وجود

... loading ...

وجود

معاشی جادوگری کی ضرورت

بدھ 07 دسمبر 2022 معاشی جادوگری کی ضرورت

معیشت کو خطرات کے بھنورسے نکالنے کے لیے ایسی معاشی جادوگری کی ضرورت ہے جو آمدن کے ذرائع میں بہتربنائے تاکہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات ملے اسحاق ڈار کے آنے سے توقع تھی کہ ایسا ہوگا مگر اُن سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو سکیںبلکہ ہر آنے والا دن گزرے دن سے ابتر ہوتاجارہا ہے اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنے اطوار نہیں بدلے بلکہ سب کچھ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے غیر متوقع اور تباہ کُن سیلاب نے تیس ارب ڈالر کا نقصان کیاہے رہائشی مکانات گرنے اور کم ہوتی زرعی پیدوار جیسے نقصانات کا مدوا کرنے کے لیے جس صدقِ دل سے کام کرنے کی ضرورت تھی تاکہ متاثرین کی بحالی ہو سکے اُس کافقدان ہے اسی بناپر ابھی تک بحالی کاکام ادھورا ہے خوراک میںخود کفالت سے محروم ہونے کا تقاضاتھاکہ غیر آباد کھلیان کو کاشت کے قابل بنایا جاتا مگرہویہ رہا ہے کہ زرعی رقبہ رہائشی کالونیاں نگلتی جا رہی ہیں لیکن صاحبانِ اقتدار ہنوزایسا کوئی طریقہ کار نہیں بناسکے جس سے تیزی سے کم ہوتے زرعی رقبے کی رفتار پر قابوپایا جا سکے اِس لاپرواہی کی وجہ سے پاکستان جیسے زرعی ملک کا اربوں ڈالر چینی ،گندم ،خوردنی تیل جیسی اجناس درآمدکرنے پر خرچ ہورہاہے بڑھتے درآمدی بل کے باوجود ذمہ داران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نقصان برداشت کررہے ہیں اگر خوراک میں خود کفالت ہی حاصل کر لی جائے توکسی حدتک معاشی دبائو کم ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کواگلے تین برس کے دوران بیرونی قرضوں کی مد میں تہتر ارب ڈالر کی بھاری بھرکم ادائیگیاںں کرنی ہیں صرف 2022,23میں بتیس سے چونتیس ارب ڈالر بیرونی قرض کی صورت میں ادا کرنے ہیں مگر زرِ مبادلہ کے ذخائر پر نظرڈالیں تو ادائیگیوں کے عشر عشیر بھی نہیں اِس لیے ادائیگیوں سے بچنے کے لیے بیرونی قرضوں کو ری شیڈول کرانے کے لیے بھاگ دوڑ کرنا پڑے گی فوری طورپرا داکرنے والے ستائیس ارب کے بیرونی قرضوں میں چین کے بھی 23ارب ڈالر شامل ہیں علاوہ ازیں پاکستان کو توقع ہے کہ اگلے برس کے دوران کچھ دوست ممالک اور چند ایک عالمی اِداروں سے بائیس ارب ڈالر کی مالی معاونت حاصل ہو جائے گی اِس میں سعودی عرب ،چین اور متحدہ ارب امارات کے اسٹیٹ بینک کے پاس رکھوائے ڈیپازٹ تک شامل ہیںآئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق قرضے جی ڈی پی کے اسی فیصد تک ہو چکے ہیں یہ خطرے والی صورتحال ہے جسے بہتر کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر آمدن کے ذرائع بڑھانا ہوں گے تاکہ اسی فیصد ہونے والے بیرونی قرضے 2027تک جی ڈی پی کے ساٹھ فیصد تک لائے جا سکیں مگر اِس حوالہ سے جس جادوگری کی ضرورت ہے اُس حساب سے کام ہو تا نظر نہیں آرہاآج بھی شاہ خرچیاں جاری ہیں بے مقصد بڑے بڑے وفودبیرونِ ملک لے جانے کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ معاشی بہتری کے لیے اخراجات کم کرتے ہوئے بچتوں پر توجہ دی جائے اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے۔
حکومت نے گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل سکوک بانڈ کی ایک ارب ڈالر ادائیگی سے ملک کو دیوالیہ کے خطرات سے چاہے وقتی طور پرہی سہی نکال لیا ہے ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے اسٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں 1,5ارب ڈالر جمع کرانے سے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں معمولی حد تک بہتری دیکھنے میں آئی ہے مگر جب تک قومی آمدنی بڑھانے کے لیے معاشی استحکام اور پائیدار منصوبوں پر توجہ نہیں دی جاتی معاشی استحکام کی منزل حاصل ہونا محال ہے ہر آنے والی حکومت نے ملک کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی بجائے قرضوں کے زریعے ہی امورِ مملکت کی انجام دہی کی یہی حکمتِ عملی اور تن آسانی ملکی معیشت کو بے ڈھب کرنے کی اہم وجہ ہے وزیرِ اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ اگر پن بجلی اور شمسی توانائی پر توجہ دی جاتی تو آج ہمارا ایندھن کا بل 27 ارب ڈالر نہ ہوتا مگر یہ بات کرتے ہوئے شاید اُنھیں یاد نہیں رہا کہ اُن کے برادرِ اکبر نوازشریف 1983سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے مسلسل اقتدار میں ہیں سب کی غلطیوں کا خمیازہ آج ملک معاشی گرداب میں دھنستا جا رہا ہے ستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی پالیسی تبدیل نہیں کی گئی حالانکہ وقت ضائع کیے بغیر ایسی معاشی جادوگری کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف دیوالیہ کے خطرات ختم ہوں بلکہ معاشی طور پر مضبوط اور خوشحال ہونے کی منزل حاصل کی جا سکے۔
بیرونی قرضوںکاحجم 2015میں پینسٹھ ارب ڈالر تھاجو گزشتہ مالی سال میں 130ارب ڈالر ہو گیا جس سے عیاں ہوتا ہے کہ رواں دہائی میں ملکی آمدن میں اضافہ کرنے کی بجائے بیرونی قرضوں پر ہی انحصار کیا گیا اسی وجہ سے قرضوں کا بوجھ معیشت کے لیے ناقابلِ برداشت ہواعجیب اور شرمناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی معیشت کا بڑا حصہ غیر دستاویزی ہے اور ٹیکس وصولی کی شرح دنیا میں کم ترین ہے آمدن کے حوالے سے بات یہاں تک ہی محدودنہیں گزشتہ سات برسوں میں ملکی برآمدات میں تو محض تیرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا مگر درآمدات میں بڑھوتری پچاسی فیصد ہوچکی ہے اِس خوفناک فرق کوکم کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کی بجائے سیاسی قیادت نے غیر ملکی قرضوں پرہی انحصار رکھا جس سے قرضوں کا پہاڑ کل معیشت کے قریب آتاگیا اور ادائیگی بساط سے باہر،اب اسحاق ڈارکی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہوئے کچھ جادوگری کا مظاہرہ کریںتاکہ وطنِ عزیز پر دیوالیہ ہونے کے خطرات کا خاتمہ ہو حالات کا تشویشناک پہلو تو یہ ہے کہ حکومت کے حامی مفتاح اسمعٰیل جیسے لوگ بھی اب تو معاشی ابتری کی جانب اشارہ کرنے لگے ہیں یہ اعتراف ثابت کرتا ہے کہ معاشی بہتری کے حکومتی دعوئوں میں صداقت نہیں بلکہ معاشی حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں ۔
ایسے حالات میں جب ملک پر معاشی طورپر دیوالیہ کے خطرات منڈلارہے ہیںسیاسی قیادت نے رویے تبدیل نہیں کیے پائیدار معاشی بہتری کے لیے عملی طور پر کام کرنے کی سخت ضرورت ہے مگرسیاسی قیادت کام کی بجائے آج بھی محض الزام تراشی میں مصروف ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملک کی آج جو بھی معاشی حالت ہے اِس کی سبھی سیاسی قیادت زمہ دارہے کوئی ایک بھی بری الزمہ نہیں مگر سب ایک دوسرے کو زمہ دارٹھہراتے ہیں
عالمی مارکیٹ میں ملکی بانڈز قد رکھو رہے ہیں جن پر CDSرسک پریمیم جو کبھی صرف چھ فیصد تھا تیس کے بعد پچاس اور اب تو بانوے فیصد سے تجاوز کر گیا ہے اِس کا مطلب ہے کہ عالمی سطح پر ہماری معیشت اعتبار سے محروم ہو رہی ہیں بینکوں نے نئی ایل سی کھولنا تک بند کردی ہیں اور آئی ایم ایف نے حکومتی اخراجات کم نہ کرنے اور ٹیکس اہداف پورے نہ کرنے کی پاداش میں قرض کی نئی قسط بھی روک لی ہے جس کی وجہ سے ڈالر کی کمی واقع ہورہی اور بیرونی ادائیگیوں میں عدمِ توازن بڑھ رہا ہے اگر فوری قدامات کے طورپر ڈالر کے ساتھ متبادل کے طورپر دیگر کرنسیوں میں تجارت کی جائے اور غیر ضروری اخراجات کم کرنے اور ٹیکس وصولی کی شرح بہتر بنانے پرتوجہ دی جا ئے نیز خوراک میں کھوئی خود کفالت کی منزل دوبارہ حاصل کرلی جائے تو قرضوں میں ڈوبے ملک کو خوشحال بنانا مشکل نہیں مگر شرط یہ ہے کہ بیرونی قرض پر انحصار کی پالیسی ترک اور ہر شعبے میںخود کفالت پر توجہ دی جائے اب اسحاق ڈار کیا معاشی جادوگری دکھاتے ہیں؟ قوم منتظرہے فی الحال توحکومتی ساکھ کی وجہ سے ترسیلاتِ زر میں 9فیصد کمی آچکی ہے اور ملک کو بیرونی سرمایہ کاری اور روپے کی قدرمیں سخت کمی کا سامنا ہے تجارتی خسارہ خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے ایسے حالات میں کوئی معاشی جادو گرہی ملک کو معاشی مسائل سے نکال سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر