وجود

... loading ...

وجود

بدترین معاشی وسیاسی بحران

بدھ 21 دسمبر 2022 بدترین معاشی وسیاسی بحران

اِس وقت ملک بدترین معاشی وسیاسی بحران کاشکار ہے لیکن معاشی ماہرین ہیں یا سیاستدان، سبھی اپنی ذمہ داریوں سے صرفِ نظر کررہے ہیں سیاستدان تو ہرقت دائو کی تاک میں ہیں جسے جہاں مفاد محسوس ہوتا ہے وہیں بیانیہ تک بدل لیتا ہے ملک کی معیشت جس طرح تباہی کے دہانے پرجا پہنچی ہے اُس کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام جماعتیں اور سیاستدان وقتی طورپر اختلافات بالائے طاق رکھ کر معیشت کی بحالی کے یک نکاتی نُکتے پر سرجوڑ کر بیٹھیں اور وطنِ عزیز کو معاشی بحران کے گرداب سے نکالیں لیکن ملک دیولیہ ہو یا اشیائے ضروریہ کی درآمد کے لیے بھلا ادائیگی تک کے لیے پاس کچھ نہ ہوکسی کو کوئی فکر یا احساس تک نہیں ایک گروہ ہر صورت اپنی حکومت برقرار رکھنا چاہتا ہے ایسے حالات میں جب بندرگاہوں پر روزمرہ اشیا سے بھرے جہازکھڑے ہیں اور ہمارے پاس ادائیگی کے لیے ڈالر تک نہیں علاوہ ازیں اگلے تین برسوں کے دوران بیرونی قرضوں کی مدمیں بتیس سے چونتیس ارب ڈالرکی بھاری ادائیگیاں کرنی ہیں جس کابندوبست ہوتانظر نہیں آتا مگرعوام کومعاشی بحالی کی ایسی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں جن کا حقیقت سے دورکا بھی واسطہ نہیں جبکہ دوسرا گروہ چاہتا ہے کہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل اور نئے انتخابات کرائے جائیں اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جب روزمرہ اشیاخریدنے کے لیے ڈالر نہیں نیزبھاری ادائیگیوں کا بلند ترین پہاڑ سر پرہے اِن حالات میں کیا ملک فوری طورپر ستر سے اسی ارب روپیہ انتخابات کی نظر کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے ظاہر ہے مخدوش مالی حالات کی بناپرایسا سوچنے یا کرنے کو حماقت کے سواکوئی اور نام نہیں دے سکتے اِس لیے حکومتیں برقرار رکھنے اور فوری طورپر انتخابات کے متمنی دونوں گروہوں کو چاہیے کہ زاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک کی بہتری کے لیے ایک ہو جائیں اور مل بیٹھ کر بدترین معاشی وسیاسی بحران کے خاتمے کے لیے وسیع ترمکالمہ کریں نیز غیرضروری درآمدات اور اخراجات ختم کرنے کی تدبیر سوچیں تو نہ صرف معاشی بحران کم ہو سکتا ہے بلکہ سیاسی استحکام کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے بشرطیکہ خلوصِ نیت کا مظاہرہ کیا جائے اگر گروہی مفاد سے بالاتر ہوکر ملک کے بارے سوچا نہیں جاتا تویا د رکھیںیہ سیاستدانوں کی بالغ نظری نہیں ہوگی بلکہ اِس طرح وہ رہی سہی اپنی ساکھ سے بھی تہی دست ہوسکتے ہیں۔
ملک کو عدمِ استحکام سے دوچار کرنا مرے کو مزید مارنے کے مترادف ہے عمران خان کا خیال ہے کہ اگر کے پی کے اور پنجاب کی دونوں اسمبلیاں بیک وقت توڑ دی جائیں تو عام انتخابات یقینی ہیں وہ موجودہ حکومتی سیٹ اَپ کا زمہ دارسابق عسکری سربراہ قمرجاوید باجوہ کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ سچ یہ ہے کہ پنجاب ،کے پی کے ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی اور اُس کی اتحادی جاعت کی حکومتیں ہیںاگربقول عمران خان حکومتوں کی تشکیل میں سابق عسکری قیادت کا ہاتھ ہونے کے الزام کو درست تصور کر لیا جائے تو اِس حقیقت کو کوئی بھی جھٹلانہیں سکتا کہ ملک کے بڑے حصے پرآج بھی عمران خان اور اُن کے اتحادیوں کی حکومت ہے کیونکہ بلوچستان میں مختلف جماعتیں شریکِ اقتدار ہیں پی ڈی ایم تو محض وفاق اور سندھ کی حدتک اقتدارمیں ہے عمران خان اپنے ایامِ حکمرانی کے آخرمیں اتحادی الگ ہونے کی بناپرہی اقتدار سے محروم ہوئے اب واحد اتحادی رہ جانے والی ق لیگ سے بھی دوریاں پیداہونے لگی ہیں جس کی وجہ ہرجگہ بغیر سوچے سمجھے سابق عسکری سربراہ کو تنقید کا نشانہ بناناہے یادرہے اُن کی مدتِ ملازمت کی توسیع میں تمام جماعتیں متفق اور کوشاں رہیں اسی لیے اب تنقید پرکچھ حلقے حیران اور اِس عمل کو بلاجواز قراردیتے ہیں یہ حلقے جاننا چاہتے ہیںکہ اگر خرابیاں تھیں تو عہدے پر برقرار رکھنے کی نوازش کن وجوہات کی بناپر کی گئی؟ اِس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیںسکتا کہ ملک کو جب بھی مالی ضرورت پڑی اور حکمران بے بس ہوئے تو جنرل باجوہ نے سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور چین جیسے ممالک کے خود دورے کیے اورملک کی مالی ضرورت پوری کرائی انھوں نے ہمیشہ ملکی مفاد پیشِ نظر رکھااسی بناپر حالیہ تنقید کو محب الوطن حلقے ہضم کرنے سے قاصر اور مضطرب ہیںمشاورت سے ٖفیصلے کرنے یااتحادی جماعت کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے اکیلے فیصلہ کرنے کی علت عمران خان کو سیاسی طورپر تنہا کرتی جارہی ہے قمرجاوید باجوہ کو ہدفِ تنقید بنانے پر چوہدری پرویز الٰہی غصے میں کئی ایسی سخت باتیں کرگئے جن کی اُن سے کسی کو توقع نہ تھی اسی وجہ سے اب پی ٹی آئی اور ق لیگ کا اتحاد مزید چلنا فہمیدہ حلقے معجزہ قراردیتے ہیں بلکہ یہ اتحادکسی بھی وقت پنجاب تک میں ختم ہونے کا امکان ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو عمران خان کی مقبولیت اپنی جگہ،لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ عمران خان کسی کو ساتھ لیکر چل ہی نہیں سکتے یہ سوچ مقبولیت بڑھانے کا باعث تو ہر گز نہیں بن سکتی۔
پنجاب میں کھیل انتہائی دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گیا ہے یہاں حکومت اسمبلی توڑناچاہتی ہے جبکہ اپوزیشن اسمبلی بچانے پرکمربستہ ہے عمران خان لبرٹی چوک لاہور میں جلسے سے خطاب کے دوران 23دسمبرجمعہ کوپنجاب اورکے پی کے اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے لیے وزرائے اعلٰی نے دستخط شدہ تحریر انھیں دے رکھی ہیں مگر اعلان پر عملدرآمد ہونے سے قبل ہی گورنر نے صوبائی وزیرحسنین بہادردریشک کی ناراضگی اور استعفے ،پی ٹی آئی چیئرمین کو لاعلم رکھ کر خیال کاسترو کو وزیربنانے نیز اپنی پارٹی کے سربراہ کا اعتماد کھونے کو بنیا د بنا کر آئین کے آرٹیکل 130(7)کے تحت نہ صرف پنجاب اسمبلی کا اجلاس اکیس دسمبر بدھ شام چاربجے طلب کر لیاہے بلکہ قائدایوان کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کی بھی ہدایت کردی ہے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپوزیشن نے تحریکِ عدمِ اعتمادبھی جمع کرادی ہے مگر یہاں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک عنایت اللہ لک کی طرف سے وصول کرنے پر لوگ کافی حیران ہیں وہ رات ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ اسمبلی کِس کام سے آئے؟ کیونکہ رات کا یہ وقت ایسا ہے جب اسمبلی ملازمین تک گھروں کو جا چکے ہوتے ہیں لیکن عنایت اللہ لک کو کیا مجبوری آن پڑی تھی کہ نہ صرف خود پنجاب اسمبلی پہنچے بلکہ عدمِ اعتماد کی تحریک بھی خود وصول کی مزید قابلِ زکر بات یہ ہے کہ عنایت اللہ لک مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعدسبکدوش ہوئے تو خاص طورپرنظرِ عنایت کرتے ہوئے وزیرِ اعلٰی نے اُنھیں ایک برس کی توسیع دے دی جس کا مطلب ہے وہ کافی باعتماد ہیںوگرنہ ایسی نوازشات ناقابلِ فہم ہیں اسی لیے اِن قیاسات کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک پیش ہونے سے پنجاب حکومت لاعلم نہیں بلکہ جو بھی ہورہا ہے بقول صحافی کہیں نہ کہیں رضامندی شامل ہے اب اگر پی ٹی آئی ووٹ نہیں دیتی اور قائدِ ایوان اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہتے ہیں تو نہ صرف اُنھیں اتحادتوڑنے کا جواز مل جائے گا بلکہ وہ اپناسیاسی وزن دوسری طرف ڈال کر دوبارہ وزیرِ اعلٰی بن سکتے ہیں اور اگرووٹ دینے کا کڑواگھونٹ پی لیتی ہے تو ووٹ لے کر بھی اسمبلی نہیں توڑی جاتی تب بھی پی ٹی آئی ہی خسارے میں رہے گی اِس اعتماد اور بداعتمادی کے کھیل میں حلیف اور حریف شاید بدل جائیںمگراِس میں شائبہ نہیں رہا کہ سیاسی چالیں چلتے ہوئے سیاستدان ملک کی معاشی صورتحال کویکسر فراموش کر چکے ہیں جو ملک و قوم کی بدقسمتی ہے قوم کے حقیقی مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے سیاسی قیادت نے اپنی ساری توجہ اقتدار چھیننے اور برقرار رکھنے پر دے رکھی ہے جسے ملک وقوم کی خدمت ہرگز نہیںکہہ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر