... loading ...
دوستو، کراچی میں اکثر اسی طرح کے جملے بولے جاتے ہیں ،مثال کے طور پر کوئی آپ سے پوچھے گاتو اس طرح سے۔۔چائے وائے تو پی لو۔۔ روٹی شوٹی کھانی ہے؟۔۔اسی طرح سے۔۔گاڑیاں میں تیل ویل ڈلوا لو، پٹرول مہنگا ہونے کی اطلاعات ہیں۔۔ بوتل وتل چلے گی؟ برگرورگر مت کھایا کریں۔۔ پیزا ویزا کھاکر پیٹ خراب ہوجاتا ہے۔۔ اس طرح کے اور بھی کئی جملے آپ لوگ سنتے رہتے ہوں گے۔۔ ہمارے یہاں تیل واقعی عالمی منڈی کے نرخوں سے کہیں زیادہ مہنگا ہے۔۔ عمران خان کے دورحکومت میں جب اپریل میں ان کی حکومت رخصت کی گئی تو عالمی منڈی میں تیل ایک سو دس ڈالر فی بیرل تھا اور پاکستان میں ڈیڑھ سو روپے لیٹر فروخت ہورہا تھا جو اس وقت کی اپوزیشن (جو اب حکومت میں آچکے ہیں اور برسراقتدار ہیں)کو بہت زیادہ لگتے تھے۔۔اب عالمی منڈی میں تیل پچھتر ڈالر فی بیرل ہے اور پاکستان میں اس کے ریٹ دوسوپچیس روپے کے لگ بھگ ہیں۔۔یہ تو تھی تیل کی کہانی۔۔ ’’ویل‘‘ پنجابی زبان میں اس رقم کو کہتے ہیں جو بھانڈ ، مراثی، خواجہ سرا اپنی پرفارمنس کے دوران وصول کرتے ہیں، یہ طے شدہ معاوضے کے علاوہ سمجھی جاتی ہے۔۔جس نے بھی تیل کے ساتھ ’’ویل‘‘ کا اضافہ کیا تھا ، ہمارے حساب سے درست ہی کیا تھاکیوں کہ ’’ویل‘‘ بہرحال اوپر کی آمدنی ہے۔
اب خود سوچیں ، ایک غریب مزدور، دیہاڑی دار ملازم اگر اپنی کمائی سے دوسوپچیس روپے لیٹر والا تیل اپنی بائیک میں ڈلوا رہا ہے تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے سے لینے والے صدر، وزیراعظم، وزرا، مشیر، گورنرز، بیوروکریٹس،ججزکو مفت پیٹرول کیوں دیاجاتا ہے؟کیا انہیں تنخواہ نہیں ملتی؟؟ہمارے خیال میں معیشت کی بہتری کے لیے اور آئی ایم ایف کی ذلالت سے چھٹکارے کے اشرافیہ کی اس سبسڈی کو ختم کرنا لازمی ہے۔۔ مثال کے طور پر اگر ملک میں دو لاکھ افراد کو مفت پیٹرول دیا جارہا ہے، ایوریج اگر ماہانہ چارسو لیٹر بھی لگائی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو ماہانہ 80لاکھ لیٹر پٹرول فری دینا پڑتا ہے جس کو خریدنے کیلئے ماہانہ تقریبا 50لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔تمام سیاسی پارٹیوں سے وابستگی اپنی جگہ لیکن اب یہ،ملک کی اشرافیہ کا فری پٹرول بند ہونا چاہیئے۔ملک کی اشرافیہ کا فری بجلی کے یونٹ بند ہونے چاہیئں۔ملک کی اشرافیہ کے فری ہوائی ٹکٹ بند ہونے چاہیئں۔ملک کی اشرافیہ کا یورپ و امریکا میں فری علاج بند ہونے چاہئیں۔ملک کی اشرافیہ کے حکومتی کیمپ آفس ختم ہونے چاہئیں۔ملک کی اشرافیہ کو 6، 8،10 کنال کے گھر الاٹ ہونے بند ہونے چاہیئں۔تمام سرکاری گاڑیاں نیلام ہونی چاہئیں اگر ایک سے 16اسکیل کا ملازم اپنے تمام اخراجات تنخواہ میں پورے کرتا ہے تو تمام ملازمین کو اپنے اخراجات اپنی تنخواہ سے پورے کرنے چاہیئں۔ یقین کریں تمام سرکاری گاڑیاں ویک اینڈ پر نادرن ایریاز میں سیر وتفریح کر رہی ہوتی ہیں۔ غریب قوم کے پیسے سے۔ ملک کے تمام بیوروکریٹس، تمام ججز، تمام اعلی افسران کے ہوائی سفر پر پابندی ہونی چاھییے وہ بھی عام لوگوں کی طرح ٹرین سے سفر کریں۔ فری میڈیسن فری علاج فوری بند کیا جانا چاہیئے۔قربانیاں صرف غریب اور مڈل کلاس طبقہ ہی کیوں دے؟
آج آپ کو بتاتے ہیں، پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود وہ کیا طریقے ہیں کہ جس سے آپ اپنی گاڑی میں ڈالے گئے پٹرول کے پیسے وصول کرسکتے ہیں۔۔پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے پٹرول پمپس سے تیل بھروائیں جنہیں خود کمپنی آپریٹ کر رہی ہے۔ یہ ایک عام بات یہ ہے کہ پرائیویٹ پٹرول ا سٹیشنز پرصارفین کو چونا لگانے کے لیے مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے یا وہاں موجود ماتحت عملہ سرے سے پورا پٹرول ڈالتا ہی نہیں۔اس کے برعکس کمپنی کے اپنے پٹرول پمپس پر آپ کو پٹرول کی مقدار پوری ملنے کی گارنٹی ہوتی ہے۔دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ہمیشہ صبح کے اوقات میں اپنی گاڑی میں تیل بھروائیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موسم جتنا ٹھنڈا ہو، گاڑی میں تیل اتنا ہی زیادہ بھرتا ہے، کیونکہ سرد موسم میں تیل کی کثافت زیادہ ہوتی ہے۔ گرمی میں تیل کی کثافت بہت کم ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں اگر آپ ایک لیٹر تیل بھرواتے ہیں تو حقیقت میں تیل ایک لیٹر سے کم آتا ہے۔سادہ الفاظ میں گرمی کے اوقات میں تیل پھیلتا ہے اور دوسرے اس کے بخارات بن کر اڑنے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ دونوں صورتوں میں صارف کو تیل کم ملتا ہے۔تیسری تدبیر یہ ہے کہ جب بھی تیل بھروائیں، پٹرول پمپ کے عملے سے کہیں کہ وہ مینوئل طریقے سے آہستہ رفتار کے ساتھ تیل بھرے۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نیوزل (پٹرول ڈالنے والا پمپ)کے ساتھ لگے ہینڈل میں تین آپشن ہوتے ہیں۔سست، درمیانی رفتار اور تیز۔تیل ڈالنے والا شخص جس آپشن پر چاہے مشین کو چلا سکتا ہے۔ لہٰذا آپ اسے کہیں کہ آپ کی گاڑی میں وہ سست موڈ پر رکھ کر تیل بھرے۔تیز رفتار پر تیل بھرنے سے صارف کو 2فیصد سے زائد تک کم تیل ملتا ہے۔چوتھی تدبیر یہ ہے کہ اپنی گاڑی کی ٹینکی آدھی سے زیادہ کبھی خالی مت ہونے دیں۔ جب ٹینکی آدھی رہ جائے، اسے فل کروا لیں کیونکہ ٹینکی میں جتنی زیادہ ہوا ہو، تیل کے بخارات بن کر ضائع ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اس طریقے پر عمل کرکے بھی آپ 2فیصد تک تیل کی بچت کر سکتے ہیں۔پانچویں تدبیر یہ ہے کہ بینکوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی طرف سے رعایتی آفرز دی جاتی ہیں۔ ان سے استفادہ کریں۔ کئی بینک اور کمپنی باہم اشتراک سے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز سے تیل بھروانے پر رعایت دیتی ہیں۔ جن سے فائدہ اٹھا کر آپ 7فیصد تک کی بچت کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ڈرائیور اپنی مہارت سے بھی تیل کی 10فیصد سے زائد کی بچت کر سکتا ہے۔ ڈرائیورز کو چاہیے کہ گاڑی کو ہموار اور مستحکم طریقے سے چلائیں۔ ریس لگانے، باربار گیئر بدلنے سے تیل کی کھپت بڑھتی ہے۔ اگر آپ ہائی وے پر تیز رفتاری میں سفر کر رہے ہیں تو گاڑی کے شیشے بند رکھیں تاکہ ہوا کے دباؤ کے باعث گاڑی تیل زیادہ خرچ نہ کرے۔ اس صورت میں اگر آپ گاڑی کا اے سی چلاتے ہیں تو شیشے کھلے رکھنے سے کم پٹرول خرچ ہو گا۔ البتہ اگر آپ شہر میں سست رفتار میں سفر کر رہے ہیں تو شیشے کھلے رکھنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔گاڑی کے ٹائروں میں ہوا کا پریشر بھی تیل کی کھپت کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ٹائروں میں ہوا کم ہو تو گاڑی تیل بہت زیادہ خرچ کرتی ہے۔ چنانچہ ٹائروں میں ہوا کا دباؤ مناسب رکھیں۔ اس کے علاوہ اگر گاڑی میں کوئی اضافی وزن ہے تو اسے نکال دیں۔ گاڑی میں وزن جتنا کم ہو گا ایندھن کی اتنی ہی بچت ہو گی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ موبائل کمپنیاں اگر ہمارے موبائل چیک کر لیں،تو ہمیں ‘معزز ‘صارف کہنا ہی چھوڑ دیں!!خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔