... loading ...
دنیا میں ریاستی مفاد اور مالیاتی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے حالانکہ متمدن دنیا کوریاستی مفاد اور مالیاتی سرگرمیوں کی طرح انسانی حقوق کو بھی اولیت دینی چاہیے مگر جوں جوں دنیا ترقی کی منازل طے کرتی جارہی اور زرائع آمدو رفت میں اضافہ ہو رہا ہے انسانی حقوق کی پامالی بڑھتی جارہی ہے تجارتی مفاد پر انسانی اور مذہبی حقوق قربان کیے جا رہے ہیں اِس کی واضح مثال ہمسایہ ملک بھارت ہے جہاں مسلمان ،سکھ ،عیسائی اور دلت روز بدترین سلوک سے دوچار ہوتے ہیں انسانی اور مزہبی حقوق کی پامالی عروج پرہے مگر عالمی طاقتیں چشم پوشی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں جس سے اقلیتوں کی اجیرن زندگی مزید بدتر ہوتی جارہی ہے بھارت نے مکاری و چالاکی سے سیکولر ریاست ہونے کا جھانسہ دیکر دنیاسے کئی دہائیوں تک ملک میں جاری انسانی حقوق کی پامالی کو چھپائے رکھا مگر گزشتہ دودہائیوں سے بی جے پی جیسی جنونی اور نتہا پسند جماعت نے اب توسیکولر کہنے کا یہ تکلف بھی ترک کر دیا ہے اور واضح طور پر ہندوتوا نظریے پر عمل پیراہے جس کی ہندو آبادی کی طرف سے پذیرائی مل رہی ہے گجرات میں بطور وزیراعلیٰ ہندوئوںکے جذبات سے کھیل کر ہی نریندرمودی جیسا سفاک شخص وزیرِ اعظم جیسے طاقتورترین منصب تک پہنچا اگر وہ گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل نہ کراتا اور پھر قاتلوں کو تحفظ نہ دیتا تو اِس منصب تک شاید ہی پہنچ پاتا اسی بنا پراب ہندو ستان حکومت نے سیکولر ریاست کا ظاہری دعویٰ بھی بالائے طاق رکھ دیاہے کیونکہ ہندو صرف اسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں جو ملک کو ہندو ریاست بنانے کا نعرہ لگائے ملک کی اکثریت میں پروان چڑھتی یہی سوچ بی جے پی جیسی فاشسٹ جماعت کیش کرارہی ہے جس کا ہنوز دنیا ادراک کرنے سے قاصرہے۔
اگر بھارت نے سیکولر ریاست کا ظاہری پیراہن اُتار کر خالص ہندوریات بننے کی طرف سفر شروع کر رکھا ہے تو محدود پیمانے پر ہی سہی ،چند ممالک کو کسی حد تک احساس ہونے لگا ہے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے یونیورسل پیریڈک ریویو وورکنگ گروپ نے اپنے حالیہ اجلاس کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کے ریکارڈ کا جائزہ لیا چوتھی بار لیے گئے جائزے میں بڑی تعداد میں کئی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیاجن میں امریکہ ،چین ،برطانیہ ،فرانس ،کینڈا،سوئٹرزلینڈ،آسٹریلیا،یوکرین ،ترکی،بیلجیئم،جنوبی افریقہ ،سپین ،نیپال،سعودی عرب ،جرمنی،ملائشیا،ناروے،اٹلی ،جنوبی کوریا،سنگاپورسمیت دیگر کئی ممالک شامل ہیں جنھوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے بھارتی اطوارپر بداعتمادی ظاہر کرتے ہوئے انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ تشویش زبانی کلامی حد تک ہے کیا بھارت عالمی آواز کو اہمیت دیکر طرزِ عمل پر نظر ثانی کرے گا؟ایسی کسی توقع کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اقوامِ متحدہ کشمیر کے حوالے سے اپنی ہی پاس کردہ قرار دادوں پر عمل کرانے پر توجہ دیتی تو آج پوری کشمیرکی وادی کویوںجیل بنانے کابھارت کو حوصلہ نہ ہوتا اسی تناطر میں کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں جاری انسانی حقوق کی پامالی کے جرم میں عالمی طاقتیں اور اقوامِ متحدہ بھی برابر کی حصہ داراور زمہ دار ہیں اگردنیا اقلیتوں کے مزہبی اور انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں سنجیدہ ہے تو بھارت کو مالیاتی اورتجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے دیکھنے او اہم تصور کرنے کی پالیسی پر اُسے نظر ثانی کرنا ہوگی۔
جنیوا میں 41ویں یونیورسل پیریڈک ریویو میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کے جائزے میں چار ممالک نے مشترکہ طور پر بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تشدد کے خلاف عالمی کنونشن کی توثیق کرے چیک ری پبلک نے بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ جموں وکشمیر میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں کی آزادانہ تحقیقات کرے جبکہ ترکی نے کہا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں دیرپا امن کا خواہاں ہے بیلجیئم نے جموں و کشمیر کا نام لیے بغیر بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ آرمڈ فورسز ا سپیشل ایکٹ ختم کیا جائے اِن مطالبات پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ناکافی ہیں اوردنیا کو اِس سے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت میں پنپتی جنونی سوچ میں کمی لائی جا سکے مگر دنیا کا خاموش رہنا یا مطالبات میں بھی ابہام رکھنا عالمی سطح پر بھارت کے رسوخ کی نشاندہی کاعکاس ہے جب تک دنیا مزہبی اور انسانی حقوق کی آزادیوں کے حوالے سے اپنایا دُہرا معیار ختم نہیں کرتی مزہبی اور انسانی حقوق پامال ہونے کاسلسلہ موقوف نہیں ہو سکتا اِس کے لیے لازم ہے کہ ریاستی مفاد،مالیاتی و تجارتی سرگرمیوں سے بالاتر ہوکر فیصلے کیے جائیں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا بلکہ مخصوص گروپوں اور علاقائی ترجیحات کی بناپر ظالم و جابر ممالک کو استثنیٰ دیا جاتا ہے اس طرزِ عمل سے بھارت ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہے اور اُس کی جنونی حکومت بلاخوف و خطر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کیونکہ فیصلہ سازی کی قوت رکھنے والی طاقتوں سے اُسے کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ طاقتیں بڑی حد تک اُس کی پشت پناہی کرتی ہیں اگر یہ طاقتیں صرف تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ عارضی طور پر ہی موقوف کرلیں تو بھارت کوبڑی آسانی سے راہ راست پر لانا ممکن ہے لیکن امریکہ ،برطانیہ ،فرانس کے علاوہ روس بھی تنقید کرنے یا مزہبی و انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنانے جیسے مطالبات کرنے سے گریزاں ہے جوظالم و جابرجنونی ملک کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد غیر معمولی ترقی کے بھارتی دعوے بھی غیر حقیقی ثابت ہوئے ہیں کیونکہ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیریوں کو ریلیف نہیں ملا بلکہ تکالیف میں اضافہ ہواہے اُن کی زندگیوں کولاحق خطرات اِس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ پوری وادی میں جسے چاہتے ہیں فوجی اُٹھا لیتے اور شدید تشد د کا نشانہ بناتے ہوئے مار دیتے ہیں ایسا کرتے ہوئے بچوں ،بوڑھوں ،خواتین اور نوجوانوں میں کوئی تخصیص نہیں کی جاتی دورانِ تشدد مرنے والوں کی آخری رسوم کی ادائیگی کو بھی مداخلت سے روک دیا جاتا ہے کشمیر میں اگر کسی شعبے میں ترقی ہو رہی ہے تو وہ قبرستان ہیں بزرگ کشمیری رہنما علی گیلانی کواسیری کے دوران علالت کے ایا م میں نہ صرف علاج و معالجے سے محروم رکھا گیا بلکہ بعد ازمرگ تدفین کے دوران اہلِ خانہ کو مذہبی رسومات سے روک دیا گیا اور اِس دوران اُن کی عمررسیدہ بیوہ کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز نہ کیا گیایہ انسانی اور مذہبی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے خصوصی حثیت کے خاتمے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کشمیرکا مسلم تشخص ختم کیا جارہا ہے مسلم اکثریت ختم کرنے اور اقلیت میں بدلنے کے لیے لاکھوں بھارتیوں کو ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں مساجد اور مدرسے ختم کئے جارہے ہیں زرعی اراضی پر بھارتی افواج قبضے کررہی ہیں کشمیریوں کو آمدن کے زرائع سے محروم کرنے کے لیے اُن کے باغات تباہ یا تلف کرنے کا سلسلہ جاری ہے لیکن اقوامِ عالم کی بے حسی اور لاتعلقی ختم نہیں ہو رہی ضرورت اِس امر کی ہے کہ اگر انسانی حقوق کی پامالی روکنی ہے اور مزہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنانا ہے تو بھارت کو مالیاتی اورتجارتی حوالے سے دیکھنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنا ہو گی وگرنہ ایمنسٹی انٹرنیشنل لاکھ کہے کہ بھارتی حکومت اقلیتوں سے حقوق واپس لے رہی ہے جنونی ہندو سرکار کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔