وجود

... loading ...

وجود

بنی گالہ کا جن اور سرکار کی بوتل

جمعه 18 نومبر 2022 بنی گالہ کا جن اور سرکار کی بوتل

8 مارچ2022 سے پہلے سابق وزیر اعظم عمران خان اسلام آباد کے وزیر اعظم ہائوس اور بنی گالہ میں جس حدود وقیود،سرکاری فرائض اور قوائد وضوابط کے ساتھ فائلوں کے بوجھ تلے وقت گذار رہے تھے اس وقت وہ سیاسی سطح پرآج کے مقابلے میں کمزور تھے ان کی کیفیت ایک ایسے جن کی مانند تھی جوایک پرکشش بوتل میں بند تھا اور کمزور ہورہا تھا یہ پرکشش بوتل وزارت عظمٰی تھی جسے ان کے مخالفین حاصل کرنا چاہتے تھے اور جن کو اپوزیشن لیڈر کی نئی بوتل میں بند کرکے قومی اسمبلی کے جال میںالجھا کر اپنے قابو میں رکھنا چاہتے تھے لیکن تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد بنی گالہ کا جن بے قابو ہوگیا اور مخالفین کو عوامی سطح پر مسلسل کمزور کرتا رہا اور اس نے ایسی طاقت حاصل کرلی کہ مخالفین بے بس نظر آنے لگے آخر کار اس کو ختم کرنے کی کوشش ہوئی لیکن وہ بچ نکلا اورزخمی ہوکر مزید طاقتور ہوگیا دنیا کے چپّے چپّے میں اس کی آواز گونجنے لگی جن کے پاس سب سے بڑی صلاحیت یہ تھی کہ وہ اپنی مخالفت اور الزامات کو ہی اپنی طاقت بناتا رہا اور مخالفین کو مسلسل کمزور کرتا رہا بوتل سے باہر رہ کر ہر لمحے اس کی عوامی حمایت بڑھ رہی ہے مہنگائی اسے مزید طاقت فراہم کر رہی ہے بنی گالہ کے جن عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے دن سے کر اب تک پی ڈی ایم کو حکومت کے حصول کے علاوہ اب تک کوئی عوامی یا بین الاقوامی پذیرائی نہیں ملی جس کی بنیادی وجہ ان کی اپنی پالیسیاں ہیں جس میں سر فہرست آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پاکستان کو مہنگائی میں مبتلا کرنا تھا حالانکہ اگر معاہدے میں کمزوری نہ دکھائی جاتی تو کچھ ایسے اقدامات ہو سکتے تھے جس سے مہنگائی کو مناسب سطح پر لایا جاسکتاتھا اسی طرح صنعت،زراعت اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پر ترجیحی بنیادکام نہ کرنابھی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنا تھا۔
عمران خان کے خلاف عجیب و غریب اور غیر سنجیدہ بیانات نے عمران خان کو مزید طاقتور بنادیا جیسا کہ عمران خان کو گولی نہیں لگی اس نے خود حملہ کرایا اسے اسلام مخالف ثابت کرنا وغیرہ شامل ہیںاب وہ میڈیا میں خبریں چھپوا کر امریکا کو پیغام دے رہے ہیں کہ اب عمران خان امریکا کا ساتھ دینے کے لیے تیا ر ہے وہ کام جو کسی لابنگ فرم کو عمران خان کے لیے کرنا تھا وہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اورپاکستانی میڈیا کر رہا ہے اسی طرح سائفر کامعاملہ ہے اس مسئلے کو کسی بھی انداز سے اچھالا جائے گا عالمی سطح پر اس کا منفی اثر ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر اس کے تذکرے کو بعض بڑی طاقتیں ناپسندیدگی سے دیکھتی ہیں عمران خان کا موجودہ نعرہ حقیقی آزادی،غریبوں کے لیے انصاف،اور خودداری کا ہے بقیہ ساری کہانی پیچھے جا چکی ہے جس کا اظہار وہ ہرسطح پر کر رہے ہیںان پر حملے کے بعد ان کے کارکن اور حامی شدید جذباتی اور غصے کی کفیت میں مبتلا ہیںزخمی عمران خان کیا کچھ کریں گے اس کا اندازہ آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں حملے کے بعد عالمی میڈیا اور دنیا بھر کے ممالک ان پر نظررکھے ہوئے ہیں اور ان سے ہمدردی کا بھی اظہار کر رہے ہیںجس کی وجہ سے ملک کی سیاست پر ان کی گرفت روز بروز مظبوط سے مظبوط تر ہورہی ہے جبکہ شہباز شریف روز بروز کمزور سے کمزور ہورہے ہیں انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرکے اپنی سیاست کا تقریباً خاتمہ کرلیا ہے دنیا میں کہیں بھی انہیں رتی برابر بھی پذیرائی نہیں مل رہی ہے اتحادی نجی محفلوں میں ان کے لیے جو گفتگو کر رہے ہیں وہ ان تک نہیں پہنچ رہی ہے اگر یہ عہدہ وہ پی پی کو دیتے تو شاید پی ڈی ایم کو نسبتاً بہتر نتائج مل سکتے تھے۔
ان کے مقابلے میں آصف زرداری نے انتہائی خوبصورتی سے خود کو پیچھے رکھ کر الزامات سے بچالیا ہے البتہ آصف زرداری کو بلاول بھٹو کو بھی پیچھے رکھنا چاہیے تھایہاں وہ اپنا کارڈ جلدی کھیل گئے ہیں جس کا مستقبل میں نقصان ہو سکتا ہے پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک بات کا اندازہ نہیں لگا رہی ہیں کہ ہرروز اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے والے سترہ ہزار نوجوانوں میں تقریباً چودہ ہزار ووٹر عمران خان کی طرف مائل ہیںجبکہ روزآنہ پانچ ہزار مرنے والوں کی اکثریت پی ڈی ایم کے ووٹروں کی ہے اس کے علاوہ پی ڈی ایم کے حامیوں کی بھی مسلسل کمی ہو رہی ہے اس طرح ایک محتاط اندازے کے مطابق پی ٹی آئی کے روز آنہ اٹھارہ سے بیس ہزار ووٹوں میں اضافہ ہورہاہے یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے اور کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے مہنگائی نے اس میںمزیداضافہ کر دیا ہے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہے عمران خان کے لانگ مارچ کا اگلا مرحلہ اور بھی بھرپور ہوگا وہ اس تحریک کو گلی گلی محلہ محلہ پھیلا رہے ہیں سندھ اور بلوچستان کے جو علاقے جہاں پی ٹی اآئی کمزور ہے وہاں بھی اس کے اثرات پہنچ رہے ہیں مستقبل میں ملک بھر میں اس کا دائرہ پھیل سکتا ہے پی ڈی ایم کے لیے واحد راستہ ہے کہ وہ عوام کو سہولتیں فراہم کرے بجلی ،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر کمی کرے صحت،ٹرانسپورٹ اور اچھی تعلیمی سہولیات کو عام کرے اور اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر انتخابات کار استہ اختیا ر کرکے آنے والے طوفان کو گذرنے کا راستہ دے دے اند ر ہی اند ر جو لاوا پک رہا ہے اسے گذرنے کا راستہ نہ ملا تو اس کا مقابلہ پی ڈ ی ایم نہیں کرسکے گی اور ساراملبہ بھی اس پر آگرے گایہ تصور کرنا کہ وقت گذرنے کے ساتھ حالات ٹھیک ہوجائیں گے خام خیالی ہے معیشت کی بحالی کے لیے عوامی حمایت درکا ر ہے جو مسلسل کم ہو رہی ہے مارکیٹ اعتبار کرنے کو تیار نہیں اداروں اور عوام میں دوری ریاست کو کمزور کر رہی ہے حکومت ہوا میں معلق ،غیر فعال اور بے عملی کا شکار ہے ذرائع ابلاغ کی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے جس میں عوام کو یہ بتا نے کی کوشش کی گئی کہ عمران خان پر کوئی حملہ نہیں ہو اب ان کے زخموں کی تصاویر اور وڈیو بھی سامنے آگئی سوشل میڈیا میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے مولانا کی یہ بڑی غلطی تھیمولاناکو ان لوگوں کوگرفت میں لینا چاہیے جنہوں نے غلط معلومات فراہم کی حکومت اگر عوامی جذبات اور زمینی حقائق کی معلومات سے محروم رہے گی تو پھر کسی حادثے کا شکار ہوجا ئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر