وجود

... loading ...

وجود

کراچی کو کب تک لوٹو گے؟

منگل 15 نومبر 2022 کراچی کو کب تک لوٹو گے؟

مجھے اب کراچی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے ڈر لگتا ہے، چلتے چلتے اچانک کوئی گڑھا، گٹر ، سڑک کے بیچوں بیچ رکھا گملا، کسی گٹر میں کھڑا ہوا بانس ، فٹ پاتھ پر رکھا ہوا، صوفہ ، یا سڑک کے درمیان میں رکھا ہوا کمبوڈ ،یا پلاسٹک کا بڑا سا باتھ ٹب ، سڑک کے درمیان اگا ہوا درخت مجھے خطرہ کا نشان نظر آتا ہے۔ایک بار ہم گلشن اقبال میں ڈینٹسٹ کے پاس گئے، میرے بچے اس وقت چھوٹے تھے، بیٹے نے گاڑی کاایک طرف کا پچھلا دروازہ کھولا اور نیچے پیر رکھتے ہی غائب ہوگیا۔ اس سے بڑی بیٹی دوسرے دروازے سے اتری ، اور اس نے اپنے بھائی کو نیچے ہوتے ہوئے دیکھا، وہ بھاگ کو دوسری جانب پہنچی تو ایک گٹر کھلا ہوا تھا ، اور اس کا بھائی اس میں گر چکا تھا، میں گاڑی پارک کرنے میں مصروف تھا، جوں ہی گاڑی بند کی، مجھے میری بیٹی کی چیخوں کی آواز آئی، میں جب تک گاڑی سے نکلا ایک مجمع جمع ہوچکا تھا، اور ایک نیک دل شخص نے گٹر میں اتر کر فوراً ہی بچے کو باہر نکال لیا تھا۔ کیچٹر اور غلاظت اور کاکروچ اس کے جسم پر نظر آرہے تھے، اس ہولناک حادثے کا میری بیٹی پر شدید اثر ہوا، اور اس کی چیخیں اب بھی مجھے اس واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ خود میں بھی ایک بار ایسے ہی حادثے میں زخمی ہوچکا ہوں، ناظم آباد کے علاقے میں جہاں میں نے گاڑی کھڑی کی تھی، واپسی پر ایک بند گٹر کے ایک حصے پر میرا پاؤں پڑا اور گٹر کا ڈھکن اٹھ گیا اور میں اس کے اندر گر گیا۔ لوگوں نے میری مدد کی اور مجھے نکال لیا، لیکن چوٹیں کئی دن تک اس حادثے کی یاد دلاتی رہیں۔کراچی میں کتنے بچے اور خواتین ، موٹر سائیکل سوار ایسے حادثوں کا شکار ہوچکے ہیں، کراچی میں ہر ایک موٹر سائیکل سوار اپنی زندگی میں کم و بیش ایک دو بار ایسے حادثوں سے دوچار ہوتا ہے۔ آرتھوپیڈک کے کیسیز کراچی میں بہت زیادہ ہیں۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کم و بیش چالیس برس سے اس شہر پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ درمیان میں دو تین بار بلدیات اور مئیر شپ جماعت اسلامی کے حصے میں بھی آئی ہے، لیکن مئیر عبدالستار افغانی ، اور نعمت اللہ خان نے جو خدمت کا اعلیٰ معیار قائم کیا ہے، ایم کیو ایم کے میئرزاور پارٹی کے ایڈمنسٹریٹرز اس کے پاسنگ کو بھی نہ پہنچ سکے، رہی سہی کسر پیپلز پارٹی نے موجودہ دور میں پوری کردی ، اب سندھ کے دیہات اور کراچی میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے، دونوں اپنے حکمرانوں سے نالاں ہیں، کراچی میں ٹرانسپورٹ کا بدترین نظام ہے، چنگ چی رکشوں ، موٹر سائیکلوں کی کثرت، پانی کے ٹینکروں کی مسلسل آمد و رفت نے پورے کراچی کے مواصلاتی نظام کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
کراچی میں بلدیاتی انتخابات اس شہر کی ضرورت ہیں، بہت سے ایسے مسائل جو تھوڑی بہت توجہ سے حل ہوسکتے ہیں، وہ ایماندار اور خدمت کرنے والے نمائندوں کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں۔ کراچی میں صفائی کا نظام ابتر ہے، حکومت نے جس کمپنی کو کروڑوں روپے کا ٹھیکہ دے رکھا ہے، اب اس کی کچرا اٹھانے والی گاڑیاں کہیں نظر نہیں آتی، کچرے کے پلاسٹک کے بڑے ڈرم بھی غائب ہوگئے ہیں، اب کچرا اٹھانے کے لیے موٹر سائیکلوں پر لگے ٹھیلے نما سائکل رکشہ استعمال ہوتے ہیں، وہ بھی کہیں کہیں کچر اٹھاتے اور اسے شہر ہی میں کسی جگہ ڈمپ کرتے نظر آتے ہیں، تین ہٹی سے گرومندر تک شہر کی اہم اور مصروف ترین دو طرفہ سڑک جہانگیر روڈ برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، لیکن سندھ حکومت یا بلدیاتی ادارے اسے مکمل طور بنانے کو تیار نہیں، گذشتہ دنوں سڑک کے ایک حصے کی مرمت کی گئی تھی، جو ایک ہی بارش میں بہہ گئی۔ اسی طرح گرومندر اور لسبیلہ چوک پر گہرے گہرے گڑھے پڑ گئے ہیں، جنہیں پر کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ جیل چورنگی پر بنے فلائی اورر سے جب یونیورسٹی روڈ پر اترا جائے تو یونیورسٹی روڈ اور فلائی کے ملاپ کے مقام پر سڑک مکمل طور پر ٹوٹ گئی ہے، جس کے باعث ہروقت یہاں کسی جان لیوا حادثے کا خطرہ موجود ہے۔ کشمیرروڈپر پڑھے گڑھے اور یونیورسٹی روڈ سے سر شاہ سلیمان روڈ کی جانب مڑنے والی سڑک پر ٹوٹ پھوٹ بھی ٹریفک کی روانی کو حسن اسکوائر کے قریب شدید متاثر کرتے ہیں، جہاں ایک سڑک دوسری سے قریباً 4سے6انچ نیچے ہوگئی ہے، اس کے باعث یہاں ٹریفک جام رہنے کے ساتھ ساتھ حادثے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہے، مگر کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔لیاقت آباد سے کریم آباد کی طرف جاتے ہوئے لیاقت فلائی اوور پر اور شہید ملت روڈ پر بنے عمر شریف انڈر پاس میں کئی جگہ گڑھوں کی موجودگی سے بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ حادثات کا امکان ہر دم رہتا ہے۔یہ کراچی کے پوش علاقے ہیں ، باقی علاقوں کی تباہی تو دیکھی نہیں جاسکتی۔
کل سے کراچی میں چار روزہ بین الاقوامی دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022 کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے جارہی ہے، جس کا افتتاح وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کریں گے۔ اس نمائش کے لیے حسن اسکوئر کے اطراف میں سڑکوں کو جس جادوئی طریقہ پر راتوں رات اپ ڈیٹ کیا گیا ہے، وہ ہماری بیوکریسی کا شاہکار ہے، ایکسپو کے سامنے سوک سینٹر کے چوراہے سے سارا کچرا صاف کردیا گیا ہے، بلکہ پودے اور گھاس بھی لگا دی گئی ہے، تاکہ وزیر اعظم کو بتایا جاسکے کہ کراچی بہت ترقی یافتہ ہے۔ وزیر اعظم کو مزار قائد اعظم پر آنا چاہیے اور گرومندر کے اطراف کا بھی دورہ کرنا چاہیے، اگر وہ اس کا صرف اعلان کردیں تو صبح کو آپ کو صاف ستھرا چمکتا دمکتا گرومندر کا علاقہ دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ چار روزہ دفاعی نمائش ڈیفنس ایکسپو سینٹر میں ہوگی۔ اور یہ چار دن ایکسپو کے آس پاس رہنے والوں کے لیے کس قدر عذاب ناک ہوں گے، اس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ پورے شہر کا ٹریفک درہم برہم ہوگا۔ لوگ گھنٹوں ٹریفک میں چار دن تک بار بار پھنسے رہیں گے۔ دل تو چاہتا ہے کہ یہ ایکسپو سینٹر اور کراچی اسٹیڈیم یہاں سے اٹھا کر بلاول ہاوس کے سامنے منتقل کرادوں۔
اب کراچی میں چوتھی بار بلدیاتی انتخابات ملتوی ہورہے ہیں۔ سندھ کابینہ نے کراچی ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن 90 روز کے لیے ملتوی کرنے کی منظوری دیدی ہے سندھ کابینہ کی منظوری سے متعلق الیکشن کمیشن کو آگاہ کردیا۔ پیپلز پارٹی کا ساتھ متحدہ بھی دے رہی ہے، اور سابق ناکام ، اور 12 مئی کے ماسٹر مائنڈمیئر نے عدالت میں ان انتخابات کے التوا کی درخواست دی ہے۔ ایک سے ایک بہانے اورطریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اس بار بلدیاتی الیکشن آگے بڑھانے کے لیے سندھ حکومت نے بلدیاتی ایکٹ میں ملنے والے اختیارات کا استعمال کیا ہے۔بلدیاتی ایکٹ میں شق 34 کو تبدیل کرنے سے 120 دن میں الیکشن ہر صورت کرانے کی پابندی ختم ہوگئی۔ اب تبدیلی کے بعد انتخابات 90 دن یا غیر معینہ مدت تک بھی نہیں کرائے جاسکیں گے۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں عوامی مسائل کو جس طرح اٹھایا، لوگوں میں اپنے حقوق کا شعور بیدار کیا، اس سے حکومت اور متحدہ کو خطرہ ہے کہ انتخابات کا یہ میدان حافظ نعیم الرحمان جیت لیں گے۔ اس لیے انھوں نے ہر طرح عوام کے عوامی نمائندوں کو آنے سے روکنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس بارے میں الیکشن کمیشن اور سندھ حکومت ، اور متحدہ ملے ہوئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی اور غیر قانونی ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کراچی سے جو خیر کی امیدیں تھیں وہ بھی یہ دیکھ کر ختم ہوگئی ہیں کہ سڑکوں کی استرکاری کے نام پر اربوں روپے کی کرپشن، ناقص میٹریل کا استعمال سب کچھ ان کے دور میں ہورہی ہے۔
کراچی دودھ دینے والی گائے ہے، اس سال بھی اس شہر کے باسیوں نے 42فیصد زیادہ ٹیکس جمع کروایا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کے مسائل سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر