وجود

... loading ...

وجود

جسے رہبر سمجھتے ہو، وہ رہزن ہو بھی سکتاہے

پیر 26 دسمبر 2022 جسے رہبر سمجھتے ہو، وہ رہزن ہو بھی سکتاہے

 

بانی پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح جب کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے،تو اُن سے ملاقات کے لیئے ایک دن یحیی بختیار تشریف لائے اور دورانِ ملاقات یحیی بختیار نے قائداعظم کو اپنے کیمرے سے کھینچی ہوئی کچھ تصاویر دکھائیں ۔ قائد اعظم کو یحیی بختیار کی کھینچی ہوئیں تصاویر بے حد پسند آئیں اور قائد اعظم نے اُن سے اپنی بھی کچھ تصویریں کھینچنے کی فرمائش کردی۔ دوسرے دن یحیی بختیار، اپنا کیمرہ اور فلیش لے کر قائداعظم کی قیام گاہ اُن کی تصویریں کھینچنے کے لیئے پہنچ گئے۔ اتفاق سے اُس وقت قائداعظم احادیث پر مشتمل ایک کتاب جس کے سر ورق یعنی ٹائٹل ’’الحدیث‘‘ تھا ،پڑھ رہے تھے۔ یحیی بختیار تصویر کھینچے ہوئے چاہتے تھے کہ وہ قائداعظم کی تصویر ایسے زاویہ سے لیں کہ کتاب کا سرورق بھی واضح طور پر تصویر میں میں آجائے ۔ تاکہ تصویر دیکھنے والے ہر شخص کو معلوم ہوجائے کہ قائداعظم مذہبی کتب کا مطالعہ کس قدر شوق اور ذوق سے فرماتے ہیں ۔ لیکن قائداعظم، یحیی بختیار کے ارادہ کو بروقت بھانپ گئے اور انہوں نے اپنی تصویر کھنچوانے سے پہلے اپنے ہاتھ میں موجود حدیث کی کتاب اُلٹ کر علیحدہ رکھ دی اور یحیی بختیار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایک مقدس کتاب کو اس قسم کی تشہیر کا موضوع بنانا پسند نہیں کرتا‘‘۔
بانی پاکستان کے مذکورہ طرزِ عمل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم ، مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنے سے کس قدر احتیاط اور گریزسے کام لیتے تھے ۔دوسری جانب ہمارے ملک میں، الا ماشاء اللہ ،تمام سیاست دان ہی اپنی ذاتی تشہیر کے لیئے مذہب کا بے دریغ استعمال کرنے کے خبط میں مبتلا ء ہے۔اگر مذہبی جماعتوں کے قائدین اور سربراہ اپنی سیاست کو چمکانے کے لیئے مذہب کا استعمال کریں تو بات پھر بھی کسی حد تک سمجھ میں آتی ہے ۔ کیونکہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان رہنماؤں کا حلقہ اثر زیادہ تر مذہبی خیالات اور رجحانات رکھنے والے پیروکاروں پر ہی مشتمل ہوتا ہے ۔لہٰذا ، دینی جماعتوں کے قائدین کے لیئے مذہبی نعروں سے پاک خالص سیاست کرنا مشکل ہی نہیں، کسی حد تک ناممکن بھی ہے۔ لیکن جب اپنی سیاست اور اقتدار کو طول دینے اور اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے لیئے سیاسی جماعتوں کے قائدین ،میدان ِسیاست میں مذہب کا بے دریغ استعمال کرنا شروع کردیں تو پھر سیاست ، سماجی و سیاسی جدوجہد سے کئی قدم آگے بڑھ کر حق و باطل کی ایک خوف ناک جنگ بن جاتی ہے۔
واضح رہے کہ سیاست اگر حق و باطل کے معرکہ میں تبدیل ہوجائے تو پھر اس جنگ میں برسرپیکار سیاسی قائدین اپنے اپنے کارکنان کے نزدیک مقدس ہستیاںقرار پاتی ہیں اور جب سیاست دان ،عوامی خدمت گار کے بجائے’’ خدائی خدمت گار‘‘ کی حیثیت اختیار کرلیں تو پھر اُ ن کی انتظامی و سیاسی کارکردگی پرکوئی نقطہ اعتراض یا سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا۔جبکہ ’’خدائی خدمت گار ‘‘بن جانے والے سیاست دان کی بڑی سے بڑی ناکامی بھی سیاسی کامیابی اور اُس کی حاصل کردہ چھوٹی سے چھوٹی کامیابی ،ایک فقید المثال سیاسی کارنامہ کہلاتی ہے ۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ’’خدائی خدمت گار ‘‘ مقبولیت کے سر پٹ دوڑتے گھوڑے پر سوار ہوکر سیاست کے ساتویں آسمان پر جاپہنچتا ہے اور اُس کے حریف عامی سیاست دان زمین پر کھڑے ہوکر بھی اہل ِ زمین کے طعن و تشنیع اور تنقید کا نشانہ بن رہے ہوتے ہیں ۔
ویسے تو پاکستانی سیاست میں ابتداسے ہی ہر سیاسی جماعت کے قائد نے اپنے تئیں مذہب کو ذاتی تشہیر اور سیاسی کامیابی کے لیئے بھرپور انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے ۔مگر کوئی بھی پاکستانی سیاست دان، دین کا سیاست میں استعمال کر کے اُس مقامِ جلیلہ تک نہیں پہنچ سکا تھا ،جہاں آج پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان پہنچ چکے ہیں ۔ بظاہر کہنے کو پاکستان تحریک انصاف ایک خالص سیاسی جماعت ہے مگر اس جماعت کے کارکنان اپنے رہنماکے ہر سیاسی نعرے اور موقف پر بالکل ویسے ہی آمنا و صدقنا کہتے ہیں ۔جیسے کسی مذہبی جماعت کے پیروکار اپنے رہنما کی کہی گئی ہوئی بات کو حرف ِ آخر سمجھ کر اُس پر لبیک کہا کرتے ہیں ۔ بلکہ بعض سیاسی معاملات کی اندھی تقلید میں تو پی ٹی آئی کے کارکنان مذہبی جماعتوں کے پیروکاروں سے بھی ایک قدم بڑھ کر اپنے رہنما کے ساتھ باہم منسلک دکھائی دیتے ہیں ۔
مثال کے طو رپر تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ٹی آئی نے ایک ملک گیر سیاسی تحریک کا آغاز کیا جس میں سابق وزیراعظم عمران خان نے خاص طور پر ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ‘‘کی قرآنی آیت ، جس کا مطلب نیکی کی تبلیغ اور برائی کو روکناہے ،کو بنیادی عنوان قرار دیا ۔ جس کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کے جملہ کارکنان نے اپنی دانست میں یہ فرض کرلیا ہے کہ اُن کے مخالف جو بھی سیاسی قوت کھڑی ہوگی ،وہ سراسر برائی ہے ۔لہٰذا ،وہ اُسے اپنے زورِ بازوسے روک کر ہی دم لیں گے۔ اَب چاہے اُس کے لیئے اُنہیں کسی بھی قسم کی اخلاقی و سیاسی حدودکو پار کرنا پڑے اور اپنے اِس ہدف کو عوام میں زیادہ سے زیادہ مہمیز دینے کے لیئے تحریک انصاف اپنے ہر جلسہ کا تھیم بھی ’’امر بالمعروف ‘‘ رکھتی ہے۔
بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کے ووٹ بنک کوحاصل کرنے کے لیئے پاکستانی سیاست میں مذہب کو ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کررہی ہے اور اپنی اِس بات کو درست ثابت کرنے کے لیئے تجزیہ کار ،قومی ذرائع ابلاغ میں زیر گردش ایک واقعہ کو بطور دلیل اور مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ جس وقت کابینہ اجلاس میں سابق وزیراعظم عمران خان رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے کی منظور ی دے رہے تھے تو دورانِ اجلاس عمران خان کے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں نے ان سے پوچھا کہ’’ آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے ہوتے ہوئے، اس موضوع پر ایک نئی اتھارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟‘‘تو سابق وزیراعظم عمران خان کا فوری جواب تھا کہ ’’دیکھیں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے پاس کتنے لاکھوں کا ووٹ بینک موجود ہے، ہم صرف اس ووٹ بینک کو کیپ چر (اپنی طرف راغب) کرنا چاہتے ہیں‘‘۔جب ایک سیاست دان کی نگاہیں مذہبی جماعتوں کے ووٹ بنک پر مرکوز ہوجائیں تو پھر اُس سیاسی جماعت کی ساری سیاست مذہب کے گرد ہی گھومتی ہے ۔جبکہ وہ سیاست دان اپنے کارکنان کے لیئے ایک ایسی مقدس شخصیت بن جاتاہے ،جس کے کسی بھی اچھے یا بُرے طرز عمل پر سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ایسے سیاست دان کو آپ چاہے کچھ بھی کہہ لیں لیکن قائد اعظم ثانی بہرحال کسی صورت بھی نہیں کہہ سکتے ۔کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح مذہب کو ذاتی تشہیر کے لیئے استعمال کرنے کے سخت مخالف تھے۔
سیاست نقلی نوٹوں کی طرح دھوکے سے چلتی ہے
جسے رہبر سمجھتے ہو ، وہ رہزن ہو بھی سکتاہے
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر