... loading ...
آخرکار پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات و نشریات رضا محمد رضا، اور مرکزی سیکرٹری عبید اللہ بابت تادیبی کارروائی کے تحت پارٹی سے فارغ کردیے گئے۔پارٹی حلقے اسے دیر آید درست آید کے مصداق گردانتے ہیں۔ جمعرات 10 نومبر2022ء کو پشتون خوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے اپنے دستخط سے ذرائع ابلاغ کو جاری پریس ریلیز میں قرار دیا ہے کہ ’’اس تاریخ کے بعد ان رہنمائوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ انہیں جماعتی نظم و ضبط اور فیصلوں کے خلاف سرگرمیوں کی پاداش میں پارٹی سے نکالا گیا ہے کہ یہ حضرات پارٹی کے بعض سینئر رہنمائوں سے اپنی الگ جماعت بنانے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے کی خاطر رابطوں میں رہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی رکن پارٹیوں کے خلاف مسلسل مصروفِ عمل رہے۔ عام جلسوں میں پارٹی پالیسیوں اور متحدین کے خلاف تنبیہ کے باوجود بیان بازیاںکرتے رہے۔ انہیں پارٹی کے اہم ادارے ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی جو19جنوری 2022ء کو منعقد ہوا تھا، لمبی چوڑی بحث کے بعد تنبیہ کی جاچکی تھی کہ اپنی اصلاح کریں، مگر بے سود۔
پارٹی اپنی صفوں میں شامل جنوبی پشتون خوا (بلوچستان کے پشتون علاقے)کے ذمے داروں کو خبردار کرتی ہے کہ پارٹی متحدین یعنی پی ڈی ایم کے سوا دوسرے گروہوں اور پارٹیوں کے ساتھ رواں بلدیاتی انتخابات میں اپنی پارٹی کے طے شدہ فیصلوں کے خلاف اتحاد کرنے، پارٹی سے نکالے گئے حضرات کے ساتھ سیاسی روابط رکھنے والے حضرات اپنے رویوں پر نظرثانی کریں ورنہ وہ بھی پارٹی سے خارج تصور ہوں گے۔‘‘محمود خان اچکزئی مختلف اوقات میں مختلف جلسوں میں بھی تنبیہ کرچکے ہیں جسے یقیناً ان رہنمائوں نے سنجیدہ لیا نہ پارٹی چیئرمین کی تنبیہات کو خطرہ سمجھا۔ دراصل اس ہٹ دھرمی کی پشت پر گزشتہ ایک عشرے سے زائد مدت کی گروہ بندی تھی کہ جس کے حصار میں محمود خان اچکزئی لیے گئے تھے۔ گویا پارٹی کے اندر الگ ترجیحات، الگ فیصلے، جداگانہ طرزعمل بلکہ الگ جماعت عملاً موجود تھی۔ اس سارے درو بست کی رہنمائی عثمان کاکڑ مرحوم سے منسوب کی جاتی تھی، جن کی سیاسی افتادِ طبع پارٹی چیئرمین کے برعکس رہی۔ یہ دھڑے بندی طویل عرصہ جماعتی انتخابات نہ ہونے کی وجہ ٹھیری ہے۔ یہاں تک کہ جولائی2018ء کے عام انتخابات سے پہلے عجلت کی فضا میں پارٹی انتخابات ممکن ہوسکے جو الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین اور ضابطوں کے تحت لازم تھے، وگرنہ پارٹی کو انتخابی نشان الاٹ نہ ہوتا۔ پیش ازیں پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبدالرحیم مندوخیل کی وفات کے بعد این اے 260 کی نشست خالی ہوئی تو ضمنی انتخاب پشتون خوا میپ کے امیدوار جمال ترہ کئی کو پارٹی انتخابی نشان درخت کے بجائے سوزوکی کے نشان کے تحت لڑنا پڑا ہے۔ منطقی بات یہ بھی ہے کہ ایک جماعت پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد میں ہے تو پارٹی کے رہنما کس طرح اتحاد کے خلاف ترجیحات طے کرسکتے ہیں! اور اگر کسی بھی سطح کے انتخابات میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوتی ہے تو اس کے لیے پارٹی اجازت درکار ہوتی ہے۔
عبیداللہ بابت متواتر اتحادی جماعت کے خلاف محاذ قائم رکھے ہوئے تھے، حالانکہ نکالے گئے یہ لوگ ذمے دار اور قدیم وابستگی کے حامل تھے۔ رضا محمد رضا سینیٹر رہے ہیں۔ عبیداللہ بابت متعدد بار صوبائی وزیر رہ چکے ہیں، اور اِن دنوں بھی دونوں افراد پارٹی کے مرکزی کلیدی عہدوں پر متمکن تھے۔ اس بات میں شک نہیں کہ یہ اور چند دوسرے افراد اوّل تو پارٹی ہتھیانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے، دوئم متبادل ’’دروبست ‘‘کی سوچ بچار بھی کررہے تھے۔ یہاں غالب طور پر پشتون تحفظ موومنٹ کو بطور حربہ استعمال کیا گیا۔ پی ٹی ایم کے جلسوں کا بندوبست پشتون خوا میپ کرتی، اس کے کارکن جلسوں میں شریک ہوتے، چندہ جمع کرتے۔ بعض واقعات کے رونما ہونے پر احتجاج کے بعد پی ٹی ایم کے نام سے تنظیمی صورت گری کی گئی۔ دراصل یہ پراجیکٹ افراسیاب خٹک کا تھا۔ افغانستان پر امریکی قبضے کے دوران این ڈی ایس اور بھارتی خفیہ ایجنٹوں کے اشتراک سے مخصوص بیانیے کی ترویج درکار تھی۔ یہاں نوجوانوں کا خوب استعمال ہوا۔ پشتون خوا میپ کے ان افراد، پی ٹی ایم اور کابل حکومت کے ابلاغ میں رتی بھر فرق نہ تھا۔ یہ امریکی اور نیٹو قبضے کے خلاف لڑنے والوں کو دہشت گرد اور افغان دشمن ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرتے۔ بادی النظر میں یہ سارا ابلاغ اور سیاسی شور شرابہ افغانستان کے شمال کے گروہ اور جماعتوں کو تقویت دیتا رہا۔ یوں مقصد براری کے بعد افراسیاب خٹک، محسن داوڑ وغیرہ نے پی ٹی ایم کے بطن سے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے الگ پشتون قوم پرست جماعت نکال لی۔ چناں چہ یہ جماعت خصوصاً افغانستان کے تناظر میں عشروں پرانے فسادی نظریات کے پرچار پر کھڑی رکھی گئی ہے۔ یہ جماعت استعماری اور سامراجی ممالک کوافغانستان پر حملے کی شہ دیتی ہے۔ یہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کو افغانستان کے لیے تاریکی کا دور قرار دیتی ہے اور صریح طور پر افغانستان کے معاملات میں مداخلت کا ارتکاب کررہی ہے۔ محمود خان اچکزئی کا افغانستان کے بارے میں بعض حوالوں سے حالیہ نقطہ نظرصائب ہے۔ سیاسی حالات اور تقاضے مرورِ زمانہ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی آج اگر افغانستان پر روسی اور امریکی جارحیت اور تسلط، اور افغانستان پر جدید ترین اور تباہ کن ہتھیاروں کے استعمال کا کہتے ہیں تو ہر گز غلط نہیں ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ سوویت یونین پورے دس سال اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کے ساتھ افغانستان پر قابض رہا۔ اس عرصے میں وہاں مختلف ناموں، شکلوں اور تشکیلات کے ساتھ گروہی حکومتیں مسلط رہی ہیں۔ امریکہ نے بون کانفرنس کا ڈھونگ رچا کر فی الحقیقت افغانستان پر بعض منظورِ نظر پشتونوں مگر منجملہ شمال کے بڑوں اور ملیشیا?ں کو مسلط کیا۔ جمہوریت اور انتخابات کی ملمع کاری کے ساتھ بیس سال تک افغانستان کی زمین اور فضائوں پر حاکمیت قائم کیے رکھی۔ افغانوں نے طالبان اور حزبِ اسلامی کی صفوں میں شامل ہوکر امریکہ اورنیٹو کے خلاف آزادی، استقلال اور اقتدارِ اعلیٰ کی طویل جنگ لڑی ہے اور 29فروری2020ء کو دوحا میں مذاکرات بھی قابض امریکہ کے ساتھ ہو ئے ہیں۔ موجودہ افغان حکومت تنقید سے مبرا ہر گز نہیں ہے، مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ یہ افغانستان کی خود مختاری اور جغرافیائی سلامتی کی محافظ ہے۔ افغانستان کو ایک ایسے ہی مؤثر اور ہمہ گیر حاوی نظام اور سیاسی نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ گویا محمود خان اچکزئی کی 19اگست2022 ء کو اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے میں یوم استقلال کی تقریب میں شرکت، افغانستان کی موجودہ صورتِ حال بارے فرمودات، ادراک اور زمینی حقیقتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ غرضیکہ نکالے گئے افراد کا، اخراج کے خلاف ہاتھ پیر مارنا یا کوئی بھی ردعمل وقتی دھول کے سوا کچھ نہ ہوگا، وہ اس لیے کہ محمود خان اچکزئی پارٹی کارکنان کے انتہائی محبوب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔