وجود

... loading ...

وجود

پشتونخوا میپ سے مزید رہنما خارج، برطرف ارکان کا اجتماع

بدھ 30 نومبر 2022 پشتونخوا میپ سے مزید رہنما خارج، برطرف ارکان کا اجتماع

پشتونخواٗ ملی عوامی پارٹی کے اندر کی نزاع صوبے میں مرکز نگاہ اور گہری تجسس کی حامل رہی، جو کسی قدر نقصان کی وجہ بنی ہے۔ کشمکش اور ہیجان کی فضا وقتی ہے۔ جس کے بعد یہ گرما گرمی نرم پڑتی جائے گی ،اس ذیل میں زیادہ تر توجہ نکالے گئے افراد کی جانب سے 24اور25نومبر 2022کو طلب کئے گئے دو روزہ مرکزی کمیٹی کے اجلاس پر مرکوز رہی ۔یہ اجلاس کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاغ میں برطرف رہنما یوسف خان کاکڑ کی رہائش گاہ پر منعقد کیا گیا تھا ، یہاں پرموثر تنظیمی ابھار اور دستوری جواب کی سعی کی گئی ، ایک خاص تعداد میں افراد جمع کئے گئے تھے۔ برطرف مختار یوسف زئی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے سامنے جوابی موقف رکھا ۔جبکہ حقیقت نظر میں یہ نشست اور کلام جاتے جاتے اپنا وجود باقی رکھنے کی ایک کمزور کوشش دکھلائی دی ہے۔ یعنی جس سطح کی بھونچال کی توقع ان برطرف حضرات سے تھی ، پیدا نہ ہو سکی ۔ اب ان کے پاس پارٹی صفوں کے اندر رہتے ہوئے مزاحمت کا چارہ بھی نہیں رہا ۔ منحصر بہر حال ان پر ہے کہ آیا دوبارہ مراجیت کی راہ ڈھونڈتے ہیں یا الگ سیاسی میدان کا انتخاب کرتے ہیں ۔تیسرا کوئی روزن دکھائی نہیں دیتا ۔ مختار خان یوسف زئی کے لئے شاید مزید نرم گوشہ نہ ہو ۔ یادش بخیر ، محمود خان اچکزئی نے پارٹی نظم و ضبط کے بر خلاف فعالیتوں کے نتیجے میں پہلے پہل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات رضا محمد رضا اور مرکزی سیکرٹری عبیدا للہ بابت کو نکال دیا تھا ، بعد ازاں انیس نومبر کو صوبہ خیبر پشتونخوا سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مختار یوسفزئی اور خیبر پختونخواء کے صوبائی صدر خورشید علی خان ،سینئر نائب صدر حیدر خان مومند ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری عمر علی یوسف زئی ، ڈپٹی سیکرٹری اشرف علی ہوتی اور ڈپٹی سیکرٹری احمد شاہ خان کو خارج کر دیا ۔
چناں چہ کچلاغ اجتماع کے بعد مزید رہنما بھی دستور کی زد میں لائے گئے ، جن میں بلوچستان کے صوبائی نائب صدر یوسف خان کاکڑ،صوبائی نائب صدر عیسیٰ روشان ، صوبائی سیکریٹری لیبرقادر آغا ، صوبائی سیکریٹری فنانس خوشحال کاسی اور صوبائی سیکریٹری نصر اللہ زیرے شامل ہیں ۔ نصر اللہ زیرے اس وقت بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں ۔جولائی 2018کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ حلقہ پی بی 31سے کامیاب ہوئے تھے ۔ محمود اچکزئی نے اسے اسمبلی رکنیت سے ڈی سیٹ کروانے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ اچکزئی نے 26 نومبر کو پارٹی دفتر میں پریس کانفرنس کے ذریعے صوبہ خیبر پشتونخواء کی آرگنائزنگ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے ۔کچلاغ اجتماع میں شریک کئی پارٹی وابستگان بھی فارغ کر د یے گئے ہیں ۔ البتہ عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال خان کاکڑ کو استثنا دے چکے ہیں ۔ خوشحال خان کاکڑ بھی کچلاغ اجتماع والوں کے شریک کار ہیں ۔ یہ نوجوان ،والد عثمان کاکڑ کی وفات کے بعد پشتونخوامیپ کے اسٹیج سے معروف ہوئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے نرمی کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اس نوجوان کے والد عثمان کاکڑ ان کے دیرینہ ساتھی تھے ۔ مگر خوشحال کاکڑ مخالف حلقہ سے ہی جڑے رہیں گے۔ اس بنا ان کا اخراج بھی غالب دکھائی دیتاہے ۔ بہر حال محمود خان اچکزئی فی الواقع پارٹی ایک دیرینہ حساس اور ہیجانی حالت سے نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔سیاسی جماعتیں بیرونی مسابقوں سے نمو پاتی ہے جبکہ اندرونی نزاعات، دھڑا بندی تنظیمی ڈھانچہ دیمک کی طرح چاٹتی ہے ۔بر وقت پیش بندی نہ ہونے کی صورت میں جماعت کا شیرازہ بکھر نے کا قوی امکان ہوتا ہے ۔ یقینابڑی سطح کے رہنمائوں کو دستور کی زد میں لینا کار گراہ تھا ۔ پارٹی کے مجموعی میلان اور کارکنوں کی والہانہ رجحان سے اچکزئی کی ڈھارس بندھی ہے ۔البتہ آنے والے عام انتخابات اس جماعت کے لیے کھڑا امتحان ہے۔پشتونخوامیپ کے بیانیہ میں افغانستان کا موضوع اہم نقطہ ہے۔
محمود اچکزئی پاکستان کو اپنا ملک کہتے ہیں۔افغانستان میں مداخلت نہ کرنے بات کرتے ہیں ۔اب یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان ،افغانستان اور ایران ایک دوسرے کے دشمنوں کو جگہ نہ دے ۔مطالبہ پاکستان کے آئین اور جغرافیہ کے اندر الگ پشتون صوبہ اباسین تک کے قیام کا ہے ۔یہ موقف اول روز سے ہے ۔ یہ امر محمود خان اچکزئی سمیت تمام پشتون سیاسی زعما پر واضح ہونا چاہیے کہ افغانستان مصائب اور درماندگی کی ایک طویل مسافت طے کر چکا ہے ۔ موجودہ افغان حکومت امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ موجودہ حالات دنیا کی حسن ظن کی متقاضی ہے ۔اوریقینا افغانستان میں اولیت امن و امان کو ہی حاصل ہے ۔ یہ ملک نئی آزمائشوں اور مصائب میں مبتلا ہوگا تو ہمسائیہ ممالک لا محا لہ اثرات سے متاثر رہیں گے ۔موجودہ افغان حکومت ملک وسائل اور دولت کی لوٹ بازاری کا سدباب بھی کر چکی ہے۔جنگی ملیشائوں کا خاتمہ کیا ہے ۔جن کے سرکردہ جو امریکی قبضہ کے دوران بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہیں ،دوسرے ملکوں کو بھاگ چکے ہیں۔جہاں سے مسلسل تخریبی بندوبست کی تراکیب سوچ رہے ہیں۔افغانستان میں القائدہ کی موجودگی کے دعوے دراصل دنیا کی نیتوں کا فطور کے سوا کچھ نہیں۔ ۔داعشی گروہ اگرچہ موجود ہے ،جس کے خلاف کابل حکومت کامیاب ہے ۔اور پھریہ گروہ امریکی پراکسی سمجھا جاتا ہے ۔افغانستان پر امریکی اور نیٹو افواج کے حملہ اور قبضہ کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کی منطق ہر لحاظ سے گمرا ہ کن ہے۔جو بادی النظر میں ان ممالک کی افغانستان پر حملے اورقبضے کو جائز سمجھنے اور حمایت پر دلالت کرتا ہے۔قابض افواج افغان پشتون عوام کی بربادی اورکے قتل عام میں ملوث ہی۔جن سے جنگی تاوان کا مطالبہ ہو نا چاہیے ۔گویا افغانستان کا منظر نامہ گروہی عصبیتوں سے ہٹ کر بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پشتونخوا میپ روایت سے ہٹ کر کیا کروٹ لیتی ہے۔
َََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر