... loading ...
پوری دنیا میں ہرسال 18دسمبر کو اقلیتوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اسی روز1992 میں اقوام متحدہ نے مذہبی، لسانی اور نسلی اقلیتوں کے انفرادی حقوق کے بارے میں ایک ریزولیوشن منظور کیا تھا۔یہ رسم ادائیگی ہمارے ملک میں بھی ہوتی ہے اور اس موقع پر اقلیتوں سے متعلق مسائل زیربحث آتے ہیں۔ اس بار جب ہم اقلیتوں کاعالمی دن منارہے ہیں تو ہمارے یہاں اقلیتوں کی تعلیمی اور ترقی کی راہیں مسدود کرنے کے موضوع پر بحث ہورہی ہے۔دراصل حکومت نے اقلیتی طبقوں کے مالی طورپر کمزور طلباء کی اعلیٰ تعلیم کے لیے شروع کی گئی مولانا آزاد فیلو شپ کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کے خلاف نہ صرف ملک گیر سطح پر احتجاج ہورہا ہے بلکہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اقلیتی امور کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے لوک سبھا میں بتایا تھاکہ مولانا آزاد فیلو شپ چونکہ حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لیے شروع کی گئی دیگر فیلو شپ اسکیموں کے ساتھ متصادم ہے، اس لیے اسے ختم کیا جارہا ہے۔اس اسکیم کے تحت2014سے 2022 کے درمیان چھ ہزار 722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھا، جنھیں اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ کے لیے تقریباً 739کروڑ روپے کی رقم جاری کی گئی۔ظاہر ہے اس فیلو شپ سے کافی تعداد میں تمام ہی اقلیتی طلباء نے فیض اٹھایا، مگر اب اس کے بند ہوجانے کے بعد ان میں کافی مایوسی پھیل گئی ہے۔ اس سے قبل درجہ اوّل سے آٹھویں تک اسکالر شپ اور سول سروسز کی تیاری کرنے والے اقلیتی امیدواروں کے لیے ’نئی اڑان‘ اسکیم ختم کی گئی تھی۔حکومت کے اس فیصلے کی ضرب براہ راست ان اقلیتی طلباء کے مستقبل پر پڑے گی جو مالی مشکلات اور غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہتے ہیں۔
مولانا آزاد فیلوشپ ان اقلیتی طلباء کو فراہم کی جاتی رہی ہے جواندرون ملک کل وقتی طورپر ریسرچ کرتے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت ایم فل، پی ایچ ڈی طلبا کو بھی ریسرچ کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس فیصلے سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دشواری پیش آئے گی، کیونکہ مسلمانوں میں زیادہ غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا یوں بھی مشکل امرہے۔اس سے قبل حکومت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بجٹ میں تخفیف کرچکی ہے۔یہ ادارہ مرکزی حکومت نے ملک کے پہلے وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کی صدی تقریبات کے موقع پر1988میں مسلم طالبات کی تعلیمی ترقی کے لیے قایم کیا تھا۔ بعد کو جب اقلیتی امور کی وزارت قایم ہوئی تو اس کا نظم بھی اسی کے سپرد کردیا گیا۔
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ حکومت کا بنیادی کام سماج کے ان طبقوں کی دست گیری کرنا ہے جو غربت اور مالی مشکلات کے سبب تعلیم کے میدان میں پچھڑگئے ہیں۔ آزادی کے بعد درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے افراد کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن اسی لیے فراہم کیا گیا تھاکہ وہ زندگی دوڑ میں شامل ہوسکیں۔اس ریزرویشن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور آج یہ پسماندہ ترین طبقے مین اسٹریم میں شامل ہوچکے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد دلتوں اور دیگر پسماندہ برادریوں میں جو انتہائی درجہ پسماندگی تھی، اس کی جگہ اب مسلمانوں نے لے لی ہے اور وہ ہرصورت سے اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی حددرجہ بڑھی ہوئی پسماندگی کو دور کرنے اور انھیں مین اسٹریم میں لانے کے لیے انقلابی اقدامات کیے جائیں، لیکن یہ حکومت ایسا کرنے کی بجائے ان کو پہلے سے حاصل شدہ مراعات پر ہی قینچی چلارہی ہے۔ نہ صرف یہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے حصول کو آسان بنانے کی اسکیمیں ختم کی جارہی ہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کو بھی دشوار بنایا جارہا ہے۔جس کی تازہ مثال مولانا آزاد فیلو شپ کا خاتمہ ہے۔
اس حکومت کا بنیادی نعرہ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ہے،لیکن جب ہم اس نعرے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو سخت مایوسی ہاتھ آتی ہے۔ حکومت نے طے کیا ہے کہ وہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر کوئی رعایت نہیں دے گی اور سب کے ساتھ یکساں سلوک روارکھے گی۔ سب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی شناخت ان کی پسماندگی سے زیادہ ان کے مذہب سے قایم ہے۔ حالانکہ اقلیتی امور کی مرکزی وزارت نہ تو مسلمانوں کے لیے وقف ہے اور نہ ہی اس نے اب تک ان کی تعلیمی، سماجی اور معاشی پسماندگی دور کرنے کی راہ میں کوئی انقلابی کام کیا ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ اس وزارت کا قیام یو پی اے سرکار کے دور میں عمل میں آیا تھا اور اس کی بنیاد سچرکمیٹی کی چشم کشا رپورٹ تھی۔ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس آنجہانی راجندر سچر کی قیادت میں بنائی گئی اس کمیٹینیپورے ملک کا دورہ کر کے مسلمانوں کی تعلیمی،سماجی، معاشی اور سیاسی پسماندگی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر یہ انکشاف کیاکہ مسلمان اس ملک کی سب سے زیادہ پسماندہ اقلیت ہیں، لہٰذا اس پسماندگی کو دور کرنے اور انھیں مین اسٹریم میں لانے کے لیے انقلابی قدم اٹھائے جانے چاہئیں، لہٰذااس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جو خود سکھ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے، سچر کمیٹی کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اقلیتی امور کی وزارت قایم کی۔اس کے دائرہ کار میں مسلمانوں کے علاوہ، عیسائی، جین، پارسی اور سکھ اقلیتوں کو لایا گیا۔ایسا اس لیے کیا گیا کہ حکومت پر مسلمانوں کی ’منہ بھرائی‘ کا الزام نے لگ سکے۔جبکہ سبھی جانتے ہیں کہ دیگر اقلیتیں تعلیمی، معاشی،سماجی اور سیاسی میدانوں میں بہت آگے ہیں، لیکن اس کے باوجود اقلیتی امور کی بیشتر اسکیموں کا فائدہ مسلماان ہی کو پہنچا۔لیکنبی جے پی نے اسے ہمیشہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کا ہی نام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد آہستہ آہستہ اقلیتی امور کی وزارت کے پرکترے جارہے ہیں اور اس کا وزیربھی ایک ایسی خاتون کو بنایا گیا ہے جو مظلوم اور محروم طبقات کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں رکھتیں۔ یہاں تک کہ جب سے حج کمیٹی کو وزارت خارجہ سے لے کر اقلیتی امور کی وزارت کے سپرد کیا گیا ہے تب اس کا برا حال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا محسوس ہوتا ہیکہ اقلیتی مور کی مرکزی وزارت جن مقاصد کیتحت قایم کی گئی تھی، وہ اس کے دائرہ اختیارسے باہر کئے جارہے ہیں تاکہ آہستہ آہستہ اس وزارت کی معنویت ہی ختم ہوجائے۔اس وزارت کا دائرہ کار اقلیتی فرقہ کے کمزور طلبا ئ کو اسکالر شپ فراہم کرنے کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے لیے فیلو شپ اور اقلیتی برادریوں میں ہنرمندی کو فروغ دینا تھا تاکہ وہ تعلیم اور ہنر کے ذریعہ اپنی پسماندگی دور کرسکیں۔ یو پی اے کے دورحکومت میں اس وزارت کی کارکردگی کافی اطمینان بخش رہی، لیکن موجودہ حکومت کے دور میں اس کی کارکردگی اس حد تک متاثر ہوئی ہے کہ کہیں اس کا نام تک نہیں آتااور حالیہ عرصہ میں جب کبھی یہ نام منظرعام پر آیا ہے تو اس کا عنوان یہی ہوتا ہے کہ اقلیتی امور کی وزارت نے فلاں اسکالر شپ یا فیلوشپ ختم کردی ہے۔اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں کہ اقلیتی امور کی وزارت کو ختم کردیا جائے گا۔ یوں بھی اس حکومت کی پالیسی اقلیتوں کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے کی نہیں ہے۔برسوں سے حکمراں جماعت کا نعرہ یہ رہا ہے کہ’’انصاف سب کے ساتھ‘ رعایت کسی کو نہیں۔‘‘ یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ یہ حکومت صرف اکثریتی طبقے کی جذباتی تسکین کے لیے کام کررہی ہے اور مسلمان اس کے ایجنڈے میں کہیں نہیں ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان حکومت پر انحصار کم کرکے ازخود اپنے تعلیمی اداروں کو مضبوطی کی تدبیر کریں۔ شادیوں وعالیشان مکانوں کی تعمیر پر ہونے والی فضول خرچی کو قطعی ختم کر کے یہ رقم ان ہونہار طلبائ وطالبات کے لیے وقف کردیں جو مالی مشکلات کے سبب اپنا تعلیمی سفر جاری رکھنے سے محروم ہیں۔مسلمانوں نے اگر اب بھی حکمت سے کام نہیں لیا تو تاریخ انھیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔