وجود

... loading ...

وجود

مغربی جمہوریت اور یاہو اسرائیلی جمہوری ماڈل!

اتوار 13 نومبر 2022 مغربی جمہوریت اور یاہو اسرائیلی جمہوری ماڈل!

پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کا ایک ریکارڈ رکھتے ہیں۔یہ پاکستان کی تاریخ کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔ تین بار وزیر اعظم رہنے کے بعد آج کل لندن کے متنازع ایون فیلڈ فلیٹس میں سیاسی مورچہ لگائے ہوئے ہیں۔وہ اور ان کا خاندان سمجھتا ہے کہ کرپشن کے الزامات کی گٹھڑی کے ساتھ ملک کے اندر رہتے ہوئے سیاست کرنے کا مطلب سیدھا جیل جانا ہو سکتا ہے۔اس لیے فی الحال بیرون ملک بیٹھ کر سیاسی بساط پر چالیں چلتے رہنا محفوظ اور مفید ہے۔ ان کا ہدف چوتھی بار وزارت عظمیٰ کا حصول ہے۔ اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو یہ ان کا ایک نیا ریکارڈ ہوگا۔لیکن اسرائیل میں بن یامین نتن یاہو نے اپنی انتہائی حد تک انتہا پسند اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر چھٹی بار وزیراعظم بننے کا ہدف یقینی بنا لیا ہے۔ اگر کوئی انہونی نہ ہوئی تو وہ ان سطور کے لکھے جانے کے چند دن میں چھٹی بار اسرائیل کے وزیراعظم بننے کا ریکارڈ قائم کر لیں گے۔مزے کی بات یہ ہے کہ ان پر بھی کرپشن کے رنگا رنگ الزامات ہیں۔ ان میں وہ الزامات بھی شامل ہیں جو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف پر لگتے ہیں۔جن میں رشوت خوری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور مالی فوائد کے بدلے اپنے من پسند افراد کو فائدہ پہنچانا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے مشہور زمانہ توشہ خانے سے متعلق الزامات کا بھی نتن یاہو کو سامنا ہے۔ اس کے باوجود وہ پھر اقتدار پر فائز ہونے کے قریب ہیں۔ہمہ وقت اپنی افواج کو فلسطین کے گلی کوچوں میں پورے وحشیانہ انداز میں فلسطینیوں کے خلاف استعمال میں رکھنے والے اسرائیل کے لیے نتن یاہو کی حکومت آنے کے بعد عدم استحکام کا کس قدر اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ یہ سامنے نظر آنے والی چیز ہے۔نتن یاہو کی سیاست کو ایندھن ہی فلسطینیوں کا کشت و خون جاری رکھنے سے ملتا ہے۔ اب تو یاہو کے ایک اہم اتحادی اور پرلے درجے کے انتہا پسند ایتمار بن گویر نے اسی مقصد کے لیے پولیس کی وزارت بھی حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کر دی ہے۔
نتن یاہو اس سے بھی جو بڑا کام کرنے جا رہے ہیں وہ دنیا میں جمہوریت کا اسرائیلی ماڈل متعارف کرانے کا ہے۔ جمہوریت کا مغربی ماڈل آزادی، مساوات اور انسانی حقوق کے اصولوں کے پرچار سے جڑا ہوا ہے۔ اس میں لبرل تصورات، سماجی امن اور جمہوری رویے کے طور پر اختلافات کو قبول کرنے کا عنصر بھی شامل بتایا جاتا ہے۔جبکہ نتن یاہو اپنے کٹر اور انتہا پسند اتحادیوں کے تعاون سے ڈیموکریسی کا ایسا اسرائیلی ماڈل متعارف کرانے کی تیاری کر چکے ہیں۔ جس میں آزادی، مساوات اور انسانی حقوق یا انسانی عظمت کا نعرے یا دعوے کی حد تک بھی وجود نہیں ہے۔یہ خالصتاً اسرائیلی ساختہ ڈیموکریسی کا ماڈل ہے۔ یہ ethnocracy, raceocracy, theocracy اور zionocracy کا ملغوبہ ہے۔ اس میں خیر نہیں شر ہی شر ہے۔ اس لیے انتظار رہے گا کہ مغربی جمہوریت کے پیش کار اسے اپنی ہی جمہوریت کی انتہائی شکل کے طور پر قبول کر کے دنیا میں اپنی جمہوریت کی جگ ہنسائی کا خطرہ مول لیتے ہیں یا اسے اپنے روایتی تصورجمہوریت سے متصادم نظام کے طور پر لیتے ہیں۔تاہم یہ طے ہے کہ عالمی منظر نامے پر مغربی جمہوریت یا وڑن ڈیموکریٹس کے تصورات کو سب سے مؤثر چیلنج اسی اسرائیلی ماڈل سے ہو گا۔
امریکا اور یورپ میں صہیونی اس کے بے شرم حامیوں کے طور پر اس لیے سامنے آ سکتے ہیں کہ وہ تمام تر اسرائیلی کرتوتوں کے باوجود یہ سوچ رکھتے ہیں ’اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا ہمیں اسے ایجاد کرنا پڑتا۔نتن یاہو اور بن گویر و دیگر اتحادیوں نے اپنی اسرائیل ماڈل کی ڈیموکریسی کا بنیادی خاکہ جولائی 2018 میں پیش کر دیا تھا۔ جولائی 2018 میں بنایا گیا نیا قانون اسرائیل کو جمہوری ریاست بنانے کے بجائے خالص یہودی ریاست بنانے کی طرف ایک بڑی پیش رفت تھی۔جولائی 2018 میں منظور کردہ اس قانون میں جن باتوں کا اہتمام سے ذکر شامل نہیں کیا گیا تھا وہ جمہوریت اور مساوات انسانی تھی۔ نتن یاہو نے اسرائیل کو یہودی ریاست بنانے کے قانون کی منظوری کے موقع پر اسے ’فیصلہ کن‘ مرحلہ قرار دیا تھا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے مغربی جمہوریت سے مراجعت کے سفر کا باقاعدہ آغاز نتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے انتہا پسند اتحادی سیاستدان 2018 سے کر چکے ہیں۔اسرائیل کو ایک کامل یہودی ریاست بنانے سے متعلق قانون کی منظوری آناً فاناً ہو گئی تھی۔ اگرچہ اس پر اسرائیلی آبادی کے بیس فیصد حصے کی نمائندگی کرنے والے عرب ارکان پارلیمنٹ نے سخت احتجاج کیا تھا کہ اسرائیل کو خالص یہودی ریاست قرار دینے کا قانون ’جمہوریت کی موت‘ ثابت ہو گا۔
نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے 83 سالہ اسرائیلی صدر نے بھی اسرائیل کے اندر اور باہر ہر جگہ اس نئے قانون کو یہودیوں کے لیے مسائل پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیا تھا۔نتن یاہو اسی قانون کے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک بار پھر وزارت عظمیٰ سنبھالنے آ رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت اسرائیل خالص ایک یہودی ریاست ہو گی، عبرانی زبان ہی واحد سرکاری زبان ہو گی۔ بین الاقوامی قانون کے خلاف سمجھی جانے والی یہودی بستیاں اس قانون کی منظوری کے بعد اسرائیل کی ترجیح اول میں باقاعدہ شامل ہو چکی ہیں۔بین الاقوامی قانون، اخلاقیات اور اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس اسرائیلی دارالحکومت نہیں ہے۔ مگر جولائی 2018 کے اس قانون کے تحت بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا۔اسرائیل کے اسی قانون کی تائید میں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ٹرمپ نے دوسری بار بھی جمہوریت گنوا کر امریکا کا صدارتی انتخاب جیتنا چاہا تھا مگر ناکام رہے۔ جبکہ نتن یاہو کامیاب ہو چکے ہیں۔ جو سلوک ٹرمپ کو جمہوریت اور جمہوری اصولوں کے ساتھ امریکہ میں کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا وہ یاہو کو اسرائیل میں مل گیا ہے۔اسرائیلی ساختہ جمہوریت میں اسرائیل کی بانی مسلح تنظیموں ’ہگانہ‘ ، ’ارگن‘ اور ’لیہی‘ کا کردار کلیدی ہے۔ بلاشبہ اب ان کا براہ راست وجود باقی نہیں رہا مگر اسرائیلی فوج کی صورت میں وہ سب اکٹھی ہو کر دو آتشہ ہو چکی ہیں۔ان مسلح تنظیموں سے وابستہ رہنے والے اور بعد ازاں اسرائیلی فوج کے اہم عہدوں پر فائز کر دیے جانے والوں میں سے ہی عام طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد اسرائیلی پارلیمنٹ کے رکن اور حکومتی عہدے دار بنتے رہے ہیں۔ ان سے اسرائیل کی اسی طرح کی خونخوار جمہوریت کی توقع ہو سکتی تھی۔
اسرائیلی جمہوریت کی تشکیل میں دوسرا بڑا کردار سابقہ سوویت یونین اور موجودہ روس کے علاقوں کے علاوہ مشرقی یورپ سے درآمد کردہ اکثریتی یہودیوں کا رہا۔ ان یہودیوں نے جس نوعیت کے نظام ہائے حکومت میں آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ اس سے مختلف ماڈل کی جمہوریت اسرائیل میں برداشت ہی نہیں سکتے تھے۔ مغربی جمہوریت سے متاثرہ ملکوں سے یہودیوں کی مقابلتاً کم تعداد درآمد ہو کر اسرائیل آئی تھی۔
اتفاق ہے کہ اسرائیل کے ابتدائی حکمرانوں میں زیادہ تر تعداد مشرقی یورپ کے ملکوں سے اسرائیل منتقل ہوئی تھی۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ خود بن گورین کی اپنی جماعت اسرائیل میں آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ اس کے صرف چار دانے کنیسٹ میں جا سکے ہیں۔
ایک طرف انتہا پسندانہ یہودی نظریات کی حامل جماعتیں زور پکڑ رہی ہیں تو دوسری جانب خود اسرائیل کی نئی نسل بھی اس ملک کو اپنے مستقبل اور پرسکون جگہ کے لیے قطعاً مناسب خیال نہیں کر رہی کہ یہاں کی حکومت، سیاسی جماعتیں اور فوج ہر وقت مارا ماری کی پالیسی کے ساتھ بد امنی اور جدل کا ماحول خود بنا رہی ہوتی ہے۔ یہ صورت حال بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ایک ایسی یہودی ریاست جو نسل پرست بھی، مذہبی طور پر انتہا پسند بھی، قبضہ جاتی اور دہشت گردانہ نو آبادیاتی شناخت رکھنے کے ساتھ ساتھ توسیع پسندی کے ایسے عزائم کی حامل بھی ہو۔ دنیا کے کسی بھی حصے کا یہودی اس کا شہری قرار پائے۔جنگی اسلحے کی اسے کمی نہ ہو اور سرکشی کی حد نہ ہو۔ تو کیا ایسی ریاست اپنے اڑوس پڑوس کے لیے خیر، صلح اور امن کا باعث ہو سکتی ہے۔ کیا اردن، شام، لبنان ، یمن، عراق اور سعودی عرب اس کی نگاہ بد سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
کیا امریکااور مغربی دنیا جمہوریت کے اس اسرائیلی ماڈل اور اس کے عوام کی اکثریت کے مشرقی یورپ اور روس کی طرف رجوع میں حائل ہو سکتی ہے؟ جیسا کہ روس اور یوکرین کی جاری جنگ میں بھی اس چیز کا مشاہدہ ہو چکا ہے۔ کیا اسرائیلی جمہوریت کے ماڈل کے ساتھ موجودہ عالمی نظام چل سکے گا؟ مغربی اقوام اپنی جمہوریت کا یہ نسل پرستانہ ماڈل دنیا میں بیچ سکیں گی، اس کا دفاع کر سکیں گی؟یقیناً اس کے دفاع میں امریکا اور یورپ کی اپنی ساکھ کی عمارت اسی طرح اسرائیلی جمہوریت کے ماڈل کی زد میں مسمار ہو جائے گی جس طرح اسرائیلی فوج کے بلڈوزروں کے نیچے میں فلسطینیوں کے گھر صبح شام مسمار ہو رہے ہیں۔ بس چند دن میں نیتن یاہو کے چھٹے دور حکومت کے آغاز کی دیر ہے۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عالمی سطح پر بی ڈی ایس نے جس طرح اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر رکھی ہے، اسرائیل کے جمہوری ماڈل کا بائیکاٹ مغربی او امریکی لبرلز کرتے ہیں یا چپ سادھ لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر