... loading ...
معلوم نہیں کہ بلوچستان میں غیر یقینی حالات کا اختتام کب ہوگا، صوبے میں بدامنی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ٹی ٹی پی کارندوں کی آمد پر پورا علاقہ سراپا احتجاج بن گیا۔ یقیناً ریاست متحرک تھی اور دہشتگرد گروہوں کے سوات میں ٹھکانوں کے امکانات اور اندیشوں کا خاتمہ کردیا، یہ گروہ افغانستان کے اندر سے بھتہ وصولی کے فون کر تے ہیں۔عوامی اور سیاسی حلقوں کی تشویش بجا ہے تاہم ان کے کئی الزامات درست نہیں۔ بہر حال خیبر پختونخوا میں ان گروہوں کے خطرات بدستور موجود ہیں۔ یہاں بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بدامنی کے پہلو پر نظر رکھی ہوئی۔ وقتاً فوقتاً کارروائیاں بھی عمل میں لائی جاتی ہیں۔ گویا کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ ان گروہوں سے نبرد آزمائی ہورہی ہے۔ایران کی سرزمین پر ان گروہوں کی موجودگی کی خبریں اور اطلاعات ہیں۔وفاقی شرعی عدالت اور بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کے قتل میں ملوث گرفتار ملزم نے بھی ایرانی حدود میں تربیت لینے کا انکشاف کیا ہے۔
جسٹس نور مسکانزئی کو 14 اکتوبر 2022 کو خاران میں مسلح افراد نے مسجد کے اندر عشاء کی نماز کے دوران بہیمانہ اور بزدلانہ طور پر گولیاں برسا کر قتل کردیا تھا۔گرفتار ملزم شفقت اللہ عرف دلاور عرف سجاد خاران ہی کا رہائشی ہے۔ بقول کا?نٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے یہ نوجوان نے 2020ء میں کالعدم بی ایل اے سے وابستہ ہوا اور کئی واقعات میں ملوث رہا۔ سی ٹی ڈی نے 29 اکتوبر کو تفصیلات سے آگاہ کیا جس کا اہتمام آئی جی پولیس آفس میں کیا گیا تھا۔یہاں گرفتار ملزم کا اعترافی ویڈیو بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمائندوں کو دکھایا گیا۔ کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل اعتزاز احمد گورائیہ کے مطابق گرفتار شخص محمد نور مسکانزئی کے قتل کا مرکزی ملزم ہے۔ بلاشبہ جسٹس نور محمد مسکانزئی کے قتل کی شرمناک واردات کی ذمہ داری حربیار مری سے منسوب کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی تھی۔اس واقعہ نے بلوچستان کو شرمسار کیا ہے، صوبے کی روایات، شائستگی اور بڑوں اور زعماء کے احترام اور تہذیب کا چہرہ بد نما اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے، یقیناً صوبے کے اندر اس گروہ کی مذمت و ملامت ہوئی ہے، پارلیمان میں بیٹھے بعض قوم پرستوں کی خاموشی کو بھی صریح تضاد تصور کیا گیا ہے چناںچہ اس افسوسناک واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے فوری طور پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی۔ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز احمد گورائیہ کی سربراہی میں آٹھ ارکان پر مبنی اس جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی رخشان ڈویڑن، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) خاران، ملٹری انٹیلی جنس خاران، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی ) خاران، ایف سی انٹیلی جنس خاران کے نمائندے شامل ہیں۔ڈی آئی جی اعتزاز گورائیہ نے بتایا ہے کہ گرفتار ملزم نے کالعدم بی ایل اے میں شامل ہونے کے بعد تربیت ایران کے علاقے‘‘سراوان‘‘ میں حاصل کی تھی۔ یہ ملزم 2021ء میں ایف سی چیک پوسٹ خاران پر گرنیڈ لانچر حملے، خاران کے چیف چوک پر موٹر سائیکل بم دھماکے میں بھی ملوث تھا۔جسٹس (ر) محمد نور مسکانزئی کے بھائی کے بلاک بنانے والی فیکٹری میں کام کرنے والے دو مزدوروں کو بھی فائرنگ کرکے زخمی کردیا تھا۔ خاران میں حساس ادارے کے دفتر پر گرنیڈ لانچر حملہ کرچکا ہے۔ یہاں تک کہ کوئٹہ میں بھی وارداتیں کی ہیں۔ 2022ء میں کوئٹہ کے چمن پھاٹک پر دستی بم حملے کا اعتراف بھی کیا ہے۔اعتزاز گورائیہ کہتے ہیں کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کو مشکوک کہنا غلط ہے، کئی بار کارروائیوں میں اہلکار شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، سی ٹی ڈی پولیس کا حصہ ہے، پولیس کے قوانین اور آئین کے تحت کام کرتے ہیں اور اس کا آئی جی پولیس دفتر اور محکمہ داخلہ باقاعدہ چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے۔ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں پر اگر کسی کو اعتراض و تحفظات ہیں تو محکمہ پولیس سے رابطہ کرسکتا ہے۔
اگر کسی کو شبہ ہے کہ کوئی شخص لاپتہ تھا تو اس کی ایف آئی آر بھی درج ہوئی ہوگی۔گورائیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک شخص کو مسنگ پرسن نہیں کہہ سکتے۔وفاقی حکومت، پولیس، محکمہ داخلہ بلوچستان کا باقاعدہ طریقہ ہے جس کے تحت کسی شخص کو لاپتہ قرار دیا جاتا ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے باقاعدہ فورم موجود ہے۔انہوں نے سی ٹی ڈی کی جانب سے گزشتہ ایک دو برسوں کی گرفتاریوں کی تفصیلات بھی پیش کیں اور کہا کہ‘‘ 666 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے 121 ملزمان کو سزائیں ہوئیں ،بعض کو دس دس اور چودہ چودہ سال بھی سزا ہوئی اورعدالت عالیہ نے بھی ا ن سزا?ں کی توثیق کی۔ 36 افراد ضمانت پر جبکہ 158 ملزمان مفرور اور اشتہاری ہیں جن کی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ بری بھی ہوئے ہیں جن کے خلاف عدالتوں میں اپیلیں دائر کی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کی کارروائیوں کے بعد ایک طرح سے بیانیہ بنایا جاتا ہے تاکہ سیکیورٹی ادارے زیادہ آگے نہ بڑھ سکیں۔بہر حال یہ حقیقت ہے کہ کالعدم گروہ مختلف ذرائع سے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہتے ہیں۔ 12 جولائی کو زیارت سے لیفٹیننٹ کرنل لئیق اور اس کے کزن کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے بشیر زیب دھڑا قبول کرچکا ہے۔ یہ گروہ اکثر زیادہ نقصان پہنچانے کے دعوے کرتے ہیں۔ 25 ستمبر کو ہرنائی کے خوست میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر حادثہ کو بھی اپنی کارروائی کہا۔یہ حادثہ ہرنائی کے علاقے خوست کے مقام پر پیش آیا تھا جس میں دو میجر پائلٹ سمیت چھ اہلکار شہید ہوگئے تھے۔ ان دنوں اس گروہ نے دو افراد کو اغوا کرلیا تھا جن کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ بعد ازاں رہائی کے بدلے اپنے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کردیا۔ مغویوں میں ایک صوبیدار کلیم اللہ اور دوسرا محمد فیصل ہے، بقول حکام محمد فیصل اینٹوں کا کاروبار کرتا ہے جو ہرنائی کے علاقے زرد آلود سے اغوا ہوا تھا۔31 اکتوبر کو ہرنائی ہی کے علاقے شاہرگ کے پہاڑوں میں کئے گئے آپریشن میں مسلح گروہ کے چار بندے مارے گئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن میں دو اہلکار شہید ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔