقت وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے کی اوّلین کوشش یہ ہے کہ کسی طرح گزشتہ دورِ حکومت میں پاک امریکا تعلقات میں پیدا ہونے والی تلخیوں اور کشیدگی کو جلدازجلد دور کیا جائے ۔تاکہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایک بار پھر سے ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوسکے اور اِس مشکل ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے پاکستان کے کمر عمر ترین وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن کا4 روزہ خصوصی دورہ کیا ہے ۔ پاکستانی وزیر خارجہ کا یہ دورہ اِس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ اپنے اِس دورہ میں بلاول بھٹو زرداری کو چین کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ مضبوط تعلقات پر زور دینے کے پیچیدہ چیلنج درپیش تھا۔اپنے حالیہ دورہ واشنگٹن میں بلاول بھٹو زرداری پاک امریکا سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کتنا کامیاب رہے ۔ اس کا پتا تو اُن اقدامات سے چلے گا ،جو آنے والے دنوں میں اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان طے ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔
تاہم وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو دیے گئے اپنے مختلف انٹرویوز میں پاک امریکا تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کے بارے میں کھل کر بات کی اور امریکی ذرائع ابلاغ میں انہوں نے پاکستانی موقف کو اپنے تئیں بھرپور انداز میں پیش کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے ۔ امریکی خبر رساں ادارے کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’’ ہماری حکومت آنے کے بعد چین اور امریکا دونوں کے ساتھ پاکستان اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔کیونکہ چین ہمارا پڑوسی ملک ہے اور ان کے ساتھ ہماری ایک طویل تاریخ ہے، خاص طور پر اقتصادی محاذ سمیت متعدد معاملات پر ہمارے درمیان زبردست تعاون موجود ہے۔ لیکن امریکا کے ساتھ بھی ہمارا تاریخی رشتہ ہے جو 1950 کی دہائی سے شروع ہوا اور ہم نے تاریخ کے مختلف ادوار میں شراکت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں ہیں اور ہم آئندہ بھی سفارتی تعلقات میں اِس توازن کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔
نیز دورانِ انٹرویو ایک سوال کے جواب میں پاکستانی وزیرخارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ ’جب بھی امریکا اور پاکستان نے مل کر کام کیا ہے، ہم نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور جب بھی ہمارے درمیان سفارتی فاصلہ پیدا ہوا تب ہم بھی بُری طرح سے ڈگمگا گئے۔اس لیے میرے خیال میں میں پاکستان کے سفارتی مفادات اِسی میں ہیں کہ وہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ مضبوط اور مساوی سفارتی تعلقات کو استوار کرے ‘‘۔امریکا میں بیٹھ کر وائٹ ہاؤس انتظامیہ کو یہ باور کروانا کہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی امریکا کے خلاف نہیں ہے ۔یقینا ایک بہت اچھی سفارتی کاوش ہے اور اگر پاکستانی وزیرخارجہ کی یہ کوشش بارآور ثابت ہوجائے تو پھر پاک امریکا کے مابین موجود عدم اعتماد کی فضا کافی حد تک چھٹ سکتی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ نیویارک میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’’ میں بھارت کو بتانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن تو مر چکا ہے مگر گجرات کا قصائی زندہ ہے اور بھارت کا وزیرِ اعظم بن چکا ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت گاندھی کی نہیں، گاندھی جی کے قاتل کے نظریات پر یقین رکھتی ہے اور ہٹلر فاشسٹ نظریات سے بُری طرح سے متاثر ہے‘‘۔امریکا میں بیٹھ کر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اُس کی پالیسیوں پر کڑ ی تنقید کرنا جہاں بھارتی حکومت کے لیے سخت صدمہ اور سبکی کا باعث بنا ۔وہیں بلاول بھٹو زرداری کے بیان پر بھارتی سرکار کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی بھی آگ بگولہ ہوگئی ہے اور بھارتی جنتا پارٹی کے چند رہنماؤں نے بلاول بھٹو زرداری کے سر کی قیمت بھی لگادی ہے۔ شاید بھارت کو اِس بات پر غصہ ہے کہ پاکستانی وزیرخارجہ نے ایک بار پھر سے امریکیوں کو نریندر مودی کا وہ بھیانک چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے ، جسے امریکی رفتہ رفتہ فراموش کرتے جارہے تھے۔جبکہ بلاول بھٹو کے مذکورہ بیان نے دنیا کو بھارت میں حال میںہی اقلیتوں کے ساتھ روارکھی جانے والی بہیمانہ زیادتیوں کی جانب بھی ایک بار پھر متوجہ ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ بظاہر کہنے کو یہ ایک بیان ہے لیکن بھارتی رہنما اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی وزیرخارجہ کی جانب سے بھارتی وزیراعظم کے خلاف ادا کیے الفاظ کی گونج کئی ہفتوں تک امریکی ذرائع ابلاغ میں سنائی دیتی رہے گی۔
دوسری طرف امریکی ترجمان محکمہ خارجہ نے بھی پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہ امریکا کو سراہتے ہوئے بیان دیا ہے کہ’’ ہمیں ایٹمی اثاثوں کے تحفظ اور سیکیورٹی کے پاکستانی عزم و صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے اور امریکی صدر ہمیشہ سے محفوظ اور خوشحال پاکستان کو ہی امریکی مفادات کے لیے انتہائی اہم سمجھتے ہیں‘‘۔مذکورہ بیان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ امریکا بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ جس طرح سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورِ اقتدار میں پاکستان اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات تیزی سے روبہ زوال تھے ۔اَب پاکستان میں نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں اَبتری کا سلسلہ نہ صرف تھم گیا ہے ۔ بلکہ امریکہ اور پاکستان میں تعاون اور تعلقات میں بہتری کے لیے حال ہی میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے۔مثال کے طور پر واشنگٹن نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی کے لیے پانچ کروڑ ڈالر سے زائد کی امداد کا اعلان کیا ہے۔نیز ایف16 طیاروں کی مرمت کے لیے 45 کروڑ ڈالر کے معاہدے کی بھی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔امریکا کی جانب سے ایف 16 طیاروں کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان اور امریکہ تعلقات میں بتدریج بہتری آ رہی ہے اور اَب امریکا بھی یہ چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کے ساتھ اپنے تعلقات کا وہیں سے آغاز کرے جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔
جبکہ بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ سیلاب سے شدید متاثرہ پاکستان کے لیے امریکا کی زیادہ سے زیادہ امداد سے دونوں ملکوں کے تعلقا ت میں مزید بہتری آئے گی۔ یاد رہے کہ امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ نے پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد میں مزید دو کروڑ ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل امریکانے پاکستان کے لیے تین کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔یہ اضافہ اِس لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ سیلاب سے متاثر ہ پاکستانی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے کثیر سرمایہ اور وسائل درکا رہیں ۔ جبکہ جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بھی بہت سے سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاسکتا ۔ چونکہ امریکی ڈالر اور جدید ٹیکنالوجی دونوں امریکا کے ہی پاس ہیں ،اس لیے پاکستان کو امریکا کے ساتھ اچھے سفارتی ،معاشی اور سیاسی تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں عالمگیر موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیئے بھی پاکستان کو امریکی ماہرین کی غیر معمولی اعانت درکار ہوگی ۔ جب ایک ملک کے اتنے زیادہ مفادات دوسرے ملک کے ساتھ وابستہ ہوجائیں تو پھر پہلے ملک کی سیاسی قیادت کے لیے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کے لیے تدبر سے کام لے۔
٭٭٭٭٭٭٭