... loading ...
ؑعوام بڑھتی ہوئی مہنگائی ،پٹرول اور بجلی کی ناقابل برداشت قیمتوں سے تنگ ہیں غربت میں اضافہ ہورہاہے ملکی معیشت شدید ترین دبائو میں ہے ا س صورت حال کا خاتمہ بنیادی عوامی خواہش ہے مہنگائی کا کاخاتمہ اور معیشت کی بحالی ہی قومی ترجیح ہوسکتی ہے ملک کا مفاد اور اور دفاع بھی اسی ترجیح سے وابستہ ہے افسوس یہ ہے کہ اس کے برخلاف اس وقت ایک مرتبہ پھر انتہائی بے ہنگم انداز میں وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کے بعض انٹرویوز کے ذریعے ایک مخصوص شخصیت کی غیر ضروری صفائی پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی جس کے مطلوبہ نتائج خود اس شخصیت ،وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک اہم ادارے کے لیے
مزید خرابی پیداکرہے ہیں سب کو معلوم ہے کہ اس خاص ایجنڈے کا کچھ بھی نتیجہ نہ نکلے گابلکہ بدنامی میں اضافہ ہوگا خود ان کے لیے بہتر ہے کہ اس قسم کی میڈیا مہم سے اجتناب کیا جائے گذشتہ آٹھ ماہ کا جائزہ لیا جا ئے تو یہ بات مکمل واضح ہے کہاموجودہ حکومت اپنے قیام کے آغاز سے ہی منہ کے بل آگری ہے پہلے ہی ماہ میں سعودی عرب میں حکومتی وفد کے خلاف عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا ،عدلیہ سمیت دیگر اداروں کے کردار پر انگلیاں اٹھ گئیںپی ڈی ایم نے اپنی حکومت کی کارکردگی کے بجائے تحریک انصاف کے خلاف میڈیا مہم شروع کردی جس کا بھرپور فائدہ تحریک انصاف نے اٹھایا اور مخالفانہ مہم کو بھی اپنی مقبولیت کاذریعہ بنا لیا تحریک انصاف کے سربراہ یہی چاہتے تھے کہ وہ موضوع بحث رہیں اور اپنے حامیوں میںایک زبردست جوش اور ولولہ پید کر دیں پی ڈی ایم ہر موڑ پر یہ ثابت کرتی رہی کہ وہ عمران خان کو اس نظام سے باہر نکا لنا چاہتی ہے عمران خان کے خلاف اس مہم میں وہ اس پورے نظام کو بے نقاب کرتے جارہے ہیںالٹی نالی کی بندوقوں سے فائر کر رہے ہیں اور اپنے آپ پر گولیان برسارہے ہیں جس کی وجہ سے
بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کی ساکھ خراب ہوگئی سورما قسم کے مبصرین داغدار ہو گئے اب وہ سچ بولتے ہیں توبھی کوئی یقین کرنے کو تیار نہیںہے ان کی سب سے بڑی غلطی عمران خان کو ہدف بناناہے عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت ایک غیر اہم ،سطحی اور ثانوی مسئلہ ہے اصل مسئلہ عوام کے اپنے مسائل ہیں وہ سستی بجلی ،سستا پٹرول اور روز مرّہ کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی چاہتے ہیں دوسرا مسئلہ خود حکمراں اتحاد کی ترکیب ہیئت کا ہے کہاں پیپلز پارٹی کا نظریہ جسے کسی حد تک سیکولر کہا جاسکتاہے اور کہاں مولانا فضل ا لرحمان کی جے یو آئی کے بظاہر نفاذشریعت کے دعوے اور ان کی سندھ میں ان کی ہر سطح پر کہیں ظاہری اور کہیں اندرون خانہ پیپلز پارٹی کا صفایا کرنے کی مسلسل مہم جوئی جو آج بھی جاری ہے پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنوں یا ایک روشن خیال سوچ ر کھنے والے کے اس جگاڑ کوتسلیم کرنا مشکل ہے۔
جے یو آئی کے حامیوں کے لیے بھی یہی مشکل ہے کہ وہ ایک سیکولر نظریے کے ساتھ ہیں ا یم کیو ایم کے حامی بھی اس اتحاد سے مطمئن نہیں ہیںپیپلز پارٹی کی بی ٹیم کے طور پر ان کی پہنچان ان کے لیے مشکلات پید اکررہی ہے سب سے زیادہ نقصان خود مسلم لیگ ن کو ہورہا ہے وہ کسی صورت بھی مریم نوازکے مقابلے میں بلاول بھٹو کو ترجیح نہیں دیں گے پنجاب عملاً ان کے ہاتھ سے نکل چکاہے پنجاب کی سطح پر وہ ایک موثّر حزب اختلاف کا کردار ادا نہیں کرسکے پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کے حامی یا تو خاموش اور مایو س ہیں یا وہ پی ٹی آئی کی جانب مائل ہورہے ہیں پی ڈی ایم کی جماعتیں تیز رفتاری سے زوال پذیر ہیں ان کی حکمت عملی عمران خان سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے جو کہ ایک منفی طرز عمل ہے معیشت کی بحالی اور مہنگائی کے خاتمے کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے پیپلز پارٹی اپنی جماعت کو قومی سطح پر موثّر بنانے میں ناکام ہے بلکہ اندرون سندھ بھی کمزور ہورہی ہے غریب اور امیر کی بڑی جنگ کا خطرہ بڑھ رہا ہے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف بحالی معیشت اور امور مملکت کو بہتر انداز سے چلانے میں ناکام ہیںمسلم لیگ کی کوشش ہے کہ نوازشریف کو پاکستان بلا کر وزیر اعظم بنایا جائے ایسی صورت میں نئے فارمولے کے تحت شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب ہونگے پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی گرفت کے لیے ایک نئی ایم کیو ایم بنانا چاہتی ہے جس کا عملی کنٹرول پی پی اور آصف زرداری کے پاس ہوگا جس کی در پردہ کوششوں میں اب تک ناکامی ہوئی ہے ایک نیا فارمولہ تحریک انصاف کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے جس میں جہانگیر ترین مرکزی کردار کے طور پر سامنے آسکتے ہیں اس طرح کی کوشش سے نظام کمزور ہوگا اور سارا ملبہ اداروں پر آگرے گا۔
خفیہ محلاتی منصوبے بنانے کازمانہ بیت گیا ہے آج کے دور میں کسی چیزکو خفیہ رکھنا بہت مشکل ہے موجودہ حالات میں مہنگا ئی ،بیروزگاری اور گرتی ہوئی معیشت سے عوامی غم وغصہ حکومت کے خلاف ہوگا عمران خان کووزیراعظم کے عہدے سے ہٹانے سے قبل یہ خیال کیا جارہا تھا کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد بلاول بھٹو وزیر اعظم بن سکتے ہیں لیکن عدم اعتماد کے بعد صورت حال بدل گئی عوام میںپی ڈی ایم کے اتحاد اور دیگر جماعتوں پر مشتمل حکومت کو پذیرائی نہیں ملی ووٹ بنک کا زوال شروع ہوگیا جو اب تک جاری ہے یہی حالات رہے تو موجودہ سیاسی ڈھانچہ برقرار رکھنا مشکل ہوگا پی ڈی ایم کی جماعتوں کو خود پر بھی اعتماد نہیں ہے وہ اس تصور پر یقین رکھتی ہیں کہ کسی عالمی طاقت اور ملکی اداروں سے ساز باز ے بغیر انہیں اقتدار نہیں ملے گا یہ تصور اس قدر غالب آگیا کہ ان جماعتوں نے عوامی حمایت کو کوئی اہمیت نہ دی اور یہ سمجھنا شروع کردیااس کے بغیر بھی کام چل جائے گا نتیجہ یہ ہو کہ وہ ان سہاروں پر تکیہ کرنے لگے اس قدر دیگر طاقتور حلقوں پر دارمدار کا نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف حاوی ہوتے چلی گئی اب ایک میڈیا مہم میں ہائے عمران ہائے عمران کے ذریعے میڈیا کو تباہ کر کے پی ٹی آئی کو موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ بعض بڑے میڈیا گروپ کو آسانی سے جھوٹا اور محض دولت کا پجاری ثابت کرسکے اس ساری صورت حال سے معاشرے کی مجموعی خرابی بھی بے نقاب ہورہی ہے اب اگر بلاول بھٹو نے وزیر خارجہ کے عہدے کو اپنے وزیر اعظم کے عہدے پر ترجیح دی ہے تو انہیں مسلم لیگ ن کی ناکامیوں کے بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے اور اپنی جماعت کی لبرل جمہوری شناخت کو برقرار رکھنا چاہیے مولانافضل الرحمان،شہباز شریف کے سایہ تلے رہے تو ان کا سیاسی قد نہیں بڑھے گا کاش کہ وہ اس اتحاد سے دور رہ کر اپنی انفرادی شناخت برقرار رکھتے جس جال میں وہ پھنس گئے ہیں اس میں اپنی ساکھ کو خراب ہونے سے بچانا مشکل ہے مسلم لیگ ن کی مثال یہ ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔