... loading ...
دوستو،خان صاحب کو پڑھ کر اس تحریر کا رخ سیاست کی طرف نہ موڑ دینا، کیوں کہ ملکی سیاست میں خان صاحب ان دنوں ’’عمران خان‘‘ کو کہاجاتا ہے۔۔ یہاں ہم نے خان صاحب اس ’’کیریکٹر ‘‘ کے لیے استعمال کیا ہے جو دلچسپ واقعات اور لطیفوں میں بے تحاشا پڑھنے میں آتا ہے،جس طرح ہمارے ملک میں لطیفوں کے اندر ’’خان صاحب‘‘ بدنام ہے اسی طرح ہمارے پڑوسی ملک میں ’’سردار جی‘‘ ہم پلہ قرار دیئے جاسکتے ہیں۔۔ایک خان صاحب مٹھائی کی دکان پر گئے اور حلوائی سے کہا کہ۔۔ایک کلو گلاب جامن دے دو، جب حلوائی اسے گلاب جامن دینے لگا تو اس نے کہا۔۔ گلآب جامن رہنے دو اس کے بدلے 1 کلو لڈو دے دو۔۔حلوائی نے 1 کلو لڈو دے دیئے تو اچانک خان صاحب کو موڈ تبدیل ہوگیا بولے۔۔ایسا کرولڈو رہنے دو، ایک کلو رس ملائی دے دو۔۔ حلوائی رس ملائی تولنے لگاتو خان صاحب نے آواز لگائی۔۔ رس ملائی کی جگہ برفی دے دو، میرے بچے برفی بہت شوق سے کھاتے ہیں۔۔حلوائی نے جلدی سے برفی تول کر پیک کی اور شاپر خان صاحب کے ہاتھ میں تھمادیا مبادا کہیں پھر سے ارادہ تبدیل نہ ہوجائے۔۔خان صاحب نے شاپر پکڑا اور جانے لگے تو حلوائی نے کہا۔۔ تم نے پیسے نہیں دیئے۔ اس پر خان صاحب نے پوچھا پیسے کس چیز کے؟؟حلوائی نے کہا، برفی کے۔۔ خان صاحب بولے، لیکن برفی تو میں نے رس ملائی کی جگہ لی ہے۔حلوائی بولا اچھا تو پھر رس ملائی کے پیسے دے دو۔۔وہ بولے۔۔رس ملائی تو میں نے لڈو کی جگہ بولی تھی۔۔ حلوائی بولا لڈو کے پیسے دے دو۔۔ خان صاحب نے کہا، لیکن لڈو تو میں نے گلاب جامن کی جگہ بولے تھے۔۔ حلوائی زچ آکر بولا۔۔چلو گلاب جامن کے پیسے دو۔۔ خان صاحب نے مسکرا کر کہا۔۔ لیکن گلاب جامن تو ہم نے لیا ہی نہیں۔۔بھلے یہ شاپر دیکھ لو، اس میں برفی ہے۔۔
دنیامیں عجیب عجیب اتفاق ہوتے ہیں۔۔ دبئی کا واقعہ ہے۔۔ ایک خان صاحب اور سردارجی دونوں گہرے دوست مل کر تھیٹر میں فلم دیکھ رہے تھے۔۔فلم میں ایک سین آتا ہے کہ، ایک شخص ایک بدکے ہوئے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور گھوڑا بہت تیز دوڑرہا ہوتا ہے۔۔خان صاحب فوراً چیخ کر کہتا ہے یہ ضرور گر جائے گا۔۔سردار جی جواب میں کہتے ہیں۔۔نہیں گرے گا۔۔ دونوں میں شرط لگ جاتی ہے۔اور تھوڑی دیر بعد وہ آدمی گھوڑے سے گر جاتا ہے۔۔خان صاحب چہکتے ہوئے کہنے لگے۔۔ دیکھا میں نے کہا تھا نہ یہ گر پڑے گا۔۔سردار جی منہ لٹکاکربولا۔۔دراصل میں نے کل رات بھی یہ فلم دیکھی تھی اور یہ کل رات بھی گر پڑا تھا۔تو میرا خیال تھا کہ اس بار یہ گھوڑا سنبھل کر چلائے گا۔۔ٹرین میں وارننگ لکھی ہوئی تھی۔۔ٹکٹ کے بغیرسفرکرنے والے ’’ہوشیار‘‘۔۔۔ خان صاحب نے جب یہ جملہ پڑھا تو بڑبڑائے۔۔ اچھا جی، ہم ٹکٹ لے کر سفرکررہاہے یعنی کہ ہم ’’ بے وقوف‘‘ ہے۔۔؟؟ایک خان صاحب انڈے بیچتے تھے۔۔ کافی بڑی دکان تھی۔۔ جس بلڈنگ کے نیچے خان صاحب کی انڈوں کی دکان تھی، اس کے پہلے فلور پر ایک ڈاکٹر کا کلینک بھی تھا۔۔ایک دن کا ذکر ایک آدمی سر راہ ڈاکٹر سے ملا تو حیرت سے پوچھا۔۔ جناب آپ اپنا کلینک بند کر کے چپکے سے کہیں چلے گئے اور کسی کو بتایا تک بھی نہیں۔ایسا کیا ہوگیا تھا؟؟ ڈاکٹر نے اپنے مریض کی بات سننے کے بعد حیرت سے کہا۔۔ نہیں تو!! میرا کلینک تو ابھی بھی وہیں پر ہی ہے۔ تمہیں ایسا کس نے بتایا؟اس آدمی نے کہا۔۔آپ کے کلینک کے نیچے انڈے بیچنے والے خان صاحب نے بتایا تھا۔۔ڈاکٹر صاحب سیدھا اس دکان پر گئے اور پوچھا ۔۔بھائی، تیرے میرے بیچ میں ایسی کون سی بات ہو گئی ہے کہ تم میرے مریضوں کو اوپر میرے کلینک میں جانے دینے کی بجائے بتاتے ہو کہ میں یہاں سے کلینک بند کر کے کہیں اور چلا گیا ہوں۔۔ ایسا کیوں کر رہے ہو؟ خان صاحب نے کہا۔۔ ڈاکٹر صاحب،آپ بھی تو جو بھی مریض آتا ہے اسے کہتے ہو انڈے نہ کھایا کرو ان سے الرجی ہوتی ہے۔اگر کام کرنا ہے تو مل کر کرتے ہیں۔۔ورنہ دکان بند ہو گی تو دونوں کی ہوگی۔۔
ایک خان صاحب کو بڑا زعم تھا کہ ان کا مشاہدہ بہت تیز ہے۔۔ اس کے لیے وہ اکثر اپنے دوستوں کو بھی چیلنج کردیاکرتے تھے۔۔ایک روز اپنے دوست سے کہنے لگے۔۔۔میں بیس برس سے ایک بات نوٹ کررہا ہوں۔۔دوست نے حیران ہوکر پوچھا۔۔وہ کیا؟؟ خان صاحب کہنے لگے۔۔ جب بھی پھاٹک بند ہوتا ہے ٹرین ضرور آتی ہے۔۔ایک خان صاحب بحریہ ٹاؤن میں ایک پرتعیش بنگلے میں چوکیدارکے انٹرویو کیلئے گیا۔۔ مالک نے سوال پوچھا۔۔کیا تم کو انگریزی آتی ہے؟؟ خان صاحب نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔۔کیا چور انگلینڈ سے آئیں گے۔۔؟؟یہی خان صاحب انٹرویو میں ناکامی کے بعد ایک بیکری والے کے پاس ملازم ہوگئے۔۔ پہلے ہی دن بیکری کے مالک نے کہا ۔۔۔ اس کیک پر ہیپی برتھ ڈے لکھ کر لاؤ۔۔ نئے ملازم نے تذبذب کے عالم میں کیک کو دیکھا اور اسے اٹھا کر لے گیا۔ کچھ دیر بعد بیکری کے مالک نے آواز دے کر پوچھا کہ ۔۔بھئی ابھی تک لکھا نہیں گیا کیک پر؟ نئے ملازم نے جواب دیا۔۔ تھوڑی دیر ٹھہر جائیں، مجھ سے کیک ٹائپ رائٹر میں فٹ نہیں ہو رہا ہے۔۔یہی خان صاحب جب میٹرک میں بار بار فیل ہورہے تھے تو تنگ آکر باپ نے وارننگ دی۔۔ اگر تم اس بار بھی فیل ہوئے تو تم نے مجھے ابا نہیں کہنا۔ نوجوان نتیجہ سن کر گھر واپس آیا تو باپ نے پوچھا کیا ہوا۔ ۔اس نے جواب دیا۔۔جنت گل اس بار بھی وہی وا جو پہلے ہوا کرتا تھا۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک شخص سمندر کے کنارے واک کر رہا تھا تو اس نے دور سے دیکھا کہ کوئی شخص نیچے جھکتا ، کوئی چیز اٹھاتا ہے اور سمندر میں پھینک دیتا ہے، ذرا قریب جاتا ہے تو کیا دیکھتا ہے ہزاروں مچھلیاں کنارے پہ پڑی تڑپ رہی ہیں، شاید کسی بڑی موج نے انہیں سمندر سے نکال کر ریت پہ لا پٹخا تھااور وہ شخص ان مچھلیوں کو واپس سمندر میں پھینک کر ان کی جان بچانے کی کوشش کر رہا تھا۔اسے اس شخص کی بیوقوفی پر ہنسی آگئی اور ہنستے ہوئے اسے کہا۔۔ اس طرح کیا فرق پڑنا ہے ہزاروں مچھلیاں ہیں کتنی بچا پاؤ گے ۔۔ ؟؟یہ سن کر وہ شخص نیچے جھکا، ایک تڑپتی مچھلی کو اٹھایا اور سمندر میں اچھال دیا وہ مچھلی پانی میں جاتے ہی تیزی سے تیرتی ہوئی آگے نکل گئی پھر اس نے سکون سے دوسرے شخص کو کہا ’’ اسے فرق پڑا ‘‘ ۔یہ کہانی ہمیں سمجھا رہی ہے کہ ہماری چھوٹی سی کاوش سے بھلے مجموعی حالات تبدیل نہ ہوں مگر کسی ایک کے لیے وہ فائدے مند ثابت ہو سکتی ہے۔۔لہذا دل بڑا رکھیں اور اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق اچھائی کرتے رہیں اس فکر میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ کی اس کوشش سے معاشرے میں کتنی تبدیلی آئی ؟؟ بلکہ یہ سوچیں کہ آپ نے اپنے حصے کا حق کتنا ادا کیا۔۔!!!خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔