... loading ...
ٓٓ
سابق وزیر اعظم عمران خان پر حالیہ ناکام قاتلانہ حملے کے بعد اب اس حقیقت سے کوئی انکا ر نہیں کرسکتا کہ اس حملے میں ناکامی کی وجہ سے ان کے مخا لفین کو عوامی سطح پر شدید نقصان پہنچا ہے لیکن اگر یہ حملہ کامیاب ہو جاتا تو مسلم لیگ ن اور جمیعت علماء اسلام (ف) پر شدید منفی اثرات ہوتے شاید مسلم لیگ ن انتخابات میں آنے والے ایک یا دو سال بعد حصہ بھی لیتی تو وہ چند سیٹو ں تک محدود ہوجاتی اسی قسم کا نقصان جے یو آئی( ف) اور پیپلز پارٹی کو بھی ہوتا لیکن سندھ میں شاید اس کے اثرات شہری علاقوں تک محدود رہتے جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے وہ تحریک انصاف سے علیحدگی کے بعد جس بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے میں ناکام ہے اور عوامی سطح پر زوال پذیر ہے اس حملے کا خطرناک پہلو اسے مذہبی رنگ دینا ہے جس کا نقصان مستقبل میںپیپلز پارٹی کی سیاست پر نسبتاًزیادہ ہوگا اور مسلم لیگ (ن) بھی اس کے منفی اثرات سے محروم نہیں رہے گی اس حملے کے بعد یہ خیال کیا جارہاتھا تحریک لبیّک اور پی ٹی آئی آمنے سامنے آجائیں گے اور گلی گلی لڑائی کے بعد ملک میں ہنگامی حالات نافذ کردیے جائیں گے پی ٹی آئی اور تحریک لبیّک کو انتخابی عمل سے باہر کردیا جائے گا اگر یہ حملہ نہ ہوتا چند روز بعدچاہے کتنی ہی بڑی تعداد اسلام آباد میں جمع ہوجاتی حکومت کو کوئی نقصان نہ ہوتا بلکہ خود پی ٹی آئی کو اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا اگر وہ ناقابل یقین ایک کروڑ لوگ بھی جمع بھی کر لیتی تو بھی کچھ نہ ہوتا اگر وہ اہم عمارتوں کی طرف رخ کرتے تو عمران خان اور انکی جماعت کے اہم رہنما نااہل ہوجاتے شاید پارٹی پر پابندی لگ جاتی لوگوں کے عمارتوں چڑھ دورنے سے امن وامان کا مسئلہ ہوسکتاہے لیکن حکومت نہیں بدلی جاسکتی پاکستان میں یہ تصور عام ہے کہ طاقتور ادارے یا امریکا جو چاہے کر سکتے ہیںالف سے ے تک سب کچھ ان کے قابو میں ہے اس تصور کی اہمیت سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا لیکن اسے من وعن حقیقت قرار دینا مناسب نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں اس تصور کے سحر میں اس قد ر مبتلا ہیں کہ وہ اس آدھے سچ کو حرف آخرسمجھ کر اپنے پیڑوں پر مسلسل کلہاڑی مار رہی ہیں نتیجہ یہ ہے کہ انتخابات میں شکست کے خوف میں مبتلا ہوکرمکمل طور پر طاقتور حلقوں کے رحم وکرم پر ہیں اس سراب نما مفروضے کی وجہ سے عمران خان کے پیچھے ان طاقتوں کو تلاش کرنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے عمران خا ن کی عوامی حمایت آٹھ مارچ سے مسلسل بڑھ رہی ہے اور حکمراں اتحاد کی حمایت کم ہورہی ہے وہ یہ یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ عمران خان بغیر کسی سرپرستی کے اپنی عوامی حمایت ،سیاسی طاقت اور مقبولیت اضافہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے پی ڈی ایم کی جماعتوں اور بعض دانشوروں نے یہ الزام بھی لگانا شروع کردیا کہ طاقتور حلقے یا ا ن کا ایک حصہ ان کی پشت پناہی کررہا ہے جبکہ طاقتور حلقوں نے حکمر ان اتحاد سے یہ توقع وابستہ کرلی کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر ملک کا انتظام بہت بہتر انداز میں چلائیں گی اور ان کی مدد سے اچھی حکمرانی کا سلسلہ شروع ہوگا معیشت مستحکم ہوگی سیاسی بحران بھی نہیں ہوگا لیکن آغاز سے ہی کھیل بگڑنے لگا عمران خان کی حکومت آئینی طریقہ کار سے تبدیل کی گئی لیکن اس کا انداز بہت بھونڈ ا تھا جس انداز سے اراکین اسمبلی کو سندھ ہائو س میں جمع کیا گیا وہاں سے اسلام آباد کی ہوٹل میں منتقل کیا گیا رقوم کی ترسیل کے الزامات پر مشتمل خبریں شائع ہونے لگیں حکومتی اتحادیوں نے علیحدگی اختیارکی یہ جماعتیں سمجھ رہی تھیں کہ عمران خان کوئی مزاحمت نہیں کرے گا لیکن اس نے عوامی اجتماعات سے خطاب کرنا شروع کیا سائفر کا سہارا لے کر سازش کی کہانی کو عوام میں بیان کرنا شروع کیااگر پیپلز پارٹی اپنے کسی اچھی ساکھ رکھنے والے غیر معروف رکن اسمبلی کو وزیر اعظم بناتی تو نسبتاً بہتر نتیجہ نکلتا لیکن شہباز شریف کے مقدمات کو ختم کرانے اور پنجاب میں منحرف اراکین اسمبلی کے ذریعے حمزہ شہباز کی حکومت تشکیل دینے کے عمل سے اس پورے عمل میں عوامی اعتماد کو مزید ڈھچکا لگااور تیزی سے مسلم لیگ کی حمایت کم ہونے لگی قومی اسمبلی میں بھی تحریک عدم اعتما د کے دوران کی جا نے والی تقاریر میں پی ٹی آئی حاوی ہوگئی پی ٹی آئی نے سوال اٹھایا کہ یہ اسمبلی جو کہ پی ڈی ایم کی نظر میں جعلی تھی اچانک اصلی کیسے ہوگئی۔
عمران خان نے ملک گیر جلسوں کا سلسلہ شروع کردیا اور عوام کی کثیر تعداد کی شرکت کی وجہ سے ان کی مقبولیت بڑھتی گئی ا گر شہباز شریف اور بلاول بھٹو جلد بازی نہ کرتے اور پیچھے رہتے تو بہتری کی صورت نکل سکتی تھی اختر مینگل کو بھی وزیر اعظم بنایا جا سکتا تھا جس طرح بھارت میں 1996 میں دیو گوڈا کو وزیر اعظم بنایاگیا تھاجن کا تعلق ایک چھوٹی سی جماعت سے تھا اوراکثریتی جماعت کانگریس نے حمایت کی تھی اس طرح کافارمولہ زیادہ موثر ہوتا مسلم لیگ اور پی پی پر تنقید کم ہوتی حالات کی خرابی کی براہ راست ذمہ داری نہ آتی دوسرا مسئلہ بجلی اور پٹرول کی قیمت ہے جس کے اضافے کے ساتھ کسی بھی حکومت کو عوام میں پذیرائی نہیں مل سکتی یہ مسئلہ آئی ایم ایف سے بہتر مذاکرات سے حل ہو سکتا تھا اس میں بھی جلد بازی سے مسئلہ خراب ہوا پیپلز پارٹی نے وزارت خزانہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی شاید وہ زیادہ اچھی ڈیل کرتے عمران خان کو مزید مقبول بنانے میں مریم نواز ،رانا ثنا ء اللّہ،شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے دیگر رہنمائو کے غیر سنجیدہ بیانات نے بھی کردار اداکیا اور عمران خان اپنے جلسوں میں ان بیانات کو اچھالتے رہے حکمراں اتحاد نے طاقتور حلقوں سے یہ توقع وابستہ کرلی کہ عمران خان کی جماعت کو مکمل کچل دیا جائے اور تمام صوبوں خصوصاً پنجاب میں انہیں حکومت دی جائے اس سلسلے میں کوشش بھی ہوئی لیکن مسلم لیگ (ن) موثر لائحہ عمل تیار نہ کرسکی تحریک انصاف نے چودھری پرویز الٰہی کو ساتھ ملاکربازی پلٹ دی پی ڈی ایم کا آخری کھیل طاقتور حلقوں اور پی ٹی آئی کو تصادم کی کیفیت میں مبتلا کرنا تھا جس کے لیے بعض گرفتاریوں اور ممتا ز صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیااس کے بعد مسلسل پریس کانفرنس کا سلسلہ رہا حالانکہ یہ ایسی کوشش تھی جیسے بلیک بورڈ پر کوئلے سے لکھ کر دکھایا جا رہا ہو اور یہ بھی کہا جا رہا ہو کہ ہاتھ کالے نہیں ہو رہے ہیں یعنی نتائج منفی رہے اب موجودہ ناکام حملہ دنیا بھر کی توجہ بن گیا اب عمران خان کی بات پوری دنیا میں زیادہ توجہ سے سنی جارہی ہے اور عالمی قوتیں بھی سوچ وبچار کرسکتی ہیں عمران خان کے پیچھے ان کے کارکنان اور حامیوں کی بڑی تعداد ہے جو ہر شعبے میں ہے کچھ سامنے سے کھل کر مدد کرتے ہیں کچھان کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں لیکن ان کے پیچھے ایک اور بڑی قوت خودحکمراں اتحاد کی ناقص پالیسیا ں اور امضحکہ خیز بیا نات بھی ہیں وقت ثابت کر رہا ہے کہ عمران خان ایک ا یسے اسٹیل اسپرنگ کی مانند ہیں جنہیں جتنا دبایا جاتا ہے وہ اتنی ہی تیزی سے ابھر کر سامنے آتے ہیں سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ حکمران اتحاد طوفان کے تھمنے کا انتظا ر کرنے بجا ئے سامنے کھڑا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔