وجود

... loading ...

وجود

موسمیاتی فنڈ کا قیام اچھا فیصلہ مگر.....

بدھ 23 نومبر 2022 موسمیاتی فنڈ کا قیام اچھا فیصلہ مگر.....

گرین ہائوس گیسوں کے اخراج سے زمین کا درجہ حرارت ناقابلِ برداشت حد کے قریب آتاجا ر ہا جس کی وجہ سے نہ صرف پانی کے ذخائر خشک ہو رہے ہیں بلکہ گلیشئر پگھلنے سے سطح سمندر بھی بلند ہوتی جارہی ہے انھی وجوہات کی وجہ سے زندگی اور معاش کو ماہرین خطرات میں گھرا دیکھنے لگے ہیںگرمی کی اِس مہلک لہر سے ہی جنگلات میں ایسی آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے جس پراکثر اوقات قابوپانا بھی دشوار ہوجاتاہے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک طرف زمین کے کئی علاقوں میں طویل خشک سالی جبکہ کچھ حصوں میںآندھیاں ،طونانی بارشیں اور سیلاب ہوتے ہیں جوزرعی پیداوار پر اثر انداز ہونے کے ساتھ زمین کے کٹائومیں اضافے کا باعث ہیں جس سے خوراک کے ذخائر والے علاقے بھی بھوک و افلاس کا مرکز بنتے جارہے ہیں ظاہر ہے کسی علاقے میں بھوک و افلاس بڑھے گی تو اثرات سے دنیابھی محفوظ نہیں رہ سکتی مزکورہ خطرات پر قابو پانے کے لیے ایسی ہمہ گیر کاوشوں کی ضرورت ہے جن سے کرہ ارض پر زندگی اور معاش کو لاحق خطرات کم ہوں۔
ماحولیاتی تباہ کاریوں سے شدید متاثرہ ریاستوں کی مالی مدد کے لیے عالمی کاوشیں فیصلوں تک پہنچتی دکھائی دینے لگی ہیں مصرکے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں حال ہی میں ہونے والی کوپ 27عالمی کانفرنس نہ صرف ایک بین الاقوامی فنڈ کے قیام پر متفق ہو گئی ہے بلکہ اِس کے نتیجے میں ایک معاہدہ بھی طے پاگیا ہے جس کے تحت متاثرہ ممالک کی مالی مدد کا منصوبہ ہے یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس سے مکمل نہیں تو کسی حد تک یہ توقع پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے 134 متاثرہ ممالک کے معاشی نقصانات کا کچھ ازالا ہو سکے گا مگر سوال پھر وہی ہے کہ موسمیاتی نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ کا قیام ایک اچھا اور بروقت فیصلہ اِس حوالے سے ضرورہے کہ یہ متاثرہ ممالک کے لیے ازالے کی امیدافزاکوشش ہے مگر جب تک بنیادی سبب کاربن کے اخراج کو روکا نہیں جاتا تب تک دنیا کو ماحولیاتی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا اِس لیے موسمیاتی فنڈ کا قیام ایک اچھا اقدام تبھی ثابت ہو سکتا ہے جب بنیادی سبب دورکرنے پر بھی توجہ دی جائے۔
ماحولیاتی تباہ کاریوں کی موجودہ سطح میں کلیدی کردار امریکا ،یورپی یونین،جاپان سمیت ترقیافتہ ممالک کا ہے بلکہ اب تو بھارت بھی اِس فہرست میں آچکا ہے جن کی صنعتی ترقی ،سمندر اور خشکی میں موجود قدرتی وسائل کی تلاش سمیت بے تحاشہ ٹریفک کی وجہ سے آج ترقی پزیر ممالک موجودہ تباہی کے دہانے تک پہنچے ہیں لیکن تعجب کا باعث یہ امر ہے کہ ازالے کی حد تک دنیا کی صنعتیں طاقتیں متفق ہوگئیںہیں لیکن زمہ داری قبول کرنے سے پہلو تہی کی جارہی ہے حالانکہ انھی صنعتی طاقتوں کی وجہ سے کمزور ممالک میں زندگیوں اور معاش کو نقصان ہو رہا ہے یہ عیاں حقیقت ہے کہ مغربی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا محض بارہ فیصد ہے جبکہ محتاط اندازے کے مطابق گیسوں کے اخراج میں اُن کا حصہ پچاس فیصد سے تجاوز کرگیاہے مگر مغربی ممالک اِس حوالے سے زمہ داری قبول کرنے کی بجائے اگر مگرکے چکر میں ہیں کیونکہ یہ ممالک معاشی اور دفاعی حوالے ترقی یافتہ ہیں اسی لیے وہ دنیا کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہونے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ اکثر دیگر کمزور یا ترقی پذیر ممالک کے نقصانات کی پرواہ بھی نہیں کرتے اگر مغربی ممالک اپنی زمہ داری قبول کرتے ہوئے ازالے سے پہلو تہی نہ کریں تو کسی حد تک فوری بہتری ممکن ہے۔
کوپ27کے اجلاس میں امدادی فنڈ قائم کرنے کافیصلہ تو ہو گیا ہے مگر صنعتی ممالک کے کارخانوں سے جوبڑی مقدار میںکاربن ڈائی اکسائڈ خارج ہوتی ہے اُس پر قابوپانے کے لیے کسی طریقہ کار پر اتفاق نہیں ہو سکاخیر یہ بھی غنیمت ہے کہ متاثرہ ممالک کے نقصان کی تلافی کے طورپر ہی سہی امدادی فنڈ قائم کر دیا گیا ہے مگر یہاں بھی ایک رکاوٹ ابھی تک موجود ہے جس کے تدارک بارے سوچنا اور حل تلاش کرنا باقی ہے کیونکہ تلافی کے طور پر کسے کیا دینا ہے عملدرآمد کے لیے ایک عبوری کمیٹی ہی بنا ئی گئی ہے جس نے ازالے کے لیے قواعد و ضوابط بھی بنانے ہیں اور پھر امداد اکٹھی کرنے کے ساتھ ادائیگی کے لیے سفارشا ت پیش کرنا اورپھر اُن کی منظوری بھی دینا ہیں جس سے نقصان کے ازالے میں بھی تاخیر کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ دوہفتے تک جاری رہنے والے مزاکرات میں جو ممالک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج پر قابو پانے میں رکاوٹ کا باعث رہے وہ ازالے کے طریقہ کار کو بھی آسان بنانے میں اتفاق پیدا کرنے میں رخنہ دال سکتے ہیں تاکہ اُن کے وسائل غریب اور کمزور ممالک کو ملنے کی بجائے انھی کے پاس رہیں اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ موسمیاتی فنڈ کا قیام ایک چھا فیصلہ ضرور ہے مگر مسلے کی اصل جڑ فیکٹریوں اور کارخانوں سے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج پر قابو پانا بھی اشد ضروری ہے۔
پاکستان کا شمارموسمیاتی انڈیکس میں سب سے زیادہ خطرے کے شکار پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے حالانکہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں اُس کا حصہ محض 0.5 فیصد سے بھی کم ہے مگر درجہ حرارت میں اضافے کی تباہ کاریوں سے متاثرہ اولیں دس ممالک میں سے ایک ہے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا اسی ارب ڈالرکے قریب نقصان ہوا ہے صرف چاول کی برآمد پر ہی طائرانہ نگاہ ڈالیں تو رواں برس اڑتالیس لاکھ اسی ہزار ٹن برآمد سے دو ارب پچاس کروڑ ڈالرزرِ مبادلہ کمایا گیا لیکن زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب سے پچاسی لاکھ ٹن کی پیداوار اب محض تہتر لاکھ ٹن سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے جو ممکن ہے ملکی ضروریات کے لیے ہی ناکافی ہو اسی طرح چینی کی پیداوار میں بھی کافی کمی کا اندازہ ہے لہذا ضرورت اِس امرکی ہے کہ ماحولیاتی امدادی فنڈ قائم کرنے کے ساتھ آلودگی کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج پر بھی قابو پایا جائے تاکہ کرہ ارض پر زندگی اور معاش کو لاحق خطرات میں حقیقی کمی آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر