... loading ...
اختلاف رائے جمہوریت کا سب سے بڑا حسن ہے۔ جمہوریت ان ہی ملکوں میں پروان چڑھی ہے جہاں اختلاف رائے کو برداشت کیا گیا ہے، جبکہ ان ملکوں میں جمہوریت نے دم توڑدیا ہے جہاں مخالف آوازوں کو دبانے یا کچلنے کی کوششیں کی گئیں۔ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اوریہاں جمہوری قدریں پروان چڑھنے کا بڑا سبب یہی ہے کہ مخالف آوازوں کواہمیت دی گئی‘ لیکن ادھر کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ یہاں اختلافی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ حکمراں طبقے کی یہی کوشش ہے کہ صرف اس کی ہی آوازسنی جائے اور وہ تمام آوازیں خاموش کردی جائیں جواس سے اختلاف رکھتی ہیں۔ گزشتہ ہفتے دوایسے واقعات رونماہوئے ہیں جوجمہوری قدروں اور اظہار رائے کی آزادی کے لیے خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ پہلا واقعے کا تعلق فلم انڈسٹری سے ہے اور دوسرے کاالیکٹرانک میڈیا سے۔ فلم اور میڈیا دونوں کاہی تعلق چونکہ اظہاررائے کی آزادی سے ہے، اس لیے ہمیں اس موضوع پر قلم اٹھانے پرمجبور ہونا پڑا۔
پہلا واقعہ گوا میں جاری بین الاقوامی فلم فیسٹیول سے تعلق رکھتا ہے جہاں اس کی جیوری کے سربراہ کی حق گوئی کے جرم میں ان کی زبا ن کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔دوسرا واقعہ نیوزچینل این ڈی ٹی وی سے تعلق رکھتا ہے۔ آئیے پہلے گوا فلم فیسٹیول کا رخ کرتے ہیں جہاں سچ بیان کرنے کی پاداش میں اسرائیلی فلم سازاور جیوری کے سربراہ کا منہ نوچنے کی کوشش کی کی گئی ہے۔ان کا قصور محضاتنا تھا کہ انھوں نے ونود اگنی ہوتری کی متنازعہ فلم ’’دی کشمیرفائلز‘‘ کو فلم فیسٹیول میں شامل کئے جانے پر سخت اعتراض کیا تھا۔ اسرائیلی فلم ساز ندولپڈ نے ’دی کشمیرفائلز‘ کو ایک پروپیگنڈہ اور فحش فلم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فلم سیاسی دباؤ کے تحت فیسٹیول میں شامل کی گئی۔ان کے اس بیان پر اتنا واویلا مچا کہ کہ خود اسرائیلی سفیر کو معذرت کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑا۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ لپڈ کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج ہوگئی اور انھیں ہندوستان بدر کرنے کے مطالبے ہونے لگے، لیکن لپڈ نے ہار نہیں مانی۔انھوں نے اپنا بیان واپس لینے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’دی کشمیرفائلز‘‘فسطائی خوبیوں کی حامل فلم ہے، اس پر کسی کو تو بولنا ہی پڑے گا۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا ’’کشمیرفائلز‘‘ ایک پروپیگنڈہ اور بے ہودہ فلم کی طرح محسوس ہوئی جو اس طرح کے باوقار فلمی میلے کے فنی مقابلے کے لیے نامناسب ہے۔بعدازاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ ’’یہ ایک ایسی فلم ہے جو حکومت ہند نے بھلے ہی نہ بنائی ہو، لیکن کم ازکم اسے غیرمعمولی انداز میں فروغ دیا۔یہ بنیادی طورپر کشمیر میں ہندوستان کی پالیسی کا جواز پیش کرتی ہے اور اس میں فسطائی خصوصیات ہیں۔‘‘سبھی جانتے ہیں کہ ’’دی کشمیرفائلز‘‘ پوری طرح ایک پروپیگنڈہ فلم ہے جوسیاسی مقاصد کے تحت سیاسی سرپرستی میں بنائی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے ٹیکس فری کیا گیا۔ یہ فلم تصویرکا ایک رخ پیش کرتی ہے اور صرف کشمیری پنڈتوں کے درد وکرب کو بڑھا چڑھاکر پیش کرتی ہے جب کہ کشمیری مسلمانوں کے المیہ کواس فلم میں نظراندازکردیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا شکار جہاں کشمیری پنڈت ہوئے ہیں، وہیں اس کی کاری ضرب ان کشمیری مسلمانوں پر بھی پڑی ہے جو چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پستے رہے ہیں۔اس فلم کے اسی عیب کی وجہ سے جیوری کے سربراہ نے اسے ایک پروپیگنڈہ اور فحش فلم قراردیا ہے۔
اب آئیے این ڈی ٹی وی کے قضیہ پرروشنی ڈالتے ہیں،جس کے اڈانی گروپ کی ملکیت میں چلے جانے کے بعد اس کے بانی پرنو رائے اور مقبول اینکر رویش کمار مستعفی ہوگئے ہیں۔ صنعت کار اڈانی کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ وہ حکمراں طبقے کے خاص آدمی ہیں۔اسی لیے این ڈی ٹی وی کے ان کی ملکیت میں آجانے کے بعد اس کی وہ آزادی ختم ہوگئی ہے جو ایک آزاد اور بے باک چینل ہونے کی وجہ سے تھی۔یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں سوشل میڈیا پر کہرام مچا ہوا ہے۔ لوگوں کا ردعمل دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں آزادانہ صحافت کا جنازہ نکل گیا ہے اور جرات اظہار کے محاذپر ہر طرف تاریکی چھاگئی ہے۔حالانکہ نہ تو ابھی این ڈی ٹی وی کے سب سے مقبول اینکر رویش کمار نے صحافت سے کنارہ کشی کی ہے اور نہ ہی اس چینل سے وابستہ دیگربے باک صحافیوں کا خاتمہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ردعمل میں مایوسی اور نامرادی صاف نظر آتی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نیوزچینلوں کے ہجوم میں این ڈی ٹی وی ہی اکلوتا چینل تھا جوسچائی کو پوری طاقت کے ساتھ بیان کرتا تھا اورحکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتاتھا جبکہ دوسرے چینل چاپلوسی اور حاشیہ برداری ہی کو صحافت کا عنوان سمجھتے ہیں۔اس ملک میں کم وبیش پانچ سو ٹی وی چینل ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر گھٹنوں کے بل چلتے ہیں اور صحافت کے اصولوں کی پاسداری کرنے کی بجائے اپنے ساہوکار مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ وہ اپنے ناظرین کو تصویر کا ایک ہی رخ دکھاتے ہیں، جبکہ صحافت کے تقاضے اس وقت تک پورے نہیں ہوتے جب تک کہ تصویرکا دوسرا رخ بھی عوام کے سامنے پیش نہ کیا جائے۔
یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، اس نے ایک حکمت عملی کے تحت میڈیا کو کنٹرول کرنے کا کام کیا ہے۔سب سے زیادہ ہاتھ نیوزچینلوں پر صاف کیا گیا۔ آہستہ آہستہ تمام ہی نیوزچینل ان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے کنٹرول میں آگئے ہیں، جن کے کاروباری مفادات حکومت سے وابستہ ہیں۔ یہ چینل آزادانہ صحافت کا ترجمان ہونے کی بجائے جانبدارانہ صحافت کا شاہکار بن گئے ہیں اور انھوں نے صحافتی اصولوں کوپامال کرکے رکھ دیا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے بڑے حصے کا بھی طرزعمل ان ہی جیسا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا غالب حصہ گودی میڈیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان چینلوں کی بھیڑ میں این ڈی ٹی وی واحد چینل تھا جس کی خبروں اور تبصروں پر عوام یقین کرتے تھے اور اس کے اینکر رویش کمار کا ’پرائم ٹائم‘ صحافت کی آبرو بچائے ہوئے تھا۔لوگ بڑے اعتماد سے اس پروگرام کو دیکھتے تھے۔ این ڈی ٹی وی نے اپنی غیرجانبدارانہ صحافت کی بدولت عوام کے دلوں میں جو جگہ پیدا کی تھی وہ کوئی دوسراچینل پیدا نہیں کرسکا۔ عالمی سطح پرٹی وی صحافیوں میں جو اعتبار اور اعزاز رویش کمار کو حاصل ہوا وہ الیکٹرانک میڈیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوسکا۔لوگ این ڈی ٹی وی کو صحافت کی آبرو سمجھتے تھے اور اس کی حیثیت اندھیرے میں روشن چراغ جیسی تھی۔یہی وجہ ہے کہ این ڈی ٹی وی کے اڈانی کی ملکیت میں چلے جانے اور اس سے رویش کمار کے مستعفی ہونے سے ٹی وی کے ناظرین میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔رویش کمار نے این ڈی ٹی وی سے اپنے الوداعی پروگرام میں کہا ہے کہ ’’میرا استعفیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ میں نے گودی میڈیا کی بالادستی قبول نہیں کی اور میری آپ سب سے بھی یہ اپیل ہے کہ آپ بھی قبول نہ کریں۔ میڈیا کو اس ملک میں جس طرح استعمال کرکے اپوزیشن کی آواز اور اختلاف رائے کو ختم کیا جارہا ہے، وہ ملک کی جمہوریت کے لیے سم قاتل ثابت ہوگا۔‘‘رویش کمار نے ابھی میدان نہیں چھوڑا ہے۔ وہ ی اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعہ آپ سے روبرو ہوں گے۔جو لوگ رویش کمار کی این ڈی ٹی وی سے علیحدگی پردم بخود ہیں ہم ان کی خدمت میں فیض احمدفیض کی شہرہ آفاق نظم پیش کرنا چاہتے ہیں۔ملاحظہ ہو۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہراک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم وزباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔