... loading ...
8 مارچ2022 سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس اور بنی گالہ میں جس حدود وقیود،سرکاری فرائض اور قوائد وضوابط کے ساتھ فائلوں کے بوجھ تلے وقت گذار رہے تھے اس وقت وہ سیاسی سطح پرآج کے مقابلے میں کمزور تھے ان کی کیفیت ایک ایسے جن کی مانند تھی جوایک پرکشش بوتل میں بند تھا اور کمزور ہورہا تھا یہ پرکشش بوتل وزارت عظمٰی تھی جسے ان کے مخالفین حاصل کرنا چاہتے تھے اور جن کو اپوزیشن لیڈر کی نئی بوتل میں بند کرکے قومی اسمبلی کے جال میںالجھا کر اپنے قابو میں رکھنا چاہتے تھے لیکن تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بنی گالہ کا جن بے قابو ہوگیا اور مخالفین کو عوامی سطح پر مسلسل کمزور کرتا رہا اور اس نے ایسی طاقت حاصل کرلی کہ مخالفین بے بس نظر آنے لگے آخر کار اس کو ختم کرنے کی کوشش ہوئی لیکن وہ بچ نکلا اورزخمی ہوکر مزید طاقتور ہوگیا دنیا کے چپّے چپّے میں اس کی آواز گونجنے لگی جن کے پاس سب سے بڑی صلاحیت یہ تھی کہ وہ اپنی مخالفت اور الزامات کو ہی اپنی طاقت بناتا رہا اور مخالفین کو مسلسل کمزور کرتا رہا بوتل سے باہر رہ کر ہر لمحے اس کی عوامی حمایت بڑھ رہی ہے مہنگائی اسے مزید طاقت فراہم کر رہی ہے بنی گالہ کے جن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دن سے کر اب تک پی ڈی ایم کو حکومت کے حصول کے علاوہ اب تک کوئی عوامی یا بین الاقوامی پذیرائی نہیں ملی جس کی بنیادی وجہ ان کی اپنی پالیسیاں ہیں جس میں سر فہرست آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پاکستان کو مہنگائی میں مبتلا کرنا تھا حالانکہ اگر معاہدے میں کمزوری نہ دکھائی جاتی تو کچھ ایسے اقدامات ہو سکتے تھے جس سے مہنگائی کو مناسب سطح پر لایا جاسکتاتھا اسی طرح صنعت،زراعت اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پر ترجیحی بنیادکام نہ کرنابھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا تھا۔
عمران خان کے خلاف عجیب و غریب اور غیر سنجیدہ بیانات نے عمران خان کو مزید طاقتور بنادیا جیسا کہ عمران خان کو گولی نہیں لگی اس نے خود حملہ کرایا اسے اسلام مخالف ثابت کرنا وغیرہ شامل ہیںاب وہ میڈیا میں خبریں چھپوا کر امریکا کو پیغام دے رہے ہیں کہ اب عمران خان امریکا کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر ہے وہ کام جو کسی لابنگ فرم کو عمران خان کے لیے کرنا تھا وہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اورپاکستانی میڈیا کر رہا ہے اسی طرح سائفر کامعاملہ ہے اس مسئلے کو کسی بھی انداز سے اچھالا جائے گا عالمی سطح پر اس کا منفی اثر ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر اس کے تذکرے کو بعض بڑی طاقتیں ناپسندیدگی سے دیکھتی ہیں عمران خان کا موجودہ نعرہ حقیقی آزادی،غریبوں کے لیے انصاف،اور خودداری کا ہے بقیہ ساری کہانی پیچھے جا چکی ہے جس کا اظہار وہ ہرسطح پر کر رہے ہیںان پر حملے کے بعد ان کے کارکن اور حامی شدید جذباتی اور غصے کی کفیت میں مبتلا ہیںزخمی عمران خان کیا کچھ کریں گے اس کا اندازہ آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں حملے کے بعد عالمی میڈیا اور دنیا بھر کے ممالک ان پر نظررکھے ہوئے ہیں اور ان سے ہمدردی کا بھی اظہار کر رہے ہیںجس کی وجہ سے ملک کی سیاست پر ان کی گرفت روز بروز مظبوط سے مظبوط تر ہورہی ہے جبکہ شہباز شریف روز بروز کمزور سے کمزور ہورہے ہیں انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرکے اپنی سیاست کا تقریباً خاتمہ کرلیا ہے دنیا میں کہیں بھی انہیں رتی برابر بھی پذیرائی نہیں مل رہی ہے اتحادی نجی محفلوں میں ان کے لیے جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ رہی ہے اگر یہ عہدہ وہ پی پی کو دیتے تو شاید پی ڈی ایم کو نسبتاً بہتر نتائج مل سکتے تھے۔
ان کے مقابلے میں آصف زرداری نے انتہائی خوبصورتی سے خود کو پیچھے رکھ کر الزامات سے بچالیا ہے البتہ آصف زرداری کو بلاول بھٹو کو بھی پیچھے رکھنا چاہیے تھایہاں وہ اپنا کارڈ جلدی کھیل گئے ہیں جس کا مستقبل میں نقصان ہو سکتا ہے پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک بات کا اندازہ نہیں لگا رہی ہیں کہ ہرروز اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے سترہ ہزار نوجوانوں میں تقریباً چودہ ہزار ووٹر عمران خان کی طرف مائل ہیںجبکہ روزآنہ پانچ ہزار مرنے والوں کی اکثریت پی ڈی ایم کے ووٹروں کی ہے اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے حامیوں کی بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے اس طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق پی ٹی آئی کے روز آنہ اٹھارہ سے بیس ہزار ووٹوں میں اضافہ ہورہاہے یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے اور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے مہنگائی نے اس میںمزیداضافہ کر دیا ہے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے عمران خان کے لانگ مارچ کا اگلا مرحلہ اور بھی بھرپور ہوگا وہ اس تحریک کو گلی گلی محلہ محلہ پھیلا رہے ہیں سندھ اور بلوچستان کے جو علاقے جہاں پی ٹی اآئی کمزور ہے وہاں بھی اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں مستقبل میں ملک بھر میں اس کا دائرہ پھیل سکتا ہے پی ڈی ایم کے لیے واحد راستہ ہے کہ وہ عوام کو سہولتیں فراہم کرے بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کرے صحت،ٹرانسپورٹ اور اچھی تعلیمی سہولیات کو عام کرے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر انتخابات کار استہ اختیا ر کرکے آنے والے طوفان کو گذرنے کا راستہ دے دے اند ر ہی اند ر جو لاوا پک رہا ہے اسے گذرنے کا راستہ نہ ملا تو اس کا مقابلہ پی ڈ ی ایم نہیں کرسکے گی اور ساراملبہ بھی اس پر آگرے گایہ تصور کرنا کہ وقت گذرنے کے ساتھ حالات ٹھیک ہوجائیں گے خام خیالی ہے معیشت کی بحالی کے لیے عوامی حمایت درکا ر ہے جو مسلسل کم ہو رہی ہے مارکیٹ اعتبار کرنے کو تیار نہیں اداروں اور عوام میں دوری ریاست کو کمزور کر رہی ہے حکومت ہوا میں معلق ،غیر فعال اور بے عملی کا شکار ہے ذرائع ابلاغ کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے جس میں عوام کو یہ بتا نے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان پر کوئی حملہ نہیں ہو اب ان کے زخموں کی تصاویر اور وڈیو بھی سامنے آگئی سوشل میڈیا میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے مولانا کی یہ بڑی غلطی تھیمولاناکو ان لوگوں کوگرفت میں لینا چاہیے جنہوں نے غلط معلومات فراہم کی حکومت اگر عوامی جذبات اور زمینی حقائق کی معلومات سے محروم رہے گی تو پھر کسی حادثے کا شکار ہوجا ئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔